سچ آکھیاں بھانبڑ بلدا اے

نام اس کالم کا بڑے مان سے میں نےNusrat-Javed ”برملا“ رکھا تھا۔ چند ہی دنوں بعدمگر سمجھ آگئی کہ بلھے شاہ نے درست فرمایا تھا کہ ”سچ آکھیاں بھانبڑبلدااے“۔
ہمارے حکمرانوں نے عرصہ ہوا اخبارات پڑھنا چھوڑ رکھے ہیں۔ اُردو میں لکھی باتوں کا علم انہیں مصاحبین کے ذریعہ ہوجائے تو درگزر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب سے چند ماہ قبل تک پوری توجہ ہماری حکمران اشرافیہ کی ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے بنائے ماحول پر ہوا کرتی تھی۔ وہاں برپا سیاپا بھی اب اقتصادیات کے قانونِ تقلیلِ افادہ کا شکار بن چکا ہے۔ راوی لہذا حکومت اور اسمبلیوں میں بیٹھے خواتین وحضرات کے لئے چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ فکر انہیں لاحق رہتی ہے تو بس اتنی کہ ”وہ“ کیا سوچ رہے ہیں۔

”وہ“ اپنے بارے میں لکھی اور کہی باتوں کے بارے میں کافی حساس ہوا کرتے ہیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد بالآخر لیکن ایک صاف شفاف طریقہ ان کے لئے بھی دریافت ہوگیا ہے۔ اس طریقے کے مو¿ثر استعمال سے بات بڑھنے اور سننے کو وہی ملتی ہے جو اکثر ”ذرائع“ کی بدولت مہیا کی جاتی ہے۔ ان باتوں کو پھیلانے والوں کا رزق محفوظ اور زندگی نسبتاََ خوش حال رہتی ہے۔ میڈیا پر چہرہ نمائی کی وجہ سے ملی مشہوری اور ٹہکے شہکے کو اضافی بونس شمار کرلیجئے۔

اپنی صحافتی زندگی کا بیشتر حصہ میں نے انگریزی اخبارات کے لئے رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری میں صرف کیاہے۔ انگریزی زبان میں لکھتے ہوئے آپ کو ”جی دار“ دِکھنے کے مواقع زیادہ ملتے ہیں۔حکمرانوں کو یہ ”جی داری“ ایک حد تک قابلِ برداشت اس لئے بھی محسوس ہوتی ہے کہ ”بے باک مضامین“ غیر ملکی سفارت کاروں کو دکھا کر پاکستان میں صحافت کی مکمل آزادی ثابت کی جاسکتی ہے۔

اُردو میں لکھے کالموں میں حکمرانوں سے کہیں زیادہ خوف، فسادِ خلق کے امکانات کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے۔ ناگفتنی کی عادت سے مگر اب گھن آنے لگی ہے۔ذہن مفلوج ہوجائے تو اپاہجوں کی طرح لوگوں سے رحم کی بھیک مانگو۔ منافقت سے لدی اکڑ فوں کب تک ؟

بہت دنوں کے بعد اس اتوار کی صبح دھوپ بڑی آن سے میری کھڑکی کے باہر لگے درختوں کو زندگی بخشتی نظر آرہی ہے ۔ اس سے کچھ ہمت مستعارلے کر آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ایک زمانے میں”اگر تلاسازش کیس“ بنا تھا۔ اس زمانے کے مشرقی پاکستان کا ایک سیاسی رہ نما تھا جس کا نام شیخ مجیب الرحمن تھا۔

وہ کیس اپنے انجام تک نہ پہنچا مگر ایوب خان کو مکمل دس سال حکمرانی کے بعد بحفاظت گھر واپسی کا راستہ ڈھونڈنا پڑا تو شیخ مجیب کو بڑے احترام سے راولپنڈی میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے سجائی ایک راﺅنڈٹیبل کانفرنس میں شرکت کے لئے بلالیا گیا۔ ایو ب خان تو باعزت ریٹائر ہوگئے مگر پاکستان بالآخر دولخت ہوگیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ولی خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایک سازش کیس بناکر حیدرآباد ٹربیونل قائم کیا تھا۔ 1977ءمیں وہ بھی اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات پر مجبور ہوئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ولی خان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو اس وقت کے آرمی چیف ڈٹ گئے۔ 5جولائی 1977ءکو اس ملک پر قابض ہوجانے کے بعد مگر اسی ضیاءالحق نے حیدر آباد ٹربیونل ختم کردیا۔ ولی خان رہا ہوکر انتخاب سے پہلے کڑے احتساب کا مطالبہ کرنا شروع ہوگئے۔

جنرل ضیاءنے ایک حوالے سے ولی خان کا مطالبہ مانتے ہوئے بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا۔ اعلیٰ ترین فوجی نہیں بلکہ سول عدالتوں نے بھٹو کو قاتل ٹھہرایا۔ تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی۔ لوگوں کی نظر میں لیکن ان کا ”عدالتی قتل“ ہوا اور بھٹو پیپلز پارٹی کے پہلے ”شہید“ قرار پائے۔ اس ”شہادت“ کے بدلے محترمہ بے نظیر بھٹو دوبار اس ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ وہ شہید ہوئیں تو ان کے شوہر آصف علی زرداری 5سال تک پاکستان کے منتخب صدر ہوئے ا ور اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کی تاریخ بناڈالی۔

قتل کا اب ایک اور مقدمہ قائم ہوگیا ہے۔ جس قتل کے ملزم اس وقت حکومتِ پاکستان کی تحویل میں ہیں ان کے مبینہ جرم کا ارتکاب لندن میں ہوا تھا۔ قتل ایک ایسا جرم ہے جسے سکاٹ لینڈ یارڈ والے درگزر کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ برسوں تک پیچیدہ ترین کیس سے متعلق گرہوں کو کھولنے میں مصروف رہتے ہیں۔

لندن میں ہوئے جس قتل کا میں حوالہ دے رہا ہوں اس کا سراغ تقریباََ لگالیا گیا ہے۔ ملزموں کی نشان دہی تک ہوچکی ہے۔ ابھی تک لندن پولیس کو مگر یقین نہیں کہ مذکورہ قتل ملزموں نے ازخود کیا یا انہیں اُجرتی قاتلوں کے طورپر استعمال کیاگیا تھا۔

بظاہر پاکستان میں گرفتار ملزمان کسی کے ہاتھوں ”استعمال“ ہوئے۔ وہ ہاتھ کس کے تھے؟ اس کے بارے میں کم از کم میڈیا کو کچھ نہیں بتایا گیا۔ اشاروں کنایوں میں کچھ لوگوں کا ذکر آجاتا ہے۔ برطانیہ کی عدالتیں مگر ثبوت مانگتی ہیں۔ غیر جانب دار شہریوں پر مشتمل جیوری کے اطمینان کے لئے ناقابلِ تردید ثبوت۔ ایسے ثبوتوں کی ابھی تک عدم دستیابی ہی لندن پولیس کو جیوری تک جانے سے روک رہی ہے۔

کی امان پاتے ہوئے سوچ میں صرف یہ رہا ہوں کہ زیادہ بہتر نہ ہوتا اگر پاکستان اور انگلستان کے درمیا ن مجرموں کے تبادلے کے کسی باقاعدہ معاہدے کی عدم موجودگی کے باوجود لندن میں ہوئے قتل کے مبینہ ملزموں کو سکاٹ لینڈ یارڈ کے حوالے کرنے کی راہ نکال لی جائے۔ لندن میں ہوئے قتل کا ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ سراغ لگاکر مجرموں کو وہاں کی پولیس اور عدالت ہی کیفرِ کردار تک پہنچائے تو انصاف شاید زیادہ شفاف طریقے سے ہوتا نظر آئے گا۔

بس اتنی عرض گزارنے کے بعد میرا اپنی باتوں کو ”برملا“ کہنے کا دعویٰ ہوا ختم۔ چند آوارہ بلیوں کو دھوپ نے گستاخ بنادیا ہے۔ انہیں خبر ہے کہ میں بازار سے ان کے لئے تھائی لینڈ میں تیار ہوا بلیوں کا مرغوب کھانا باقاعدگی سے خرید کر ایک مرتبان میں رکھتا ہوں۔ وہ میاﺅں-میاﺅں کرتی میری توجہ چاہ رہی ہیں۔ مجھے ان کی خدمت کرنے دیں۔ شاید ان بے زبانوں کی خدمت مجھے باتوں کوکھل کر بیان کرنے کی تھوڑی ہمت بھی عطاکردے۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے