اب وہ شخص یہاں نہیں آئِیگا

"میرا نام ولی خان بابر ھے جیو انگلش کا رپورٹر ھوں”

میں پریس کلب کی ایک ٹیبل پہ بیٹھا کھانے کا انتظار کر رھا تھا کہ ، بااعتماد لہجے میں کسی نے اپنا تعارف کرایا ،

"آپ سے ملنا چاھتا تھا بہت دنوں سے کوشش میں تھا آج آپ مل ھی گئے”

میں اٹھا اور ولی بابر سے گلے ملا اور پھر ھم ساتھ بیٹھ گئے ، کھانا کھانے کے بعد جب اٹھے تو محسوس ھوا کہ گویا برسوں سے ایک دوسرےکو جانتے ھیں یہ 2007 کا کوئی دن تھا جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی ،

ولی بابر سچ مچ کا صحافی تھا ،کھرا دوک ٹوک اور تحقیق و جستجو کرنے والا!

ولی بابر اعلی تعلیم یافتہ صحافی تھا جو مختلف نظریات پہ سنجیدہ مباحث کرتا تھا ،

وقت گزرتا رھا اور ولی بابر سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں سوالات تلخ اور سنجیدہ ھوں تو کئی لوگوں کو چھبتے ھیں اور تکلیف دیتے ھیں سو بابر کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ھی رھا ،

مشکل سوال وہ اے این پی کے رھنما اسفندیاد اور شاھی سید سے بھی پوچھتا تھا اور نائن زیرو والوں سے بھی ،

علامہ احمد لدھیانوی بھی اسکے کڑوے سوالات کی زد میں ہوتے تھے اور اھل تشیع قیادت بھی اس سے نا بچ پاتی ،

ایک مسلہ یہ بھی تھا کہ ولی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا جو معاشرے سے مفقود ھوتی جارھی ھے ،

اس دوران مجھے کچھ "راز” کی باتیں پتہ چلیں جنہیں میں اسے بتانا چاھتا تھا لیکن موقع ھی نہیں ملا ااور تقدیر کا لکھا پورا ہوا ،

بابر سے آخری ملاقات علامہ عباس کمیلی کی سولجر بازار میں ہونے والی پریس کانفرنس میں ھوئی ، انکے دفتر کے باہر سڑک پہ ھم آخری بار ملے اور بہت کچھ کہا سنا ۔

اسی ملاقات میں بابر نے ایک "بڑبولے” کے بارے میں بتایا کہ وہ اس سے کیوں بغض رکھتا ھے وجہ "نجی” ھے سو جانے دیں،

جماعت اسلامی کے دفاتر ھوں یا پہلوان گوٹھ کا آپریشن ھر جگہ میرا دلیر بابر نظر آتا تھا ،

تحقیق لگن جستجو اور ڈکٹیشن قبول کرنے کے بجائے سوال اٹھانے والے کو جواب مِیں گولیاں دی گئیں ۔

فطری بات ھے جب دلیل باقی نا رھے تو بدلے میں گالی اور گولی ہی ملتی ھے ۔

ولی خان بابر اب اپنے آبائی علاقے ژوب میں ردائے خاک اوڑھے سوتا ھے ، بابر کے جنازے میں جانے کا ارداہ تھا لیکن اسوقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے فون کرکے مجھَ روکا اور کہا کہ اگلا ممکنہ نمبر تمہارا ھے اسکے بعد مجھے پہلے شہر اور پھر ملک چھوڑنا پڑا۔۔۔۔

قریبا دو برس پہلے ایک انتہائی اعلی اور حال کی طاقتور شخصیت سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا یہ میرا خود سے عہد ھے کہ ولی بابر کے قاتلوں کو انصاف کے کٹھرے میں کھڑا کروں گا اور سزا دلاوں گا ۔

وعدہ پورا ہوا اس پہ شکریہ ،
مگر کیا کروں اب وہ شخص یہاں نہیں آئے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے