مجھے یہ موسم Enjoyکرنے دیجئے

اس کالم کے لئے آج کا موضوع کل رات سے میرے ذہن میں اٹکا ہوا تھا۔ ارادہ باندھ لیا تھا کہ جیسے تیسے اس موضوع پر جو کچھ بھی بچ بچا کر لکھا جاسکتا ہے، لکھ ہی ڈالوں تاکہ ذہن میں نئے خیالات اُمڈنے کی گنجائش پیدا ہوسکے۔

منگل کی صبح اپنا چھپا ہوا کالم مگر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو اطلاع ملی کہ ہمارے The Nationکے اسلام آباد کے لئے مقامی ایڈیٹر سلمان مسعود کے گھر، جو اتفاق سے نیویارک ٹائمز کو بھی خبریںبھیجا کرتے ہیں، رات گئے چھاپہ پڑا ہے۔ جواز اس چھاپے کا چونکہ دہشت گردی کے ساتھ جوڑا گیا اس لئے وارنٹ وغیرہ حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ آخری خبریں آنے تک مگر سلمان کے گھر سے کوئی مشکوک شخص یا ممنوعہ اسلحہ نہ مل پایا تھا۔ سلمان کے دوست اگرچہ اس چھاپے کے بارے میں بہت چراغ پا ہوکر احتجاجی ٹویٹس لکھتے چلے جارہے ہیں۔

سلمان ایک نوجوان صحافی ہیں۔ اسلام آباد میں نسبتاََ نووارد بھی۔ خاموش طبع آدمی ہیں۔ میں ان سے صرف شناسائی کا الزام ہی اپنے سر لے سکتا ہوں۔ سرسری شناسائی کی بدولت اگرچہ جبلی طورپر ہمیشہ محسوس یہی ہوا کہ موصوف کا شاید زندگی بھر کبھی سائیکل کا چالان بھی نہیں ہوا ہوگا۔ بہت دھیمے، محتاط اور اپنے کام سے کام رکھنے والے آدمی ہیں۔
ریاستی اداروں نے مگر انہیں مشکوک ٹھہراکر خانہ تلاشی کی ضرورت محسوس کی تو اس کی یقینا کوئی ٹھوس وجہ رہی ہوگی۔ خود کو ’’آزادیٔ صحافت‘‘ کا ایک بلند آہنگ علم بردار ثابت کرنے کے لئے میں سلمان کی حمایت میں بڑھک بازی کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوں۔ ’’سہولت کار‘‘ ایک خوفناک اصطلاح ہے۔ اس کی ایجاد کے بعد میرے ایسے پیدائشی بزدلوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

اسلام آباد کا محض رہائشی ہوتے ہوئے ویسے بھی میں نے کم از کم تین جمعتہ المبارک کی ایسی دوپہریں بھی برداشت کی ہیں جب بغیر کسی پیشگی اطلاع کے میرا موبائل فون 12بجے سے نمازِ جمعہ کے اوقات کے اختتام تک بند رکھا گیا۔ اس بندش کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اسلام آباد میں ایک لال مسجد ہوتی ہے۔ اگرچہ ضیاء الحق کے اسلامی دور میں اس کے سرخ رنگ کو سبز میں تبدیل کردیا گیا تھا مگر کہلاتی اب بھی لال مسجد ہے۔ مولانا عبداللہ اس کے خطیب ہوا کرتے تھے۔ افغان جہاد کی سربلندی میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔ اسلام آباد کے کئی طاقت ور افسران جن کا تعلق عام بیوروکریسی کے علاوہ چند بہت ہی ’’حساس‘‘ اداروں سے بھی ہوا کرتا تھا۔ مولانا عبداللہ کے دل وجان سے عقیدت مند تھے۔ کچھ مفسدین نے مگر انہیں قتل کردیا۔
ان کی ہلاکت کے بعد لال مسجد کی خطابت ان کے فرزند مولانا عبدالعزیز کو ورثے میں ملی۔ ان مولانا نے مگر جنرل مشرف کو کچھ وجوہات کی بناء پر ناراض کردیا۔ آپریشن وغیرہ کرنا پڑا۔ بہت شوروغوغا مچا۔

نواز شریف صاحب نے تیسری بار اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد TTPکے نام سے سرگرم عمل ’’ناراض بھائیوں‘‘ کو مذاکرات کے ذریعے آئینِ پاکستان کی سربلندی تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا چاہا تو مولانا عزیز سے بھی رجوع کرنا پڑا۔ ٹی وی سکرینوں پر البتہ مولانا عزیز نے آئینِ پاکستان کی ’’غیر شرعی بنیادوں‘‘ کی دھجیاں اُڑادیں۔ خوب رونق رہی اور بالآخر آپریشن ضربِ عضب شروع ہوگیا۔

اس آپریشن کی وجہ سے مولانا عزیز اب اس ملک کے بہت ہی ’’آزاد‘‘ میڈیا کے چہیتے بالکل نہیں رہے۔ اقبال کا مومن اگر بے تیغ بھی لڑنے کو تیار ہوجاتا تھا تو آج کے ’’مجاہدین-بے میڈیا‘‘ اپنی آن دکھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ مولانا عزیز نے بھی ارادہ باندھ لیا کہ وہ کسی جمعتہ المبارک کے روز اسلام آباد کی لال مسجد پہنچ کر وہاں کے منبر سے پاکستان میں ’’شرعی نظام‘‘ کے نفاد کا اعلان کردیں گے۔

[pullquote]چودھری نثار علی خان ویسے تو جلالی آدمی ہیں۔ لیکن کچھ افراد کے معاملے میں محض جلال کے بجائے تدبیر کو روبہ کارلاتے ہیں۔ انتظامی امور کے حتمی ماہر ہوتے ہوئے فیصلہ انہوں نے یہ کیا کہ خواہ مخواہ کا پھڈا مول نہ لیا جائے۔ پولیس کی ایک چوکس گارڈ مولانا عزیز کو بس لال مسجد تک آنے نہ دے۔ اس دوران ممکنہ فسادیوں کو Strategicحوالوں سے بے خبر رکھنے کے لئے دوپہر 12بجے سے سہ پہر کے تین بجے تک پورے اسلام آباد کے موبائل سگنلز Jamکردئیے جائیں۔
[/pullquote]

موبائل فونز کی اس بندش نے اسلام آباد کے تمام شہریوں کو مولانا عزیز کے ’’سہولت کار‘‘ کی مانند سمجھ کر ’’اجتماعی سزا‘‘ سے نوازا۔ اب سنا ہے کہ مولانا عزیز کے ساتھ ہماری ریاست کے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے لال مسجد کے منبر سے شرعی نظام کے نفاد کا اعلان فی الحال مؤخر کردیا ہے۔ لاٹھی توڑے بغیر خطروں کو ٹال دینے کا جو ہنر چودھری نثار علی خان کے تخلیقی ذہن نے سوچا اپنے تئیں ایک نظیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ دُنیا بھر کے وہ ممالک جو دہشت گردی سے نبٹنے کے طریقے ڈھونڈرہے ہیں حکومتِ پاکستان سے ہمارے وزیر داخلہ کی متعارف کردہ ٹیکنالوجی کی باریکیاں سمجھنے کی درخواستیں بھیج رہے ہوں گے۔

ذہنی غلام کی سب سے گہری مگر غلام ہوئے ذہنوں کے لئے سب سے مکروہ قسم وہ ہوتی ہے جہاں مفلوج ہوئے اذہان کو اپنی بے بسی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اقبال نے مفلوج ہوئے ذہنوں کی بدولت کسی قسم کی اجتماعی نفسیات میں جبلی طورپر گھسائے اس رویے کو ’’خوئے غلامی‘‘ ٹھہرایا تھا۔ اپنی ساری عمر وہ اس خوئے غلامی کے بار ے میں ماتم کنائی میں مصروف رہے۔
آج کے پاکستان میں بہت گھن گرج کے ساتھ رشوت، بدعنوانی اور بری حکومت کی مذمت میں مشغول لکھاری اور نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر پھیلے مسلمانوں کے خلاف اغیار کی سازشوں کو بے نقاب کرتے دانشور بھی ایک مخصوص نوعیت کی ’’خوئے غلامی‘‘ کا شکار بن چکے ہیں۔بہت ہی دلچسپ پہلو اس ذہنی غلامی کا یہ بھی ہے کہ اس خو میں مبتلا خواتین وحضرات میڈیا کے سٹارز ہیں۔ زندگی ان کی خوش حال ہے۔ ایمان ان کے سلامت اور وطن سے ان کی بے پناہ محبت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

میں نے جس موضوع پر لکھنا تھا وہ گیا بھاڑ میں۔ بہت دنوں کے بعد اسلام آباد میں بارش ہوئی ہے۔ پتوں کے رنگ گرد سے آزاد ہوکر بچوں کی معصوم ہنسی کی طرح دل موہ رہے ہیں۔ مجھے یہ موسم Enjoyکرنے دیجئے۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے