جعلی وڈیو

کیا مذہبی انتہا پسندی کے خلاف مقدمہ، محض ایک وڈیو پر قائم تھا؟ وڈیو کے جعلی ثابت ہو جانے سے یہ مقدمہ کالعدم ہو گیا؟کیا مذہبی انتہاپسندی ایک واہمہ ہے؟ اﷲ کا آخری الہام یہ کہتا ہے کہ ہمیں حق بات کہنی چاہیے۔ کسی گروہ کی دشمنی ہمیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ ہم انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں۔

انسان سود و زیاں کے پیرائے میں سوچتا ہے۔ وہ ‘سود‘ جو اس دنیا سے وابستہ ہے یا وہ زیاں جو یہاں درپیش ہو سکتا ہے۔ زندگی کو طبیعیات سے ماورا دیکھنے والا بھی سود و زیاں کے دائرے میں سوچتا ہے مگر اس کا کینوس وسیع تر ہو جاتا ہے۔ وہ دائمی زیاں سے بچنا چاہتا اور ہمیشہ کے ‘سود‘ کے بارے میں سوچتا ہے۔ زندگی کو ماہ و سال کے پیمانے سے ناپنے والا ساٹھ ستر سال کی عمر کو سامنے رکھتا اور نفع نقصان کا فیصلہ کرتا ہے۔ خدا کے الہام کو ماننے والا مگرایک دوسری تقویم پر ایمان رکھتا ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کے خلاف لہر اٹھی تو بہت سے لوگوں نے اس حادثے کو دنیاوی سود و زیاں کے پہلو سے دیکھا۔ مغرب نے ان لوگوں کے لیے سخاوت کے دریا بہا دیے جنہوں نے مذہبی انتہا پسندی کے مظاہرکو بنیاد بنا کر، مذہب ہی کے مقدمے کو چیلنج کر دیا۔ شاید یہی وہ پس منظر تھا جب یہ وڈیو سامنے آئی۔ اسے مذہبی انتہا پسندی کے ایک مظہر کے طور پر دکھایا گیا کہ کیسے ایک خاتون کو ایک غیر اخلاقی حرکت پر سزا دی جا رہی ہے۔ یوں اسلام کا قانون جرم و سزا بھی ا س کی لپیٹ میں آ گیا۔ افسوس اُن لوگو ں پر جنہوں نے ایک جھوٹ پر اپنا مقدمہ کھڑا کیا۔ یہ تارِ عنکبوت تھا سو بکھر گیا۔

سوال مگر اپنی جگہ کھڑا ہے۔ کیا مذہبی انتہا پسندی کے خلاف واحد شہادت یہی وڈیو تھی؟ اگر یہ وڈیو نہ ہوتی تو کیا سوات میں آپریشن کا کوئی جواز نہ تھا؟ ان سوالات کا جواب وہی اثبات میں دے سکتا ہے جو خود کو ہر اخلاقی پابندی سے آزاد کر دے۔ واقعہ یہ ہے کہ پاک سر زمین کا اپنا وجود اس مذہبی انتہا پسندی کے خلاف مدعی ہے۔ اس کے چپے چپے پر زخم ہے۔ یہ سر زمین اپنے زخم دکھاتی اور پھر سوال کرتی ہے کہ کیا مذہبی انتہا پسندی نے اس کے وقار، عزت و آبرو اور اس کی سالمیت کو برباد نہیں کیا؟ کیا اس کی روح کو فساد اور بد امنی سے چھلنی نہیں کیا؟ کیا اس نے اس سر زمین پر خوف کے بیج نہیں بوئے؟ اس پاک سر زمین کا ایک ایک کونہ نوحہ گر ہے، اپنے زخمی وجود کو بطور شہادت پیش کر رہا ہے۔ کیا سماج اور ریاست کی عدالت میں،انسانی ضمیر کے سامنے یہ شہادت کافی نہیں ہے؟ کاش لوگ انصاف پر قائم رہتے۔ وڈیو جعلی تھی تو کیا مقدمہ بھی جعلی ہے؟ وہ حادثہ کیا جعلی تھا جو ملالہ کے چہرے پر انمٹ نقوش چھوڑگیا؟

مولانا صوفی محمد کی تحریک سے لے کر ملا فضل اﷲ تک، سوات میں جنم لینے والے مذہبی خیالات سے اختلاف و اتفاق سے قطع نظر، ان کے حقیقت ہونے میں کسی کو شبہ نہیں۔ سوات میں جو معرکہ لڑا گیا، وہ اس ملک کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ سب سے بڑھ کر پورے ملک میں ان گنت دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ بتایا گیا کہ ساٹھ ہزار پاکستانی اس کی نذر ہوگئے۔ ایک مقدمہ ہے جو مذہبی بنیاد پر قائم ہوا اور کئی تنظیمیں تھیں جنہوں نے اس مقدمے کو بطور منشور اختیار کیا اور اسے ایک عملی حقیقت میں ڈھالنے کے لیے منظم جدو جہد کی۔ ان گنت کتابیں لکھی گئیں اور بے شمار لوگوں نے ہتھیاراٹھائے۔ ایک وڈیو جعلی ثابت ہو جائے تو بھی ہم ان حقائق سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔

نظریاتی بنیادوں پر پاکستان میںہونے والی تقسیم سے اگر سب سے زیادہ کسی کو نقصان پہنچا ہے تو وہ حق و انصاف کا پیمانہ ہے۔ لوگوں نے گروہی مفادات میں سوچا اور یوں انصاف کا خون ہوا۔ مذہب سے بیزار طبقے نے اس انتہا پسندی کو غنیمت جانا اور مذہب کی ضرورت سے ہی انکارکر دیا۔ اہل مذہب نے ہر اس نظریے اور گروہ کا دفاع کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھا جو اسلام کا نام لیتا یا امریکہ کی مخالفت کا عَلم اٹھاتا ہے۔ اس گروہ کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اس سے اسلام کی تعلیم کتنی مجروح ہوتی ہے اور اسلام کی نمائندگی کس گروہ کے ہاتھ میں جا رہی ہے۔ وہ ایک گروہی عصبیت ہی کو اسلام سمجھتا ہے۔ وہ اس بات کو نظر انداز کر تا ہے کہ اسلام حق و باطل کا پیمانہ ہے،گروہی عصبیت کا نام نہیں۔ جعلی وڈیو کے پس منظر میں لکھی جانے والی تحریریں اور خطبات اسی ذہن کو بیان کر رہی ہیں۔

لازم ہے کہ ملک میں مکالمہ ہو۔ ہم ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھیں۔ پاکستان میں فساد برپا ہے۔ اس باب میں دو آراء نہیں ہیں۔ یہ فساد ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ بشیر بلور جیسے سیکولر بھی اس کا ایندھن بنے اور مولانا حسن جان جیسے مذہبی بھی۔ عام و خاص، شیعہ و سنی، سب تک اس کے اثرات پہنچے۔ یہ اجتماعی خود کشی ہو گی کہ اس فساد کے خاتمے کو موضوع بنانے کے بجائے، ہم گروہی تناظر میں سوچیں اور دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں۔

افسوس یہ ہے کہ اس کی زد میں اگر کوئی اخلاقی قدر آئے تو ہم اس کو روندتے ہوئے گزر جائیں اور ہماری جبین پر کوئی قطرہ انفعال دکھائی نہ دے۔

عوامی سطح پر پاکستان میں ایک وحدت فکر پیدا ہو چکی۔ فساد سے نجات پر سب متفق ہیں۔ اس کے اسباب پر گفتگو ہو سکتی ہے اور اس سے نجات کے لائحہ عمل پر بھی۔ اس کے لیے لیکن دو شرائط ہیں۔ ایک گروہی عصبیت سے بالاتر ہونا، دوسرا انصاف کا راستہ۔ وڈیو کے جعلی ثابت ہونے سے اگر مذہبی انتہا پسندی کو واہمہ قرار دیا جائے یا داعش کی بنیاد پر مذہب ہی کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے تو اس سے پاکستان کا بھلا ہے نہ مذہب کا۔

ہمیں سماج کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے بدستور ابہام کی گرفت میں ہیں۔ وزیر داخلہ سے لے کر ریاستی اداروں تک مجھے کہیں اصابت فکر دکھائی نہیں دیتی۔گروہی یا نظری تعصب کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ ہم مکمل تصویر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس سے نجات لازم ہے۔
جھوٹ کے سہارے پر جنہوں نے مقدمہ قائم کیا، وہ زیاں میں رہے۔ بظاہر شاید انہوں نے کچھ سود پا لیا ہو۔ انہوں نے اپنی اخلاقی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ ان کے پیش نظر سود و زیاں کا اپنا پیمانہ ہے۔

ایک پیمانہ مگر خدا کے الہام کو ماننے والوں کے سامنے بھی ہے۔ اس کے نزدیک اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ پیمانہ آخرت کے خسارے کو اصلی نقصان قرار دیتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ انصاف کیا جائے۔کسی گروہ کی دشمنی ہمیں انصاف سے دور نہ کر دے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، یہ ترازو ایک دن لگنا ہے اوراس کا تمام اختیار اس عالم کے پروردگار کے ہاتھ میں ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے