دھوکہ ہو تو ایسا

یوں تو چین پاکستان اکنامک کاریڈور،ان سات کاریڈورز میں سے ایک ہے جن کے ذریعے چین مختلف خطوں کو اقتصادی بندھنوں میں اپنے ساتھ منسلک کررہا ہے لیکن تزویراتی اور جغرافیائی قربتوں کی وجہ سے پاکستان سے گزرنے والا کاریڈور ،چین کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔موجودہ چینی قیادت کی ترجیحات میںیہ سرفہرست ہے ، جس پر عرصہ دراز سے غور ہورہا تھا اور پاکستانی حکومت کے ساتھ اس سے متعلق ابتدائی بات چیت سابقہ حکومت میں ہی ہوئی تھی۔ میاں نوازشریف کے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے سے چند روز قبل چینی وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کا ایک اہم مقصد اس حوالے سے ابتدائی خاکہ تیار کرنا تھا اور پھر اسی تناظر میں حلف اٹھاتے ہی وزیراعظم نوازشریف، جولائی 2013ء میںچین گئے اور اسی دورے میں چین پاکستان اکنامک کاریڈور سے متعلق مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ اسی مفاہمت کی بنیاد پر پاکستان میں وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور چین میں نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کمیشن (NDRC) فوکل وزارتیں قرار پائیں اور ان دونوں وزارتوں کے تجویز کردہ افراد پر مشتمل جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (JCC) بنائی گئی ۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے وزیر ہونے کے ناطے احسن اقبال صاحب پاکستان کی طرف سے جے سی سی میں قیادت کررہے ہیں ۔

جے سی سی میں دونوں حکومتوں کے تجویز کردہ افراد شریک ہوتے ہیں جبکہ اس کے تحت پلاننگ، ٹرانسپورٹ ، انرجی اورگوادر وغیرہ کیلئے ورکنگ گروپ بنائے گئے ۔ چین پاکستان اکنامک کاریڈور کے حوالے سے کسی اسمبلی، کسی کمیٹی ، کسی وزارت، کسی ڈویژن وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل باڈی یہی جے سی سی ہے ۔ اس فورم پر دونوں ممالک کی حکومتیں اپنی اپنی تجاویز لاتی ہیں اور پھر باہمی مشاورت سے اس کی منظوری دی جاتی ہے ۔ اسی جے سی سی نے روٹ سمیت اصل منصوبوں کی منظوری چینی صدر کے دورہ پاکستان سے پہلے دی تھی اور اس کے بعد وزیراعظم کی اے پی سی سمیت جو کچھ بھی ہوا ہے ، سراسر ڈرامہ بازی ہے اور سیاسی قیادت کا کوئی فیصلہ یا اعتراض آج تک جے سی سی میں چینی قیادت کے سامنے نہیں لایا گیا۔ اس جے سی سی کے ٹرانسپورٹ سے متعلق ورکنگ گروپ کا پہلا اجلاس 9جنوری سے 11جنوری 2014تک پاکستا ن میں منعقد ہوا جس میں پاکستان کی طرف سے تجویز کردہ روٹ (سنکیانگ، خنجراب، اسلام آباد، لاہور، ملتان، سکھر، کراچی اور گوادر) کی منظور ی دیدی گئی ۔ چین اور پاکستان کے مابین ، پاکستانی گروپ کی تجویز پر اسی روٹ پر اتفاق ہوا ہے ، اس پر کام شروع ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم کی اے پی سی کے بعدبھی تادم تحریر کسی جے سی سی میں مغربی روٹ کا چینی پارٹنروں کے ساتھ سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے۔

میں جو کچھ لکھ رہا ہوں ، چین اور پاکستان کی مشترکہ دستاویزات سے لکھ رہا ہوں اور جو دعویٰ کررہا ہوں ،وہ ان دستاویزات کے تناظر میں کررہا ہوں ۔ یہ دستاویزات پڑھ کر میں خود دم بخود رہ گیا کہ کس ڈھٹائی کے ساتھ ہماری حکومت پوری سیاسی قیادت کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرکے مسلسل جھوٹ بول رہی ہے ۔ابھی تک جے سی سی کی پانچ میٹنگز ہوئی ہیں ۔ پہلی میٹنگ 27اگست 2013کو اسلام آباد میں، دوسر ی 9فروری 2014 کو بیجنگ میں، تیسری 27 اگست 2014ء کو بیجنگ میں، چوتھی میٹنگ 25مارچ 2015 ء کو پھر بیجنگ میں اور پانچویں میٹنگ 12نومبر 2015 کو کراچی میں ہوئی۔ ہم جانتے ہیں کہ پانچویں میٹنگ سے پہلے (28مئی 2015کو)اے پی سی میں وزیراعظم صاحب نے پوری سیاسی قیادت کے اتفاق کے بعد قوم کے ساتھ وعدہ کیا کہ مغربی روٹ کو ترجیحی بنیادوں پرپہلے مکمل کیا جائے گا لیکن اس کے بعد نومبر 2015 میں جے سی سی کی جو میٹنگ ہوئی ، اس میں احسن اقبال صاحب نے مغربی روٹ کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس میٹنگ کے منٹس میرے سامنے ہیں اور وزیراعظم کے وعدے یا اے پی سی کے فیصلوں کی طرف اس میں کہیں اشارہ بھی نہیں کیا گیا۔ گویا چینی دوستوں کی کتاب میں ابھی تک مغربی روٹ کا ذکر تک ہی نہیں اور اس حوالے سے اے پی سی میں وزیراعظم کا اعلان اور پھر مغربی روٹ کے نام پر ژوب مغل کوٹ روڈ کا افتتاح مذاق کے سوا کچھ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ چینی دوست حیران بھی ہیں اور پریشان بھی ۔کیونکہ جس بات پر پاکستان میں طوفان کھڑا ہوا ہے ، آج تک حکومت پاکستان نے متعلقہ فورم یعنی جے سی سی پر ان کے سامنے ذکر تک نہیں کیا۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ قوم ، سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کے سامنے حکو مت کی طرف سے جھوٹ صرف روٹ سے متعلق نہیں بولاجارہا ہے بلکہ ساری عمارت جھوٹ پر استوار کی گئی ہے ۔ مثلاً حکومتی ترجمان یہ غلط بیانی کررہے ہیں کہ انرجی کے منصوبوں کا تعین چینی سرمایہ کار کرتے ہیں لیکن جو دستاویزات میرے ہاتھ آئی ہیں ، ان کی رو سے پہلے جے سی سی میں حکومت پاکستان ترجیحات سامنے لاتی ہے اوروہاں منظوری کے بعد چینی حکومت سرمایہ کاروں کی جو فہرست فراہم کرتی ہے ،اس میں حکومت پاکستان کمپنی کا انتخاب کرتی ہے ۔ جب ہم جیسے لوگوں نے مغربی روٹ پر چھ لائن کی موٹروے کا مطالبہ کیا تو حکومت کی طرف سے کہا جانے لگا کہ کراچی لاہور موٹروے کا سی پی ای سی سے براہ راست تعلق نہیں اور یہ نوے کی دہائی میں موٹروے کے منصوبے کے تحت بن رہی ہے لیکن دستاویزات کے مطابق 9جنوری 2014 کے جوائنٹ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں حکومت پاکستان نے کراچی لاہور موٹروے کے ملتان سکھر سیکشن کو سی پی ای سی کا حصہ بنانے کی تجویز دی جبکہ اسی اجلاس میں لاہور کا اورنج لائن پروجیکٹ بھی چینی دوستوں کے سامنے منظوری کیلئے رکھا گیا ۔ یہ پروجیکٹ ورکنگ گروپس میں میچور کئے جاتے رہے اور12نومبر 2015کو کراچی میں منعقدہ جے سی سی کے اجلاس میں اس کی منظوری د یدی گئی ۔ جے سی سی کے اسی اجلاس جس کی صدارت چین کی طرف وانگ زیاوتاو(wang Xiaotao) اور پاکستان کی طرف سے پروفیسر احسن اقبال کررہے تھے کے منٹس کے پیرا نمبر 20کے الفاظ یہ ہیں کہ :
[pullquote]JCC noted both sides reach consensus on the loan amount of US$1.626 billion for Lahore Orange Line Metro Train Project at the mutually agreed composite interest rate and initiated the relevant documents during the 5th JCC meeting.
[/pullquote]

ان دستاویزات کے مطابق سی پی ای سی کے قلیل المیعاد منصوبوں کی تمام تفصیلات طے ہوچکی ہیں ۔ فری اکنامک زونز سے لے کر ریلوے ٹریک کو ڈبل کرنے تک اور فائبر آپٹک سے لے کر توانائی کے منصوبوں تک ، سب منصوبوں پر کام ہورہا ہے ۔ کسی بھی حوالے سے چینی حکومت یا پھر اس کے سرمایہ کاروں نے اپنی رائے مسلط نہیں کی ہے ۔ احسن اقبال صاحب کی وزارت یا پھر ان کے بنائے ہوئے ورکنگ گروپس نے سال دو سال پہلے منصوبے ، ان کے مقامات اور روٹس وغیرہ تجویز کئے ہیں ۔ طویل غوروخوض کے بعد چین کے دوستوں کے ان کی منظوری دی ہے ۔ اکثر منصوبوں پر تیزی مگر خاموشی کے ساتھ کام ہورہا ہے ۔ حویلیاں اسلامآباد موٹروے ، سکھر ملتان یا پھر رتوڈھیرو گوادر موٹروے اسی تناظر میں بن رہے ہیں ۔ اب حکومت پاکستان چاہے بھی تو اکیلے نہ روٹ تبدیل کرسکتی ہے اور نہ کسی اور منصوبے میں ردوبدل لاسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چینی دوست پریشان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومتی ترجمان جھوٹ پہ جھوٹ بول رہے ہیںلیکن آخر کب تک۔ جتنی ہٹ دھرمی ، خاندان پرستی اور علاقہ پرستی کرنی تھی، حکمرانوںنے کرڈالی لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئےکہ اس گیم چینجر منصوبے کو متنازع بناکر وہ جس ظلم عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں اس پر تاریخ اور چھوٹے صوبوں کے عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ لیکن صرف حکمران نہیں بلکہ یہ قوم عمران خان صاحب کو بھی کبھی معاف نہیں کرے گی کہ جو اس وقت کنٹینر پر کھڑا چینی صدر کی آمد اور سی پی ای سی کا مذاق اڑاتا رہا جب حکمران اس منصوبے میں من مانی تبدیلیاں کررہے تھے ۔ تاریخ کبھی پرویز خٹک کو بھی معاف نہیں کرے گی کہ جو فیصلہ سازی کے وقت تو کاریڈور سے بے خبر اور کنٹینر پر جھوم رہے تھے لیکن اب جب انہیں ہوش آیا تو اچانک مرنے مارنے پر تیار ہوگئے۔ اس خطے کے مجبور عوام بلوچستان کے ان قوم پرست حکمرانوں کو بھی معاف نہیں کریںگے کہ جو اقتدار کے نشے میں اس قدر مست رہے کہ جب احسن اقبال صاحب ان کی نسلوں کی تقدیر کے بارے میںمن مانے فیصلے کرتے رہے تووہ خاموش تماشائی بنے رہے ۔ تاریخ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی معاف نہیں کرے گی کہ جو پاکستان میں جوڑ کا ذریعہ بننے والے اس منصوبے کو توڑکا ذریعہ بنتے دیکھ رہے تھے لیکن سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے خاموش رہے ۔لیکن مجرموںکے سرخیل آج کے حکمرانوں کو کہا جائے گاکیونکہ وہ صرف پاکستانیوں کے نہیں بلکہ چین جیسے عظیم دوست کے مجرم بھی قرار پائیں گے۔ –

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے