مولانا مسعود اظہر، ایک پراسرار کردار

یہ ان دنوں کی بات ہے جب مولانا مسعود اظہر کئی سالہ بھارتی قید سے رہا ہوئے تھے۔ ان کی یہ رہائی بھارتی طیارہ (انڈین ایئر لائن فلائٹ کی 814) ہائی جیک کر کے ممکن ہوسکی، جس میں ان کے علاوہ عمر سعید شیخ (جو آج کل امریکی صحافی ڈینی¿ل پرل کے قتل کیس میں جیل میں ہیں) اور مشتاق زرگر بھی آزاد ہوئے تھے۔ میں ان دنوں اردو ڈائجسٹ لاہورکے لیے کام کر رہا تھا۔ بھارتی طیارے کی ڈرامائی ہائی جیکنگ اور پھر مسعود اظہر کی رہائی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ اگلے شمارے کی ٹائٹل سٹوری اسی واقعے پر بنانی چاہیے۔ دفتر میں کام کرنے والے ایک نوجوان کو بہاولپور بھیجا گیا، جہاں وہ مسعود اظہر کے بھائیوں سے ملے اور ان کے مدرسے میں کئی گھنٹے گزارے، نوجوان طلبہ سے گپ شپ کی۔ ہرکوئی مولانا مسعود اظہر کی کرشماتی شخصیت کا اسیر تھا۔ نوجوان واپسی پر ایک دلچسپ اور تفصیلی رپورٹ لے کر آیا، مسعود اظہر کی تصویر ٹائٹل پر لگا کر ہم نے وہ رپورٹ شائع کی۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب نوجوان لکھاری نے اصرار کیا کہ اس کے نام کے ساتھ اظہرکا لاحقہ لگایا جائے۔ معلوم ہوا کہ فیچر رائٹر پر ملے بغیر ہی مسعود اظہر کا جادو چل گیا ہے اور اظہر

نام اس وجہ سے لگایا جا رہا ہے کہ اس مدرسے کے بیشتر نوجوانوں نے اپنے نام کے ساتھ عقیدتاً اظہرکا اضافہ کر رکھا تھا۔ یہ مسعود اظہر کی کرشماتی شخصیت کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔
پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کے ساتھ ہی جیش محمد اورمولانا مسعود اظہر کا نام آنے لگا۔ دو روز قبل تمام اخبارات کی لیڈ تھی: مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے خبریں لگائیں کہ مسعود اظہر، ان کے بھائی اور متعدد ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ پاکستانی اخبارات میں جیش محمد کے دفاتر بند ہونے کے حوالے سے خبریں شائع ہوئیں۔ بعض نیوز ٹاک شوز میں یہ سوالات بھی اٹھائے گئے کہ اب تک جیش محمد کے دفاتر کیسے چل رہے تھے اور جیش محمد کو آپریشن ضرب عضب کے دائرے میں کیوں نہیں لایا گیا؟ اگلے روز سینئر صحافی سجاد میر کے مارننگ شو میں یہی سوال مجھ سے کیا گیا۔ میرا جواب تھا کہ کون سے دفاتر؟ کوئی بتا سکتا ہے کہ کس جگہ جیش محمد کا دفتر تھا، اس کے نام کا بورڈ آویزاں تھا یا وہاں جیش کے کارکن بیٹھا کرتے تھے؟ مگر اب وہ دفتر سیل ہوچکا،کارکن گرفتار ہوگئے وغیرہ وغیرہ۔

سچ یہ ہے کہ سب محض باتیں ہیں۔ کہیں جیش محمد کے دفاتر تھے نہ ہی وہ سیل ہوئے۔ یہ سب تو تیرہ سال پہلے ہوچکا۔ جنرل مشرف نے 2002ءمیں تمام جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی تھی، اس وقت ان کے تمام دفاتر بند کر دیے گئے اور کچھ لوگ پکڑے گئے، باقی منتشر ہوگئے یا انڈرگراﺅنڈ جانے پر مجبور ہوگئے۔ 2003ءمیں جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے بعد سابق جہادی تنظیموں پر شدید قسم کا کریک ڈاﺅن ہوا تھا، جس میں حرکة الجہاد، حرکت المجاہدین اور جیش محمد خاص طور پر متاثر ہوئے۔ حرکة الجہاد بری طرح ٹوٹ پھوٹ گئی۔ پرویز مشرف پر حملے کے حوالے سے جیش محمد کا نام بھی آیا، اس لیے جیش کے لڑکے بھی تفتیش کا ہدف رہے۔ پھر بعد میں یہ بات صاف ہوگئی کہ اس میں مسعود اظہر شامل نہیں۔

جہادی تنظیموں کے کمانڈروں اور جنگجوﺅں کے گرد ایک پراسرار سا ہالہ قائم ہوجاتا ہے۔ ان کے بارے میں متضاد قسم کی اطلاعات یا افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں، کسی کی تصدیق کرنا ممکن نہیں رہتا، یوں شکوک وشبہات اور پراسراریت کا امتزاج ان کی شخصیتوں کو ایک خاص قسم کی اساطیری شکل دے دیتا ہے۔ مولانا مسعود اظہر کے بارے میں بھی قطعیت سے کچھ کہنا آسان نہیں۔ پراسراریت کا ایک دبیز ہالہ ان کے گرد بھی موجود ہے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ ان کا تعلق بہاولپور کے قریب ایک گاﺅں سے ہے ،مگر ان کا مدرسہ شہر میں موجود ہے۔ عالمی میڈیا میں اسے قلعہ نما عمارت کہا گیا۔ یہ بات تو درست ہے کہ اس کی دیواریں معمول سے زیادہ بلند ہیں، خاصا وسیع وعریض بھی ہے، مگر بہرحال وہ مدرسہ ہی ہے،کوئی عسکری کیمپ نہیں۔ مسعود اظہر کے والد اللہ بخش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سکول ٹیچر رہے۔ مسعود اظہر نے دینی تعلیم کراچی کے معروف دینی مدرسہ جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاﺅن سے حاصل کی ۔ یہ مدرسہ ممتاز دیوبندی عالم دین مولانا یوسف بنوری نے قائم کیا تھا۔انیس بیس سال کی عمر میں انہوں نے روس کے خلاف جاری افغان تحریک مزاحمت میں شمولیت اختیا رکی ۔ وہ حرکت المجاہدین کے پلیٹ فارم کا حصہ بنے۔ یہ غالباً1988ءکا اوائل تھا یا ستاسی کا اواخر ،۔ مسعود اظہر کے حوالے سے انٹرنیٹ پر موجود پروفائلز میں لکھا ہے کہ وہ افغان جہاد میں زخمی ہوئے۔تاہم ان کے پرانے ساتھی بتاتے ہیں کہ نوجوان مسعود اظہرکو باقاعدہ طور پر اس گوریلا جنگ میں حصہ لینے کا موقعہ نہیں ملا تھا، کہ سوویت یونین کی واپسی بہت قریب تھی۔ انہوں نے حرکت المجاہدین کا ابتدائی نوعیت کا کورس تاسیسیہ کیا تھا۔ یہ چالیس روزہ کورس ابتدائی مرحلے میں کرایا جاتا تھا، جس میں کلاشن کوف کے ساتھ ایک دو ہلکے ہتھیار چلانے سکھائے جاتے تھے۔ حرکت المجاہدین کا ایک بڑا تربیتی کورس ”جنداللہ “تھا،جو چھ ماہ پر مشتمل تھا۔ مسعود اظہرنے وہ کورس نہیں کیا ہوا۔ دلچسپ بات ہے کہ حرکت المجاہدین کے اس تربیتی کورس کے نام ”جنداللہ “کو بعد میں ایران کے خلاف برسرپیکار شدت پسند تنظیم جنداللہ نے استعمال کیا اور اس اصطلاح کو اپنا نام بنا دیا۔ مسعود اظہر زخمی تو ہوئے تھے، لیکن کہا جاتا ہے کہ دشمن کے حملے میں نہیں بلکہ اپنے ایک ساتھی کے چلانے جانے والے راکٹ کے شعلے سے ان کی ٹانگیں جھلس گئی تھیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ جہادی کمانڈروں کے حوالے سے مختلف کہانیاں ملتی ہیں، کسی میں مبالغے کی انتہاہوتی ہے تو کسی میں بے رحم حقیقت پسندی اپنے عروج پر۔مولانا مسعود اظہر کو شہرت اپنی تقریروں اور جہادی لٹریچر کے حوالے سے ملی۔ ان کی لکھی کتابیں مختلف جہادی تنظیموں کے جہاد لٹریچر کا حصہ بنی رہیں اور بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تحریروں اور تقریروں سے متاثر ہو کر ہزاروں نوجوان جہاد کشمیر کی طرف آئے۔ یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا، جب ابھی نائن الیون نہیں ہوا تھا اور ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت کے حوالے سے عالمی رویہ قدرے نرم تھا۔

مسعود اظہر حرکت المجاہدین کے مرکزی رہنماﺅں میں سے تھے، اس تنظیم کے سربراہ کمانڈر فضل الرحمن خلیل تھے۔ نوے کے عشرے میںدو سابق کشمیری تنظیموں حرکت المجاہدین اور حرکتہ الجہاد الاسلامی کو ملا کر حرکت الانصار کا نام دیا گیا۔ حرکت الانصار نے سال ڈیڑھ کے اندر ہی مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایسی موثر کارروائیاں کیں کہ بھارتی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ بعد میں حرکت الانصار دوبارہ سے ٹوٹ گئی۔ 94ءمیں مولانا مسعود اظہر کو سری نگر سے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ باقاعدہ طور پر صحافی کا ویزہ لے کر گئے تھے، مگر بھارتی حکومت کا الزام تھا کہ وہ حرکت المجاہدین کے سیکرٹری جنرل اور معروف جہادی کمانڈر سجاد افغانی کے ساتھ مل کر حرکت الانصار کے دونوں الگ ہوئے دھڑوں میں اختلافات ختم کرانے گئے تھے۔ اس الزام میں مسعود اظہر مشہور بھارتی جیل کوٹ بھلوال میں قید رہے ۔ انہیں قید سے نکالنے کے لیے ان کے جہادی ساتھیوں نے دو بڑے آپریشن کئے، ایک بار کئی غیرملکی اغوا کئے گئے اور ان کی آزادی کے بدلے مسعوداظہر کی رہائی کی شرط رکھی گئی، مگر وہ آپریشن ناکام رہے اور پھر کئی سال بعد ایک بھارتی طیارہ ہائی جیک کر کے مسعود اظہر کو رہا کرانا پڑا۔ رہائی کے کچھ عرصہ بعد کراچی میں انہوں نے جیش محمد بنانے کا اعلان کیا ۔ یہ حرکت المجاہدین کی قیادت سے ان کے اختلافات کا اظہار تھا۔ معروف عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی نے ان کی سرپرستی کی،جیش محمد کی پریس کانفرنس میں بھی مفتی صاحب موجود تھے۔ شامزئی صاحب جہادی حلقوں میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ مسعود اظہر کی کرشماتی شخصیت کا بیان شروع میں آ چکا ہے۔ جیش محمد نے بہت جلد اہمیت اختیار کر لی، حرکت المجاہدین کے بہت سے لڑکے اس میں شامل ہوگئے اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی مسلح کارروائیوں میں جیش محمد بہت نمایاں ہوگئی۔حتیٰ کہ نائن الیون کے بعد ایک شام جنرل پرویز مشرف ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے تمام جہادی کشمیری تنظیموں پر پابندی کا اعلان کر دیا۔

جیش محمد اور مسعود اظہر کا پچھلے دس سال میں کیا رویہ رہا اور پٹھان کوٹ حملے کے حوالے سے ان پر عائد الزامات کس حد تک درست ہوسکتے ہیں، اس پر اگلی نشست میں انشااللہ بات کریں گے۔amir

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے