ٹھنڈے دماغ سے ۔۔۔!!!

مولانا فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے قائد ہیں ، مولانا کے جہاں حمایتی کثیر تعداد میں ہیں وہیں مولانا کے مخالفین بھی اکثریت میں ہیں ۔ مولانا کے حلیف اور حریف سبھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ مولانا ایک ذہین سیاستدان ہیں، خود کو منوانے کافن جانتے ہیں ، دلیل کے بے تاج بادشاہ ہیں، سخت سے سخت بات کو بھی چٹکی میں اڑانے کا فن جانتے ہیں، مذہبی طبقہ مولانا کا گرویدہ ہی نہیں بلکہ عاشق ہے ، مولانا کوئی بھی کام کرے مذہبی حلقے کی انہیں سپورٹ ہوتی ہے ،

آپ دیکھیں کہ مولانا نے بے نظیر سے اتحاد کیا تو چند کمزور آوازوں کے علاوہ مذہبی حلقہ انکی پشت پہ تھا ، سابق صدر زرداری سے دوستی کریں یا نواز شریف کے اتحادی بنیں انکے کارکن اسے برُا نہیں سمجھتے ، مولانا جب کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو عام لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ مولانا نے یہ فیصلہ کس طرح کیا؟ یہ فیصلہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ، اکثر اس سوال کے جواب میں جمعیت کے دوست کہتے ہیں کہ مولانا آپکی سمجھ میں آنے والے بھی نہیں ہیں ، باقی جماعتوں کے لوگ پھر پوچھتے ہیں کہ وہ کونسی دوائی ہے جس کو ہم پی لیں تو مولانا کی سیاست سمجھ آئے گی جواباً یہی کہا جاتا ہے کہ آپ ہمارے ماحول میں رہیں تو آپ سب کچھ سمجھ جائیں گے ۔یوں مسٹر ہم سے دور ہوجاتے ہیں۔

آئیے آج اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ مولانا عام مذہبی کارکن کے دماغ میں آجاتے ہیں جبکہ غیر مذہبی ذہین دماغ کو نہیں لگتے اس کی وجہ کیا ہے ؟مولانا ہر حکومت کا ساتھ دیتے ہیں تو کیوں؟ وجوہات پڑھنے سے پہلے میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ نفرت کے بستے کو اتار کے دیوار کیساتھ لٹکا دیں ، اگر سردی لگ رہی ہے تو کافی پی لیں پھر آرام سکون سے وجوہات بھی پڑھ لیں۔

مولانا کے فیصلے مذہبی لوگوں کو کیوں سمجھ آتے ہیں اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا، 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز نے ہندوستان میں اپنے قدم مضبوط کرلیے تھے ، انگریز کے خلاف جہاں دیگر جماعتوں نے جد و جہد کی وہیں علمائے دیوبند کا کردار کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ، علمائے دیوبند نے انگریز کے خلاف مسلح جدو جہد کی آزادی کی تحریکیں چلائیں، جیلوں کو بھرا، دیوبندی مکتبہ فکر میں جہادی سوچ زیادہ تھی ، دنیا کے سامنے مسلح جد و جہد کے حوالے سے جس قو ت کا تذکرہ کیا جاتا ہے وہ علمائے دیوبند ہی ہیں ، دیوبندی عالمی دنیا کی نظروں میں خطرناک ہیں، انگریز کے خلاف بغاوت پر ہم نے جو جرم کیا وہ آج تک ختم نہیں ہوا ، انگریز کو آج بھی کسی جماعت یا کسی مدرسے سے تکلیف ہے تو وہ دیوبندی مکتبہ فکر ہے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عالمی طاقتیں ہمارے خلاف ہیں ، اس بات کو یہیں روکیے اور آئیے پاکستان کی طرف ،1947 ء مین پاکستان بنا پاکستان بن جانے کے بعد بھی ہمارے ہاں جو سوچ پروان چڑھی وہ یہی کہ ہم باغی ہیں ہم نے انگریز کا مقابلہ کیا ہے تو اسکے پٹھو حکمرانوں کا بھی مقابلہ کریں گے اس سوچ کی وجہ سے دیوبندی مکتبہ ء فکر حکومتوں کی نظروں میں بھی کھٹکنے لگا ، پاکستان میں ملاّں اور مسٹر کی تفریق بڑھی سیاسی جماعتیں آپس میں بھلے ایک دوسرے کی جانی دشمن ہوں لیکن مذہبی جماعتوں کے خلاف ایک صف میں نظر آتی ہونگی۔

کچھ اپنوں کی غلطیوں اور کچھ غیروں کے سازشوں نے دیوبندیوں کو قبول نہیں کیا ، دیوبندیوں کو دیوار سے لگانے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، پاکستان بن جانے کے بعد تحریکِ ختمِ نبوت میں دس ہزار بندہ مار ا گیا ، تحریکِ نظامِ مصطفی کی وجہ سے ہزاروں لوگ جیل گئے ، کئی قتل کیے گئے ، البتہ ضیا ء الحق کا دور کچھ بہتر تھا لیکن جمعیت ضیا ء کے خلاف بھی کھڑی رہی،

مولانا نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ مکمل مذہبی طبقے کے خلاف تھا ،مولانا کے پاس دو راستے تھے ، ایک راستہ یہ تھا کہ ماضی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ہر ایک سے ٹکر لیتے خود کو بھی مرواتے اور کارکنوں کو بھی ، دوسرا راستہ تحمل ، برداشت اور رفتہ رفتہ چلنے کا تھا ، مولانا نے دوسرا راستہ اختیار کیا ، جو طاقتیں مذہبی جماعتوں کو کچلتی تھی مولانا نے اس سے بھی ڈائیلاگ کا راستہ اپنایا ،

[pullquote]

سچی بات تو یہ ہے کہ مذہبی طبقہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے مخالف سمجھتا ہے ، مذہبی طبقہ اسٹیبلشمنٹ پہ اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں، اسٹیبلشمنٹ نے ملاّ ں کو لڑایا اور پھر خود مارا ،جمعیت کے علاوہ ہر طبقہ اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پہ ہے اور آج سبھی لوگ اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں بڑے بڑے نعرے باز لوگ آج ساز باز میں مصروف ہیں لیکن ماضی جان نہیں چھوڑ رہا ۔

[/pullquote]
مذہبی طبقہ آصف زرداری ، میاں نواز شریف ، اسفندیا ر ولی ، الطاف حسین بھی کو اپنا مخالف سمجھتا ہے ، اور ان سے بھی خیر کی توقع نہیں رکھتا ، ہمارا آزاد اور شترِ بے مہار میڈیا مذہبی لوگوں کی پگڑیاں اُچھالنے کے لیے مشہور ہے ، دنیا کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی وہاں آواز بلند کرتی ہیں جہاں داڑھی اور برقعہ نہ ہو ، اگر داڑھی والے ریاستی جبر کا شکار ہیں تو انسانی حقوق کی تنظیمیں روزہ رکھ لیتی ہیں ۔

جب حالات مکمل مخالف ہوں عالمی طاقتیں بھی خلاف ہوں، سیاستی جماعتیں بھی خلاف ہوں ، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی خلاف ہوں ، تو وہاں کیا کرنا چاہئے ، ان حالات میں وہی کیا جا سکتا ہے جو مولانا فضل الرحمن نے کیا ۔مولانا نے مدارس کی بات کی ، امن کا عَلم تھاما، زرداری اور نواز شریف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ، الطاف حسین اور اسفندیار ولی کے ساتھ بھی مکالمے والا راستہ اختیار کیا ،،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمنیاں کم ہوئیں ، ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملی ، خوف کی فضا چھٹی ، مذہبی طبقہ خوف کے ماحول سے نکلا ۔

چلو ایک منٹ کے لیے ہم مولانا کی پالیسی کو غلط کہتے ہیں ، مولانا اُس طرح کرتے ہیں جس طرح آپ کہتے ہیں مولانا لڑنے اور مرنے کی پالیسی اپنا لیں تو انکا انجام کیا ہوگا؟مولانا عمران خان کی طرح دھرنا دے تو کون انہیں سپورٹ کرے گا ۔کیا میڈیا مولانا کا ساتھ دے گا؟ کیا کوئی سیاسی جماعت مولانا کے پیچھے کھڑی ہوگی ؟کیا پاکستانی عوام ان کی ہمنوا ہوگی ؟ مولانا کو گرفتا ر کر لیا جائے تو کیا مغرب ان کی رہائی کے لیے کوشش کرے گا ؟ کون ہوگا انکے پیچھے ۔؟

ذرا سوچ کے اور ٹھنڈے دماغ سے مجھے جواب دیں۔۔مجھ سے پوچھا جائے تو میں سیدھی اور دو ٹوک بات کہوں گا کہ کوئی بھی نہیں ہوگا،،جب طاقت نہ ہو توکیوں سب کو دشمن بنایا جائے ؟یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ہر ایک سے پنگا لیا جائے۔ یہ مولانا کی قوتِ ایمانی اور دور اندیشی ہے کہ اُنہوں نے خود کو منوایا ،اچھا آپ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ مولانا ہر حکومت کا ساتھ دیتے ہیں۔بھائی اگر مولانا نے حکومتوں کا ساتھ دیا ہے تو کون سے مالی فوائد حاصل کیے ؟ذرا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیجئیے۔

اچھا یہ بتا دیں کہ کیا آج تک اس شخص کے خلاف عدالت میں کوئی کیس چلا ؟تھوڑا سا پیچھے جائیے توآپ کو یاد ہو گاکہ پاکستان کی تاریخ میں افتخار چوہدری وہ جج گزرا ہے جس نے ہر ایک کی ناک میں دم کیے رکھا۔افتخار چوہدری نے اُن لوگوں کو بھی نہیں بخشا جنہوں نے اسکو بحال کروایا مولانا افتخار چوہدری کی بحالی کے مخالف تھے۔ افتخار چوہدری کے پاس کوئی ثبوت ہوتے تو اُس نے مولانا کو نہیں بخشناتھا۔مولانا کردار کے بھی صاف ہیں پارلیمنٹ سے بازارِحُسن تک کا مطالعہ کیا جائے مولاناآپکو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے ۔اور کیا چاہتے ہو ،کرپٹ معاشرے میں فرشتے ڈھونڈتے ہو،او اللہ کے بندو !!!تم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہو، تمھارا کوئی ماضی نہیں ،مذہبی لوگوں کا ایک ماضی ہے ، آپ کسی سے ٹکرائے نہیں ، دیوبندیوں کی تاریخ لڑنے مرنے سے بھری پڑی ہے ، آپ کو ایک جماعت پسند نہیں آتی تو آپ چھلانگ لگا کے دوسری جماعت میں چلے جاتے ہیں ، مذہبی لوگوں نے کہاں جانا ہے؟مولانا فضل الرحمن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ماحول سے واقفیت حاصل کی جائے جس میں یہ شخص پروان چڑھا ہے ۔

حبس کے ماحول میں لوگ لُو کی دعا مانگتے ہیں ، سخت گرمی میں ہوا کا ایک جھونکا بھی غنیمت سمجھا جاتا ہے ، آپ تو اے سی میں بیٹھے ہیں اے سی میں ۔۔۔ادھر جھانکو تو معلوم ہو کتنی گرمی ہے ؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے