ایران اور پاکستان نےامریکا سے اپنی رقم کیسےلی؟ دلچسب کہانی

[pullquote]ایران کو ضبط شدہ رقم کی امریکہ کی طرف سے سود سمیت ادائیگی اور پاکستان کو کٹوتی کے بعد گندم کی صورت میں۔۔ مذاکرات کی دلچسپ اندرونی کہانی[/pullquote]

اخبار کھولا تو سب سے بڑی ہیڈلائن مجھے ماضی کے جھروکوں میں لے گئی۔۔ خبر تھی ایران پر پابندیوں کے خاتمے کے بعد امریکہ نے ایران کے 1981 میں منجمد کیے گئے 41 کروڑ ڈالر کی رقم ایک ارب تیس کروڑ ڈالر سود کے ساتھ واپس کردئیے۔۔۔ ذہن میں فوری خیال آیا لیکن ہمیں ہمارے F 16 طیاروں کی ضبط کردہ رقم سود تو چھوڑئیے کٹوتی کرکے دو لاکھ چالیس ہزار ٹن گندم کی صورت میں ملی تھی۔ کیا ہمارے حکمران اتنے کمزور تھے کہ ڈٹ کر موقف بھی نہ اپنا سکے کہ یہ ہمارا پیسہ ہے آپ ہمیں کس انداز میں واپس کرنے جارہے ہیں؟ سن 2000ء میں خود کو کمانڈو کہنے والے جنرل مشرف حکمران تھے لیکن قومی دولت بھی واپس لی تو بھیک صورت میں؟

1988 کی بات ہے پاکستان نے امریکہ سے طویل مذاکرات کے بعد 28 جدید F 16 لڑاکا طیاروں کی خریداری کا آرڈر امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کو دے دیا۔ امریکی قوانین کے مطابق لاک ہیڈ مارٹن کو آرڈر کے ساتھ امریکی کانگریس کی طرف سے کسی بھی غیر امریکی ملک کو طیارے فروخت کی اجازت کا سرٹیفیکٹ درکار ہوتا ہے، سوویت یونین کے خلاف جاری نام نہاد جہاد اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا اور روسی افواج افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر گھر کی راہ لے رہی تھیں جس وجہ سے سوویت یونین کے خلاف امریکی مشن اور پاکستان میں امریکی دلچسپی کا موسم بھی خزاں رنگ ہورہا تھا۔ لیکن امریکی کانگریس نے پاکستان کے ساتھ طیاروں کی ڈیل کی منظوری دے دی اور پاکستان نے بھی طیاروں کی رقم ایڈوانس ادا کردی۔ عام تاثر ہے کہ شاید طیارے ہینگر میں تیار کھڑے ہوتے ہیں گاہک ملک جاکر دیکھتا ہے اور پیسے دے کر خرید کر گھر لے جاتا ہے لیکن اصل کہانی ایسی نہیں۔ جب آپ طیاروں کا آرڈر دیتے ہیں تو طیارہ ساز کمپنی آپ سے پیسے لے کر ان پیسوں سے طیاروں کی تیاری کا عمل شروع کرتی ہیں اور پھر چار سے پانچ سال کے عرصہ کے طیارے تیار کرکے مرحلہ وار خریدار ملک کو ڈلیور کرتی ہیں۔ یہی کچھ پاکستان اور طیارہ ساز امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کی ڈیل میں بھی ہوا۔

جب تک سوویت یونین کے خلاف پاکستان امریکہ کی پراکسی جنگ لڑ رہا تھا امریکی حکومت پاکستانی ایٹمی پروگرام سے چشم پوشی برتتی رہی لیکن جیسے ہی ٹارگٹ کا حصول ہوا امریکی کانگریس میں سینیٹر پریسلر نے ایک ترمیم پیش کی جس کے تحت وائٹ ہاوس کو پابند کیا گیا کہ امریکی صدر ہر چند ماہ بعد امریکی کانگریس کو یہ یقین دہانی کروانے کے پابند ہوں گے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیارنہیں تیار کررہا ورنہ پاکستان سے کسی بھی قسم کا دفاعی تعاون معطل کردیا جائے گا۔ 1991ء میں امریکی کانگریس نے تب کے امریکی صدر جارج بش شینئر سے یقین دہانی طلب کی تو امریکی صدر نے معذرت کرلی اور یوں پریسلرترمیم حرکت میں آگئی اور پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون پر پابندی لگ گئی جس کے تحت پاکستان کو ہر قسم کے ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے بھی منسوخ کردئیے گئے۔ امریکہ نے ہتھیاروں کی تیاری کے معاہدے منسوخ کیے تو اس کی زد میں F 16 طیاروں کی ڈیل بھی آگئی اور پاکستان کو 28 طیاروں کی فروخت بھی روک دی گئی۔

ایک سادہ خریدار کے طور پر تو ہمارے دل میں یہی آتا ہے کہ جب طیاروں کی ڈیل منسوخ کی گئی ہوگی تو پھر لازمی بات ہے پاکستان کو طیاروں کی خریداری کے لیے ایڈوانس جمع کروائی گئی رقم بھی واپس ملنی چاہیے تھی لیکن بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ سکہ رائج الوقت نہ تھا اور پاکستان کو بتایا گیا کہ آپ کی ادا کی گئی رقم سے طیارے تیار ہوچکے ہیں لیکن اب ان کی آپ کو ڈلیوری ممکن نہیں اور کیونکہ طیارے تیار ہوچکے تو اب کمپنی نے تو اپنا پراجیکٹ پوری ایمانداری سے مکمل کردیا اب وہ طیارے آپ لے نہیں سکتے تو یہ آپ کا قصور ہے کہ آپ امریکی حکومت سے اجازت کیوں نہیں لے رہے۔

Article Iran pakistan US

پاکستان میں حکومتیں بدلتی رہیں، پاکستان سفارتی محاذ پر اور سربراہان کی سطح پر بھی امریکی وفود کے سامنے یہ مسئلہ اٹھاتا رہا لیکن امریکی حکام پریسلر ترمیم کے تحت عائد پابندیوں کے ہاتھوں خود کو بےبس بتاتے رہے۔ وقت گزرتا رہا پاکستان اور امریکی تعلقات میں بہتری کی بجائے پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور پاکستان کی بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح گروہوں کی مدد کی پالیسی کی وجہ سے رشتوں میں سرد مہری بڑھتی چلی گئی۔

اپریل 1995ء آیا محترمہ بینظیر بھٹو شہید پاکستان میں وزیراعظم تھیں اور ان کا امریکی دورہ شیڈول تھا جہاں ان کی امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات طے تھی۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستانی دفترِ خارجہ سے رابطہ کرکے متوقع ملاقات میں پاکستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے نکات طلب کیے تاکہ امریکی صدر کو ان نکات کے جواب کی تیاری کروائی جاسکے۔ سفارتکاری میں یہ ایک طے شدہ طریقہ کار ہوتا ہے کہ جب دو ممالک کے سربراہان کی سطح کی ملاقات ہونی ہو تو ملاقات کا ایجینڈا پہلے سے طے کرلیا جاتا ہے تاکہ دونوں اطراف اپنا اپنا نقطہ نظر بھرپور دلائل کے ساتھ بیان کرسکیں۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے سفارتی اصولوں کے عین مطابق پاکستان کی دلچسپی کے نکات امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھجوا دئیے۔ انہی میں سے ایک نکتہ محترمہ بینظیر بھٹو کی طرف سے امریکی صدر سے پاکستان کی F 16 طیاروں کے لیے ادا کی جانے والی رقم کی واپسی کا بھی تھا۔ 27 سال تک امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے میں کام کرنے والے سابق ڈائریکٹر رابٹ گارنر اس ملاقات اور ملاقات سے قبل امریکی صدر بل کلنٹن کر کروائی جانے والی تیاری کی دلچسپ داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بیورکریسی اور اٹارنی جنرل دفتر میں سب سے زیادہ اہمیت پاکستان کو F 16 طیاروں کے لیے ادا کی گئی رقم واپس نہ کرنے کے لیے تراشی گئی توجیح کو دی جارہی تھی، گھنٹوں لمبی میٹنگز کا انعقاد ہوا، ہزاروں صفحات کا مطالعہ کرکے بریفنگز تیار کی گئیں۔ پھر امریکی صدر بل کلنٹن کو حتمی بریفنگ دینے کا مرحلہ بھی آن پہنچا اور کئی گھنٹوں پر مشتمل بریفنگ میں امریکی بیوروکریٹس، ماہرینِ خارجہ امور اور محکمہ قانون کے حکام نے امریکی صدر کو باور کروایا کہ پاکستان کو پیسوں کی ادائیگی اس وجہ سے ممکن نہیں کہ ایک تو طیارے تیار ہوچکے ہیں اس لیے پیسے تو استعمال ہوچکے ہیں جبکہ الٹا لاک ہیڈ مارٹن کو نقصان ہورہا ہے کیونکہ طیارے اس کے ہینگرز میں بیکار کھڑے ہیں اور ان ہینگرز کا کرایہ اس کو جیب سے ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ اور نیشنل اسکیورٹی ایڈوائزر نے امریکی صدر بل کلنٹن کو یہ تک بتایا کہ کیسے وہ پاکستانی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے پراعتماد انداز میں پیسوں کی واپسی یا طیاروں کی ڈلیوری سے صاف انکار کردیں بہرحال بریفنگ کے اختتام پر امریکی صدر بل کلنٹن نے ایماندارانہ سادگی سے کہا "لیکن یہ جائز نہیں ہے۔” امریکی حکام نے ان الفاظ کو صدر بل کلنٹن کا ذاتی مشاہدہ گردانا اور سوچا کہ شاید یہ امریکی صدر کے آف دی ریکارڈ کمنٹس ہیں۔

ملاقات کا دن آن پہنچا امریکی حکومت میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس ملاقات کا نتیجہ امریکی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل کرجائے گا۔ پاکستان کی منتخب وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید وائٹ ہاوس پہنچی جہاں امریکی صدر بل کلنٹن کی طرف سے رسمی استقبال کے بعد ملاقات شروع ہوئی۔ پاکستانی وزیراعظم نے طیاروں کی رقم کی واپسی پر ٹھوس موقف اپناتے ہوئے پاکستانی ٹیکس دہندگان کے روپوں پر بھرپور دلائل دیے اور امریکی صدر بل کلنٹن نے نیم دلانہ دفاع کے بعد ہتھیار ڈال دئیے۔ ملاقات کے اختتام پر دونوں سربراہانِ مملکت صحافیوں سے گفتگو کے لیے آئے تو سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رابٹ گارنر نے امریکی صدر بل کلنٹن کے یہ الفاظ نقل کیے "جیسا کہ میں آپ (بینظیر بھٹو) پر پہلے ہی واضح کرچکا ہوں اور میرا نہیں خیال اس سے پہلے کسی امریکی صدر نے آج تک ایسا کہا ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے لیے یہ درست ہے کہ ہم اس طرح سے پیسے اور سامان روک کررکھیں۔ یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے اور میں اس مسئلہ کے حل کی کوشش کرنے جارہا ہوں۔” جب امریکی صدر پریس سے یہ گفتگو کررہے تھے ان کا ایک ایک لفظ امریکی صدر کی ٹیم پر ہتھوڑا بن کر برس رہا تھا اور وہ سکتے کی حالت میں امریکی صدر بل کلنٹن کو طے شدہ امریکی پالیسی کی دھجیاں اڑاتے دیکھ رہے تھے۔ لیکن بات ابھی امریکی حکام کے ہاتھوں سے نکلی نہیں تھی اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بیورکریسی اور پینٹاگون کی اسٹیبلشمنٹ امریکی صدر کے سامنے ڈٹ گئی اور بالاخر امریکی صدر کو ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔

وقت گزرتا رہا اور محترمہ بینظیر بھٹو کے نامکمل دور کے بعد نوازشریف بھی اپنی حکومت آمر پرویز مشرف کے شب خون کے ہاتھوں گنوا بیٹھے۔ 2000ء میں امریکہ کو پاکستان کی دوبارہ ضرورت محسوس ہوئی تو موصوف کمانڈو جنرل مشرف جنہوں نے "سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ ایجاد کیا تھا نے امریکی حکومت سے طیاروں کے لیے ادا شدہ رقم میں سے چھ کروڑ ڈالر ہینگروں کے کرائے کی مد میں کٹوا کر باقی رقم کیش کی صورت میں وصول کرنے کی بجائے گندم کی شکل میں حاصل کی۔ یہ ڈیل کرتے ہوئے سابق آمر جنرل مشرف نے یہ بھی نہ سوچا کہ زرعی طور پر مستحکم اور اپنی ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے ملک کو گندم لینے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن موصوف نے دو لاکھ چالیس ہزار ٹن گندم کو "قومی خزانے” کا حصہ بنا دیا۔

آہ کہاں ایران 1981ء میں ضبط شدہ صرف 41 کروڑ ڈالر ایک ارب تیس کروڑ ڈالر سود کے ساتھ امریکہ سے وصول کرتا ہے اور کہاں ایٹمی طاقت پاکستان چھ کروڑ ڈالر جرمانہ کٹوا کر گندم کی دولت سے مالامال ہوجاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[pullquote]

اسد طور
اسد علی طور ڈان، کیپیٹل ٹی وی اور اے آر وائی نیوز سے وابستہ رہ چکے ہیں۔
پیشہ کے لحاظ سے پروڈیوسر ہیں اور فارغ وقت میں بلاگنگ بھی کرتے ہیں۔
اج کل اے آر وائی نیوز پر پروگرام آف دی ریکارڈ پروڈیوس کررہے ہیں

[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے