لاہور میں تبدیلی آ گئی

کل یعنی اتوار کے روز لاہور پریس کلب کے سالانہ انتخابات تھے، یہ الیکشن دو ہفتے پہلے تیس دسمبر کو ہونے تھے، اس روز پولنگ ہوئی، مگر انتخابی عمل کے دوران ہی بدمزگی ہوگئی، خاصا شور شرابا ہوا، دو پینل میدان میں تھے، جرنلسٹ پینل جو پچھلے کئی برسوں سے برسراقتدار تھا، اس کا مقابلہ پروگریسو پینل سے تھا ، الیکشن سے چند دن پہلے نئی ممبر شپ ہوئی، چھ سو سے زائد نئے ممبر بنائے گئے، اپوزیشن کا کہنا تھا کہ اس نئی ممبر شپ میں خاصی دھاندلی ہوئی اور بہت سے جعلی ممبر بھی بنائے گئے ہیں، برسراقتدار گروپ ظاہر ہے اس کی تردید کرتا۔ بہرحال الیکشن کے روز پروگریسو کے مستعد پولنگ ایجنٹس نے کئی جعلی ووٹر پکڑ لئے، اس حوالے سے کئی کہانیاں‌مشہور ہوئیں، کہا جاتا ہے کہ ایک ووٹر ڈالنے والے نے اعتراف کیا کہ وہ ایک بینک میں‌مینجر ہے، اس طرح کسی نے کہا کہ میں فلاں انگریزی اخبار میں کام کرتا ہوں، اس سے پوچھا گیا کہ اس اخبار کا دفتر کہاں‌ہے تو وہ بغلیں‌جھانکنے لگا، وغیرہ وغیرہ۔ خیر پولنگ رک گئی اور پھر طے ہوا کہ دو ہفتے بعد پھر سے پولنگ ہوگی۔

کل یعنی اتوار کو یہ معرکہ آرائی دوبارہ سے ہوئی۔ جرنلسٹ پینل کی جانب سے روزنامہ جنگ میں‌برسوں بطور کرائم رپورٹر کام کرنے والے اور جہاں پاکستان میں‌ایڈیٹر رپورٹنگ کی ذمہ داری نبھانے والے ارشد انصاری صدر کے امیدوار تھے، ایکسپریس کے افضال طالب سیکرٹری اور نوائے وقت کی فرزانہ چودھری فنانس سیکرٹری، نعیم حنیف نائب صدارت اور افضال چودھری جوائنٹ سیکرٹری کے امیدوار تھے۔ جبکہ پروگریسو پینل کی طرف سے شہباز میاں صدارت، شاداب ریاض سیکرٹری، جنگ کے عبدالمجید ساجد نائب صدارت ، دنیا ٹی وی کے ظہیر بابر فنانس سیکرٹری اور ایکسپریس نیوز کے زاہد گوگی جوائنٹ سیکرٹری کے امیدوار تھے۔ پروگریسو نے شاندار طریقے سے میدان مار لیا اورپانچوں سیٹیں جیت لیں جبکہ گورننگ باڈی کی آٹھ میں سے پانچ نشستیں‌بھی جیت لیں۔

پروگریسو پینل کی کامیابی میں تین چار فیکٹرز نےاہم کردار ادا کیا۔ ایک توان کا پینل نسبتآ زیادہ بہتر اور شفاف لوگوں‌پر مشتمل تھا، صدر سے جوائنٹ سیکرٹری تک پانچوں سیٹوں‌پر ایسے امیدوار تھے، جن کی ساکھ کسی شک وشبے سے بالاتر تھی، مالی دیانت جن کی مسلمہ رہی۔دوسرا پروگریسو نے کمال مہارت سے جرنلسٹ کی تمام مخالف قوتوں کواکٹھا کر لیا۔ پروگریسو کے پرانےلیڈروں اور ساتھیوں کے ساتھ فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر رانا عظیم، روز نامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی سے لے کر الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن اور دیگر کئی گروپوں کے لوگ اکٹھے ہوگئے، انہوں‌نے دیکھا کہ جرنلسٹ کو اگر زیر کرنا ہے تو متحد ہو کر اپنی پوری قوت کو مجتمع کرنا ہوگا، انہوں نے ایسا ہی کیا۔تیسرا فیکٹر پروگریسو کی کمپئین رہی، انہوں‌نے تمام جدید ٹولز کو نہایت عمدگی سے استعمال کیا، ٹیکسٹ میسجز سے سوشل میڈیا اور وائس کالز تک تمام حربے برتے ۔ مجھے الیکشن ڈے سے پہلے کے دو تین دنوں‌میں سو کے قریب میسج آئے، سب کے سب پروگریسو کے تھے، جرنلسٹ والوں‌میں سے کسی نے ٹیکسٹ میسج کرنے کی زحمت ہی نہیں کی، وہ اس طرز کی کمپئن کو شائد اہمیت نہیں دے رہے تھے، لیکن بڑے ٹرن آئوٹ کے لئے مسلسل ٹچ کرنے کی حکمت عملی رنگ لائی اور پروگریسو کے حسب منشا غیر معمولی ٹرن آئوٹ ہوا۔چوتھا فیکٹر جرنلسٹ کی جانب سے آخری دنوں‌کرائی جانے والی نئی ممبرشپ تھی ، جس پر بہت لوگوں‌نے انگلیاں اٹھائیں۔ یہ تاثر عام تھا کہ جرنلسٹ والے دانستہ آخری دنوں میں بلاجواز کئی سو لوگوں‌کو پریس کلب کی کونسل ممبرشپ دے دیتے ہیں، جن کو ابھی ممبر شپ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا تاکہ وہ ممنون ہو کر جرنلسٹ پینل کو ووٹ ڈالیں۔ اس بار چھ سو سے زائد نئے ممبرز بنائے گئے،جو قطعی طور پر بلاجواز تھے۔ پریس کلب کے اب ڈھائی ہزار کے قریب ممبر ہوگئے ہیں، صرف چند برس پہلے تک یہ ممبرشپ نصف تھی۔ کلب کے انفراسٹرکچر کی اتنی استعداد ہی نہیں، حال یہ ہے کہ اب کیفے ٹیریے میں‌کھانا کھانے جائیں‌تو پندرہ پندرہ منٹ‌انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پرانے ممبرز کلب کا یہ حال دیکھ کر بری طرح‌کڑھ رہے تھے، مگر جرنلسٹ نے کسی کی ایک نہیں سنی اور نئی ممبر شپ کر ڈالی اور وہ بھی شکوک سے لبریز۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئے ممبرز نے بے شک جرنلسٹ پینل کو ووٹ ڈالے ہوں‌گے مگر پرانے ممبرز نے یکسو ہو کر پروگریسو کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ پانچواں فیکٹرجرنلسٹ کی جانب سے کیا جانے والا بلنڈر تھا، انہوں‌نے اس بار بھی پچھلے برسوں سے مسلسل چلی آنے والی ٹیم اتاری، خاص کر صدر اور سیکرٹری کی سیٹ پر۔ اس پر بڑا ردعمل ہوا۔ لوگ برملا یہ کہتے تھے کہ کیا ان لوگوں نے ہمیشہ کے لئے صدر ، سیکرٹری رہنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ جرنلسٹ والوں کو اس مقصد کے لئے پریس کلب کے آئین میں ترمیم کرنی پڑی ورنہ ارشد انصاری صدارت کا الیکشن نہ لڑ سکتے۔ اگر جرنلسٹ گروپ والے اپنے پینل میں‌ری پیٹ کرنے والے امیدواروں‌کی جگہ دوسرے امیدوار چنتے تومقابلہ زیادہ کلوز جانا تھا۔ مسلسل الیکشن لڑنا کبھی سود مند ثابت نہیں ہونا، بریک صرف ٹی وی ڈراموں میں‌اچھی نہیں لگتی، عام زندگی میں بھی اس کی افادیت ہے۔ ایک فیکٹر صحافی کالونی کے ناگفتہ بہ حالات بھی ہیں۔ لاہور کی صحافی کالونی کے بی بلاک کا معاملہ پچھلے چھ سات برسوں سے متنازع ہے، لوگوں‌کے پلاٹوں پر قبضے ہیں، نہایت آسانی کے ساتھ انہیں کالونی میں میسر خالی پلاٹوں میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا تھا، مگر جرنلسٹ نے اسے سیاسی سٹنٹ بنائے رکھا، ایف بلاک والوں‌کے ساتھ بھی وعدے کئے جاتے رہے، مگر کچھ نہ ہوا، کالونی میں رہنے والےبتاتے ہیں کہ وہان‌کے حالات برے ہیں، جھاڑیاں تک کاٹنے والا کوئی نہیں، کالونی میں متعدد مکانات زیر تعمیر ہیں، روزانہ سو ڈیڑھ سو ٹرالیاں‌آتی ہیں، مبینہ طور پر ہر ٹرالی سے ایک سو روپے لئے جاتے ہیں، یوں مہینے کے لاکھ سے زائد روپے لئے جاتے ہیں، مگر کہاں‌جاتے ہیں، کوئی پتہ نہیں، اور بھی بہت سے معاملات کی طرف انگلی اٹھائی جاتی رہی، مجھے نہیں معلوم کہ اس میں‌کتنا سچ، کتنا صرف الزام ہے، مگر یہ بہرحال طے ہے کہ جرنلسٹ پینل صحافی کالونی کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا، انہوں نے دانستہ کئی معاملات لٹکائے ، حالانکہ انہیں آسانی کے ساتھ حل کیا جا سکتا تھا۔

سچی بات یہ ہے کہ جرنلسٹ پینل اور اسے سپورٹ کرنے والوں میں‌میرے کئی ذاتی دوست اور نہایت قابل احترام ساتھی شامل تھے۔ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ایاز خان ،جن کا میں‌بہت احترام کرتا ہوں، وہ میرے بڑے بھائیوں‌کی طرح رہے ہیں، وہ کھل کر جرنلسٹ کی حمایت کر رہے تھے، ان کے ساتھ ہمارے دوست اور ایکسپریس ایڈیٹوریل کے نگران ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چودھری بھی پرو جرنلسٹ سپورٹر تھے، ان کے احترام میں میں ایکسپریس پروگریسو کی کمپئین کرنے نہیں گیا تھا، وہاں‌کے ساتھیوں اور دوستوں سے فون پر رابطہ کر کے درخواست کرنی پڑی۔ اور بھی کئی لوگ اس جانب تھے، جرنلسٹ کے صدارتی امیدوار کے بڑے بھائی رئیس انصاری کے ساتھ میرا ذاتی تعلق اور خوشگوار مراسم رہے ہیں، ہمارے پرانے دوست اور ساتھی کالم نگار اعجاز حفیظ خان بھی جرنلسٹ کے زبردست سپورٹر تھے۔ ماضی میں میں نے کئی بار جرنلسٹ کو ووٹ ڈالا ، حالانکہ میرے انتہائی گہرے دوست اور پہلے ایکسپریس اور پھر دنیا میگزین کے ساتھی کرامت علی بھٹی ہمیشہ سے پروگریسو کے حامی رہے ہیں، مگر انہوں نے کبھی مجھ پر زور ڈالا ،نہ میں‌نے انہیں‌کبھی کہا کہ جرنلسٹ کو ووٹ دو۔ اس بار البتہ پروگریسو کی حمایت میں پوری طرح یکسو ہو گیا تھا۔جرنلسٹ کے دوستوں کے احترام کے باوجود میں‌نے ان پانچ وجوہات کی بنا پر پروگریسو کی حمایت کا فیصلہ کیا۔عام طور پر میں الیکشن میں‌ دلچسپی نہیں لیتا، صرف ووٹ ڈالنے جاتا ہوں، اس بار پہلی بار اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو فون کر کے پروگریسو کی سپورٹ کرنے کا کہنا پڑا، جن کے بارےمیں معلوم تھا کہ وہ جرنلسٹ کو لازمی ووٹ دیں گے ، انہیں یہ کہا کہ چلو پروگریسو کو جن نشستوں پر ووٹ ڈال سکتے ہو، وہ تو کر لو۔ خوشی ہے کہ کئی دوستوں نے محبت کا مظاہرہ کیا اور ہمارا مان رکھا۔

پروگریسو نے الیکشن جیت لیا، ہمیں اس کے ایک سپورٹر اور ووٹر کے طور پر بڑی خوشی ہوئی۔ یہ بھی اچھا لگا کہ کہیں پر تو تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کا کامیابی ہوئی۔ الیکشن ڈے پر ازراہ مزاح دوستوں سے کہتا رہا کہ جرنلسٹ کی شکست ایسے ہوگی جیسے تحریک انصاف نے لاہور میں‌ن لیگ کو شکست دے دی۔ معرکہ بالکل آسان نہیں تھا، بہت محنت کرنا پڑی، پروگریسو کے پرانے ساتھیوں معین اظہر وغیرہ، اس کے نہایت متحرک پینل کے ساتھ رانا عظیم اور ان کے دیگر ساتھیوں‌کی غیرمعمولی محنت کی وجہ سے یہ ممکن ہوپایا۔

اس جیت کے بعد پروگریسو کے کامیاب امیدواروں اور ان کے قائدین کو یہی کہا کہ یہ کامیابی آپ لوگوں کے لئے بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ الیکشن مہم کے دوران جو وعدے کئے تھے، اب اسے ایفا کرنے کا وقت آ‌گیا۔

میرے خیال میں بی بلاک کے متاثرین کو اب اس دس سالہ کوفت اور تکلیف سے نجات مل جانی چاہیے، انہیں دستیاب پلاٹوں میں ایڈجسٹ کیا جائے۔
ایف بلاک کے معاملے کو حقیقت پسندانہ اور ٹھوس بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ بیشتر صحافی بلکہ ننانوے فیصد صحافی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے لئے لاہور جیسے شہر میں‌مکان بنانا ناممکن ہے، انہیں پلاٹس ملنے چاہئیں، اس مقصد کے لئے جدوجہد کرنا عین انصاف اور نہایت ضروری ہے۔

اسی طرح ممبر شپ کے معاملے کو بھی اب طے ہوجانا چاہیے، اس کے لئے ایک مستقل میکنزم بنایا جائے، جعلی ووٹ ختم ہوں، ایسوسی ویٹ ممبر پہلے بنایا جائے اور پھر ایک خاص مدت کے بعد اسے کونسل ممبر شپ دی جائے، یہ ممبر شپ جب بھی ہوں سال کے اوائل اور الیکشن کے بعد ہو، تاکہ اسے الیکشن سٹنٹ کوئی نہ بنا سکے۔

اسی طرح صحافی کالونی کے مسائل حل کئے جائیں،وہاں کمرشل جگہ موجود ہے، مگر ایک بھی دکان نہیں بن سکی۔ دکانیں بنیں، کوئی کمیونٹی سنٹر ، ہسپتال، سکول وغیرہ بنایا جائے تاکہ مکینوں کو ریلیف مل سکے۔

لاہور پریس کلب کے معاملات کو فوری ترجیحی بنیادوں‌پر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، کیفے ٹیریا میں بہتری لائی جائے ،ویٹرز بڑھائے جائیں، صفائی میں بہتری آئے، جبکہ صحافیوں کے لئے موجود سہولتوں، لائبریری، انٹرنیٹ ،گیمز وغیرہ کے معاملات میں بہتری لانے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔

پروگریسو کو ایڈوانٹئج ہے کہ انہیں ہیوی مینڈیٹ دیا گیا، گورننگ باڈی میں بھی ان کی اکثریت ہے، انہیں قانونی طور پر کوئی مشکل نہیں‌پڑے گی۔ اب انہیں صرف پرفارم کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ جرنلسٹ کے دوستوں کو اپنی غلطیوں‌کی اصلاح کرنے اور اپوزیشن کے مثبت کردار ادا کرنے پر توجہ کرنی چاہیے۔ مضبوط اور متحرک مگر مثبت اپوزیشن بھی کلب کے معاملات کے لئے بہت ضروری ہے۔ سو بیسٹ آف لک پروگریسو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے