پاکستان میں 80فیصد عورتیں گھریلو تشددکاشکارہیں

حواکی بیٹی آخرکب تک ظلم کی چکی میں پستی رہے گی؟کب تک ظلم سہے گی؟ ہم صرف خواتین کا عالمی دن منالینے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض اداکرلیا خواتین پرہونے والے مظالم کے خلاف قوانین پاس کرواکرخوشی کااظہارکرلیتے ہیں مگرکیایہ کرناکافی ہے؟یااتناکرلینے سے خواتین پرہونے والے مظالمکاخاتمہ ہوسکتا۔عرصہ دراز سے یہ سب چلتا آرہاہے کہ خواتین پرہرطرح کاظلم وتشدد ہورہا ہے،اب چاہے وہ شہری علاقے ہوں یادیہی پڑھا لکھا طبقہ ہویا ان پڑھ غیریب طبقہ ہویاامیرکسی نا کسی صورت میں کسی ناکسی وجہ سے خواتین کوتشددکانشانہ بنایاجاتاہے۔تشدد کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے جس طرح غریب طبقے میں جنسی وجسمانی تشدداور امیرطبقے میں زبانی نفسیاتی اور جذباتی تشدداور ہرگزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہاہے۔

پاکستانی خواتین کے ایک غیررسمی مطالعے اورایک اندازے کے مطابق کم ازکم 80فیصد عورتیں گھریلو تشددکاشکارہیں،جبکہ روزانہ تشددکے بے شمارواقعات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کاحصہ بنتے ہیں اور بے شمار ایسے واقعات ہیں جونہ صرف گھروں اور محلوں تک محدود رہ جاتے ہیں اور منظر عام پر نہیں آتے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ مرد نے تشدد کرنااور عورت نے تشددبرداشت کرناپنا پیدائشی حق سمجھ لیاہے اورمعاشرتی المیہ یہ بھی ہے کہ خواتین کیا اکثریت یہ بات گھرسے نکالنا تودور کی بات اس موضوع پر بات کرنابھی پسندنہیں کرتی اور اگرکوئی کاتون اپنے ہونے والے ظلم وتشدد کے خلاف آواز اٹھا بھی لے تواس کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی دراصل انہیں یہ باورکرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تواڑل سے ہی ہورہاہے اور ابدیک ہوتارہے گا اور اس طرح خواتین کی اٹھائی جانے والی آواز کونقارخانے میں طوطی کی آواز سن کر رد کردیا جاتا ہے۔

خواتین پرتشدد اور مظالم کی داستانیں اب ہمارے ماحول کاحصہ بن گیاہے اورہرگزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے،اس کی وجہ سے بھی یہی ہے کہ یہ مسائل تونسل درنسل ہمارے وراثت میں منتقل ہورہے ہیں۔امتیازی سلوک توہمارے گھروں سے ہی شروع ہوجاتاہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہورہاہے۔نام نہاد عزت کے نام پر قتل ،جہیز نہ لانے پر تشدد،طبقے،انتہائی فرسودہ اور جاہلانہ رسم ورواج کی بھینٹ چڑھادنیا،جائیداداوارثت میں سے حصہ نہ دینا خواتین کے چہروں پر تیزاب ڈال دینااور بچیوں کوعلم کی روشنی سے دوررکھنا مردوں کااولین فرض ہی توٹھہرا۔
لیکن سوال پیداہوتاہے کہ غیر فرسودہ رسمیں کس نے بنائی ہیں؟جب صبرکاپیمانہ لبریزہوجاتاہے توبے شمار سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہماری آبادی کا52فیصد حصہ خواتین پرمشتمل ہے لیکن نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ ہم اپنی آبادی کے 52فیصد حصے کوہی نظرانداز کررہے ہیں۔

دنیا کاکوئی بھی معاشرہ خواتین کوصنفی انصاف اور ان کے بنیادی حقوق دئیے بغیر مہذب نہیں کہلاسکتا،اسی طرح اگرشرح خواندگی کے حوالے سے دیکھا جاتے توہمارے ہاں خواتین کی تعلیم پراتنی توجہ نہیں دی جارہی جبکہ پوری دنیا کے مفکرین اور فلسفیوں نے ایک مرد کی تعلیم کوصرف ایک فرد کی جبکہ ایک عورت کی تعلیم کوایک خاندان کی تعلیم قراردیاہے،اسی لئے خواتین کی تعلیم پرزور دیالیکن ہم آج بھی ترقی یافتہ قوم کہلانے والے،تبدیلی کانعرہ بلندکرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ محض دعوے کردینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

ہمیں آج اپنے خیالوں،باتوں اور دعووں کی دنیا سے باہر نکلنے اور عمل کی دنیا میں قدم رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس وقت اگرہم اپنے آپ کوپہچانیں وقت کے نقاضوں کوجانیں،اپنے فرائض کوجانیں اپنی فرسودہ سوچ کوبدلیں اور اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔کیونکہ قوانین صرف بنادینا ہی کافی نہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ جوقوانین بنائے ان پرعملدرآمد بھی ہونا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے