صفائی ناگزیر ہے

’’جنگ، دیگر ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے ریاستی پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کی سعی و کوشش کا تسلسل ہے۔‘‘

”The war is the Continuation of State Policy by Other Means”

یہ معرکتہ الآراء جملہ ممتاز عسکری مفکر اور جرمن جنرل کارل وان کلازویٹز کے تجزیئے کا نچوڑ ہے۔ گزشتہ صدی میں سیاسی اور عسکری جدوجہد کی رہنمائی کرنے والا شاید ہی کوئی رہنما ہو گا جس نے کلازویٹز سے استفادہ نہ کیا ہو۔ روسی انقلاب کے بانی ولادی میر لینن نے اپنی جدوجہد میں اسی نقطے کی تفہیم ان الفاظ میں کی تھی ’’جنگ بذات خود کوئی مقصد نہیں ہوتی، بلکہ یہ سیاست کا ایک آلہ ہوتی ہے۔

نتیجتاً عسکری نقطہ نظر کو ہمیشہ سیاسی نقطہ نظر کا تابع رہنا ہوتا ہے۔‘‘ غیر معمولی شُہرت پانے والے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے امریکا روس سرد جنگ کے گرم ترین دنوں میں روسی پالیسی سازوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا ’’لینن کا زاویۂ نظر دراصل یہ ہے کہ ’’سیاست دیگر ذرائع کے ذریعے جنگ کے تسلسل کا نام ہے۔‘‘ یعنی کلازویٹنر کے کہے کو روسیوں پر طنز کے لیے الٹا دیا تھا۔

افغانستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک میں فوج اتارنا امریکا کی ریاستی پالیسی ہی کا تسلسل تھا جس کا عنوان دہشت گردی کا خاتمہ ٹھہرا۔ مقاصد کے حصول میں دقت ہو رہی ہو تو دیگر ذرائع میں پوشیدہ جنگ کے بعد کُھلی جنگ کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ اب امریکا اور نیٹو افواج افغانستان میں ہیں اور امریکا کے اندر سے جو اہم تجزیئے سامنے آ رہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں جنگ جیت جائے گا۔ وہاں فوج بھیجنے کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔

یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان میں جنگ جیت لینے کا دعویٰ کس قدر حقیقت پسندانہ ہے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصل مقصد امریکا کے جنگ جیت لینے کے متزلزل ہوتے ہوئے عزم کو سہارا دینا ہو۔ افغانستان کے اندر جنگی سرگرمیاں امریکی اور نیٹو افواج پر مرکوز ہیں لیکن اب داعش کی بڑھتی ہوئی سر گرمیاں غیر ملکی افواج کے بجائے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف ہیں، جس سے امریکا کو اطمینان ملے گا۔

جنوری 2010ء میں روس کی وفاقی انسداد منشیات اتھارٹی کے سربراہ نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ آخر امریکی فوجوں کا اجتماع انھیں علاقوں میں کیوں ہے جو پوست کی کاشت میں سرفہرست ہیں۔ جب آپ کو صاحب فہم و فراست ہونے کا دعویٰ ہو اور آپ بُری طرح سے بے وقوف بنا دیے جائیں تو انسان لاشعوری طور پر یہ چاہنے لگتا ہے کہ بہتر ہے کہ اصل صورتحال آشکار ہی نہ ہو۔ لیکن اب یہ صاف نظر آنے لگا ہے کہ اس جنگ کا عنوان بھلے دہشت گردی ہو اس کے زیادہ بڑے مقاصد اب معاشی مفادات کا حصول اور قدرتی ذرائع پر تصرف نظر آتے ہیں۔

جون 2010ء میں نیویارک ٹائمز نے پینٹاگون اور یو ایس جیولوجیکل سروے کی ایک مشترکہ رپورٹ کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ افغانستان میں موجود قدرتی ذرائع اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں، صرف گیس کے ذخائر کی محتاط مالیت ایک ٹریلین ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ افغانستان دنیا میں کان کنی کا سب سے بڑا مرکز بننے جا رہا ہے۔

اس سارے منظر نامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ہم بنا کسی مناسب فائدے کے مسلسل استعمال ہوتے آ رہے ہیں۔ جب افغانستان میں علاقائی مفادات کی کشمکش اپنے عروج پر ہے ہمارے ملک کی دو پرانی اور بڑی جماعتیں ذاتی مفادات کے گورکھ دھندے میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں الزام لگایا جا رہا ہے کہ ایک ملزم کو بچانے کے لیے مرضی کے قانون بنا رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اب یہ زندگی موت کا معاملہ بن چکا ہے کہ بدامنی کی کوئی بھی قسم گوارا نہ کی جائے۔ خطے میں صورتحال ایسی ہے کہ ہر ملک اپنے گھر کی گندگی چپکے سے ہمسائے کے گھر پھینکنا چاہ رہا ہے۔

اکنامک کاریڈور کا خواب بھی تبھی پورا ہو گا اگر سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا گھر صاف کر لیا جائے۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کمزور کے پاس اگر کوئی قیمتی چیز ہو تو اسے نعمت نہیں خطرہ سمجھنا چاہیے۔ جیسا کہ افغانستان کے ساتھ ہو رہا ہے، اس پر ہاتھ صاف کرنے ہزاروں کلومیٹر دور سے طاقتور پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اور عسکری حیثیت ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوطی حاصل کر کے اپنے ریاستی ڈھانچے میں موجود خطرناک کمزوریوں کو دور کر لیں۔

 

بشکریہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے