کارنامے نواب تیس مار خان کے

بعض لوگ بات کو نمک مرچ لگا کر بیان کرتے ہیں یا زیب داستاں کے لیے فرضی واقعات گھڑ لیتے ہیں، لیکن ہمارے ممدوح نواب صاحب کو اس طریق سے سخت چڑ ہے۔ انہوں نے اپنی داستان میں جگہ جگہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ بیان کردہ تمام واقعات سراسر صحیح ہیں اور حرف بحرف سچ۔ یہ نواب دراصل جرمنی کے بیرن منش ہاوزن صاحب ہیں، جن کے شہرہ آفاق کارناموں کو ان کے مداح، صاحب اسلوب نثر نگار اور شاعر ابن انشا نے اردو کا روپ دیا۔ کتاب کے تعارف میں ابن انشا لکھتے ہیں: ”اگرچہ ان کا لقب تیس مار خان بھی ان کے سراپا صداقت ہونے کی گواہی نہیں دیتا لیکن اس کی تلافی ہم شروع کتاب میں ایک سرٹیفکیٹ چھاپ کر کر رہے ہیں۔ جس میں مشہور زمانہ سیاحین گلیور اور سند باد اور الٰہ دین متخلص بہ چراغ والے نے ہمیں قسمیہ تاکید کی ہے کہ ان ملفوظات پر ایسے ہی ایمان لانا ہو گا جیسے آپ لوگ ہماری سرگزشتوں پر لاتے ہیں ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہو گا۔ ہر چند کہ ان صاحبوں نے اپنی حکایات یعنی سرگزشتوں کے ساتھ اس قسم کے صداقت نامے کبھی منسلک نہیں کیے تاہم خطائے بزرگاں گرفتن خطاست۔ ہمارے لیے نواب تیس مار خان یعنی بیرن منش ہاوزن بھی سچے اور یہ حضرات بھی سچے۔“
اس تمہید کے بعد اب نواب صاحب کی زبانی، دوران شکار پیش آنے والے دو واقعات ملاحظہ کریں:

(1) ایک روز کی بات ہے سارا دن شکار کھیلتے میرے چھرے اور گولیاں صرف ہو چکی تھیں کہ ایک بارہ سنگھے سے سامنا ہو گیا۔ اب کیا کیا جائے؟ بارود تو تھا لیکن گولیوں کی جگہ کیا ڈالا جائے۔ اتفاق سے میں اس وقت کھڑا بیر کھا رہا تھا اور بہت سی گٹھلیاں آس پاس بکھری پڑی تھیں۔ میں نے وہی گٹھلیاں مٹھی بھر جمع کیں اور بندوق میں ڈال بارہ سنگھے کی پیشانی کا نشانہ لیا۔ نشانہ عین سینگوں کے درمیان لگا اور وہ چوٹ کھا کر بھاگ نکلا اور نظروں سے غائب ہو گیا۔
اس کے کوئی دو سال بعد کی بات ہے، میں ایک بار پھر اسی جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ ایک بارہ سنگھے کو دیکھا جس کے سینگوں کے بیچوں بیچ کئی ہاتھ اونچا بیر کا پیڑ اگا ہوا تھا۔ تب مجھے پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ یہ ہرن تو میرا حق تھا۔ میں نے گولی سے اسے گرا لیا۔ ایک گولی میں دو شکار کہیے۔ گوشت اپنی جگہ اور بیر اپنی جگہ۔ سچ یہ ہے بیر اتنے لذیذ تھے کہ پہلے کبھی مجھے ایسے بیر کھانے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔

(2) ایک واقعہ ایک بھیڑیے کا بھی ہے جو ایسے وقت مجھ پر پل پڑا کہ گولی بارود کیا چقماق تک سے جیب خالی تھی۔ میں نے بے اختیار اپنا ہاتھ ہی اس کے کھلے منہ میں ٹھونس دیا اور اسے اندر گھسیڑتا چلا گیا حتیٰ کہ پورا ہاتھ کاندھے تک بھیڑیے کے حلق اور شکم میں سے ہوتا ہوا دم تک پہنچ گیا…..میں اور ریچھ آمنے سامنے ایک دوسرے کو خون پینے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ اگر میں ہاتھ باہر نکالتا تو وہ فوراً میری تکہ بوٹی کر دیتا۔ اس کی دم کی جڑ میرے ہاتھ میں آ جانا بہت اچھا ہوا۔ میں نے اسے مضبوطی سے پکڑ پورے بھیڑیے کو اس طرح الٹا دیا جیسے آپ دستانے کو یا بنیان کو یا موزے کو اتارتے ہیں۔ اندر کا حصہ باہر کی طرف، باہر کا حصہ اندر۔

یہ تو رہا شکار کا قصہ، نواب تیس مار خان کی کچھ دوسری مہم جوئیوں کے عنوانات یہ ہیں: ماجرا چاند پر چڑھنے اترنے کا۔ کھیلنا توپ کے گولوں سے۔ توپ اٹھا کر سمندر میں پھینک دی۔ میں نے قیدی کیسے چھڑائے۔ سو جانا توپ کی نال میں۔ پاتال کی سیر۔

 

 

اس مقام پر کوئی نواب تیس مار خان کو جھوٹا خیال کر رہا ہے تو اسے بتاتے چلیں کہ سفر کے دوران ان کا گزر ایک جگہ سے ہوتا ہے جہاں تین آدمیوں کو ایک اونچے درخت سے الٹا لٹکایا گیا تھا۔ نواب صاحب نے پوچھا کہ بھئی ان کا جرم؟ معلوم ہوا یہ سیاح ہیں جو سفر سے آ کر لمبی لمبی ہانکا کرتے تھے۔ ہر بات میں جھوٹ ملاتے تھے۔ ہمارے ممدوح اس پر الحمد للہ کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے میں ایسا نہیں۔ میں نے آج تک صداقت سے سرموانحراف نہیں کیا۔

 

 

ابن انشا کی ترجمہ کردہ یہ دلچسپ کتاب پہلی بار 1971ءمیں شائع ہوئی تھی، جسے اب نیشنل بک فاﺅنڈیشن، اسلام آباد نے دوبارہ چھاپا ہے۔ تصویری خاکوں سے مزین اس خوبصورت کتاب کی قیمت 70روپے، صفحات 68 ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے