عشق رسولﷺ او رہاتھ کاٹنے کا واقعہ

کوئی بھی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی مال جان وجہِ تخلیق ِکائنات سردار انبیاءؑ کی عزت و عظمت پر قربان کرنے کا جذبہ نہ رکھتا ہو اور جو انسان توہین رسالت کا مرتکب ہو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا مگر جو کچھ اوکاڑا میں ہوا کیا یہ توہین رسالت تھی ؟ اور کیا جو کچھ اس کے ردعمل میں اس بچے نہیں کیا کیا یہ عشق رسولؐ تھا؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو نبی اکرمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے۔

عن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( إن الله تجاوز عن أمتي الخطأ والنسيان وما استُكرهوا عليه ) حديث حسن رواه ابن ماجة والبيهقي وغيرهما
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے میری امت خطا ،بھول جانا اور جس بات پر ان کو مجبور کیا گیا ہو اس کے حساب کتاب کو معاف کر دیا ہے ۔

اس حدیث مبارکہ کے الفاظ بہت واضح ہیں اس میں نبی اکرم ﷺنے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی بہت سی ذہنی الجھنوں کو حل کر دیا کہ بھول چوک کر ،غلطی سے یا جب کوئی ظالم جابر مجبور کرے اور کچھ ایسا کام ہو جائے جو دل سے نہ کیاہو تو اس پر پریشان نہیں ہونا بلکہ اللہ ایسے کاموں کو معاف کر دے گا.

جو شخص اس پر آشوب دور میں اتنی سردی میں یاد رسولﷺ میں منعقدہ ایک محفل کو سننے کے لیے آیا بیٹھا ہے وہ کسی بھی طور پر رسول اکرم ﷺکا مخالف نہیں ہو سکتا وہ تو دل عشق رسول ﷺکی تڑپ لیے سچے جذبے کے ساتھ اپنے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے آیا ہے خطابات کے دوران اکثر مولانا صاحبان کا انداز خطابت ہوتا ہے کہ وہ کئی سوالات کرتے ہیں جن میں بار بار ہاتھ بلند کر کے تائید طلب کی جاتی ہے یہ بھی اسی طرح کا معاملہ تھا مگر یہاں مولانا صاحب نے پہلا سوال تو تائید میں ہاتھ اٹھانے والا کیا دوسرا سوال ایسا نہ تھا اس کے باوجود بچے کا ہاتھ اٹھ گیا یہ ہاتھ جان بوجھ کر نہیں اٹھایا گیا تھا بلکہ غلطی سے اٹھا تھا اور نبی اکرم ﷺکے اس فرمان ذیشان کے مطابق اللہ نے اس پر سزا کو کو معاف کر دیا ہے وہ بھول چوک پر سزا نہیں دیتا سزا اسے دی جاتی ہے جو اپنی نیت اور ارادے سے کسی عمل کو گناہ جانتے ہوئے انجام دیتا ہے۔

[pullquote]جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ ہاتھ اٹھا لینے کے بعد جو کچھ اس بچے نے انجام دیا کیا وہ عشق اور محبت ہے ؟عشق اور محبت وہ پاکیزہ جذبات ہیں جو انسانی فطرت میں پسندیدہ ہیں ہر انسان چاہے اس کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے وہ کسی مذہب کا ماننے والا ہو یا نہ ہو وہ ان دونوں صفات کو پاکیزہ صفات اور اس کے حامل فرد کو ایک آئیڈیل کے طور پر ہی دیکھے گا جب بچے نے ہاتھ بلند کیا اور فورا یہ احساس کیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے اور ہاتھ نیچے کر لیا تو بات کو یہیں پر ختم ہو جانا چاہیے مگر کیا کیا جائے جہالت کا کہ وہاں موجود اہل محفل نے اس بچے سے کہا کہ تم نے ہاتھ اٹھا کر نبی اکرمؐ کے خلاف ہاتھ اٹھایا ہے اور توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے بچہ جو عشق و محبت کے پاکیزہ جذبات رکھتا تھا جب اس نے یہ دیکھا کہ سب لوگ اس بات پر متفق نظر آ رہے ہیں کہ میں نے توہین رسالت کی ہے تو اس نے وہ انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا جس میں اس نے اپنا ہاتھ کاٹ دیا.
[/pullquote]

[pullquote] یہاں اس عالم کا کردار بہت اہم تھا اگر وہ کوئی پڑھا لکھا شخص ہوتا تو فورا کہتا نہیں بچے سے غلطی ہوئی اس یہ حدیث نبوی سناتا جس میں ایسے عمل پر معافی کا اعلان کر دیا گیا ہے تو یہ واقعہ پیش نہ آتا یہ ردعمل بچے کے پاکیزہ جذبات کا تو مظہر ہو سکتا ہے مگر مذہب کی یہ تفہیم اور خود کو سزا دینے کا یہ طریقہ کار کسی بھی طور پر شیریعت کو مطلوب نہیں ہے .
[/pullquote]

یہاں صحابی رسولؐ حضرت عمار یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ واقعہ ہماری بہتر رہنمائی کر تا ہے جس میں ان کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا تھا حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو کفار کے ایک گروہ نے گرفتار کر لیا اور بہت زدو کوب کیا مارا پیٹا اور ان کو مجبور کر دیا کہ وہ اسلام اور آپؐ سے بیزاری کا اظہار کریں ایسا کرنا حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے بہت مشکل کام تھا مگر جب مجبور کر دیے گئے تو ایسا کر دیا کچھ لوگوں نے آپؐ کے پاس آ کر کہا کہ عمار رضی اللہ تعالی عنہ اسلام سے پھر گئے ہیں نبی رحمتؐ نے فرمایا عمار رضی اللہ تعالی عنہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا عمار رضی اللہ تعالی عنہ پورےکا پورا ایمان سے بھرا ہوا ہے ایمان اس کے خون اور گوشت میں شامل ہے جب حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ آپؐ کے پاس آئے پورا واقعہ بیان کیا تو آپؐ نے پوچھا آپ کے دل کی کیا کیفیت تھی ؟ حضرت عمار نے رضی اللہ تعالی عنہ جواب دیا میرا دل تو ایمان سے مطمئن تھا اس پر آپؐ نے فرمایا اگر دوبارہ کبھی ایسی صورت حال میں گرفتار ہو جاؤ تو جیسا کفار کہیں ویسا کہہ دینا
مجبور کر دیا جانا اور غلطی سے کسی کام کا ہو جانا دونوں میں انسان وہ کام کرنا نہیں چاہ رہا ہوتا جو ہو جاتا ہے اس لیے اللہ نے اس قسم کے کام کے ہو جانے پر معافی کا اعلان کیا ہے اس حوالے سے نبی اکرم ﷺکی یہ حدیث بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے۔

عن حذيفة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه ، قالوا : وكيف يذل نفسه ؟ قال : يتعرض من البلاء لما لا يطيق
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا مومن کے لیے یہ سزا وار نہیں ہے کہ خود کو خود ذلیل کرے ؟ آپؐ سے صحابہ کرام نے پوچھا کہ مومن کیسے خود کو ذلیل کرتا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا ایسی بلاوں سے ٹکرا کر جن سے نمٹنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔

اس دعا پر ختم کرنا چاہوں گا اللہ تعالی ہمیں صحیح تفہیم دین اور سچا عشق ِ رسول ﷺ عطا فرمائے جو دنیا و آخرت میں ہماری کامیابی کا ضامن ہو.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے