دیسی لبرلز کو تکلیف کچھ "اور”ہے

شنید ہے کہ تاجکستان کی حکومت نے داڑھیوں کے خلاف آپریشن کلین اپ شروع کر رکھا ہے. کاش ایسی کوئی خبر میرے ملک میں بھی سننے میں آئے.داڑھیاں اور حجاب ہی نہیں، دوپٹے بھی نوچ لئے جائیں، تاکہ حسن بے حجاب پھرا کرے. "تہذیب نو” سرعام اٹھکھیلیاں کرتی ہو. مذہب پر پابندی لگے، الحاد کا دور دورہ ہو اور زبان پر نام خدا لینا جرم ٹھہرے. نام تو جمہوریت کا ہی ہو، مگر جمہور کی مرضی سے نہیں. بلکہ ہماری "روشن فکر” کے مطابق قوانین تشکیل پائیں. کیونکہ فرسودہ خیالات کے حامل جمہور کیا جانیں تہذیب جدید کے تقاضے؟

جی ہاں شخصی، مذہبی اور اظہار رائے کی آزادی کی حسرت میں چھپے یہی وہ ارمان ہیں جو میرے لبرلز برادران وطن کے من میں مچلتے رہتے ہیں. اور روگ کی صورت آئے دن انہیں اندر ہی اندر سے گھائل کئے جارہے ہیں. جبھی تو ان کے ہاں اس قدر چڑچڑا پن در آیا ہے، کہ وطن عزیز پر جب بھی کوئی افتاد ٹوٹے، ان کے نزدیک اس کے ذمہ داران علماء دین اور اہل مذہب ہوں گے.
قلب و جگر ہی نہیں روح تک چھلنی ہے.

راجن پور کی رانی کے ساتھ جو بیتی، اس کا صدمہ ہر اس شخص کو ہوا جس کے اپنے آنگن میں ننھی ‘رانیوں’ سے رونق ہےـ نوٹس، نوٹس کھیلنے کے عادی حکمرانوں نے اگر چند ایسے درندوں کو نشانہ عبرت بنایا ہوتا تو راجن پور کی رانی کی ماں کو یہ دکھ نہ جھیلنا پڑتا. دل حساس ابھی اس دکھ سے سنبھل نہ پایا تھا کہ کارخانو مارکیٹ پشاور کے دھماکے میں شہید ہونے والوں کا صدمہ ان کا منتظر تھا، مگر ہمارے قومی روح و رواں کی یہ چھید ان درندوں کی ہوس کی آسودگی کیلئے کافی نہ ہوئی۔ ابھی ان شہداء کی تدفین کر کے پلٹے ہی تھے کہ گھات لگائے درندوں نے ہمیں چارسدہ یونیورسٹی میں آن دبوچا. اور کبھی نہ بھرنے والا ایک اور گھاؤ ہمارے قومی وجود پر لگا گئے.

جب ان درندوں کے خلاف پوری قوم سراپا وحدت ہے کہ سب کے قلب و جگر یکساں چھلنی ہیں، ایسے میں بھی میرے لبرلز برادران وطن اپنے مشن میں جتے ہوے ہیں. جیسے فکری انتشار باور کرانا مقصود ہو.

حسبِ معمول ان کی صفوں سے سوال اٹھا ہے کہ پاکستان بھر سے کسی ایک عالم دین کا نام بتائیے. جس نے الفاظ چبائے، چونکہ، چنانچہ اور اگر مگر کئے بغیر اپنے پورے قد سے کھڑے ہو کر دہشت گردوں کو دہشت گرد کہا ہو؟ جب بغض و عناد تجاہل عارفانہ پر مجبور کر دے. تو 14 اکتوبر 2008 کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقد ہونے والا پورے دیوبندی مکتب فکر کا اجلاس اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والا متفقہ فتوی. جس میں وطن عزیز میں مسلح جدوجہد کو حرام قرار دیا گیا تھا نظر نہیں آتا. یہ طوطا چشمی تو خود کش حملوں کو حرام قرار دینے کی پاداش میں شہید ہونے والے مفتی اعظم مفتی حسن جان اور مفتی سرفراز نعیمی کی شہادت کو بھی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے.

اگر میرے ان لبرلز برادران وطن کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو ان سے سوال کرنے کی جسارت کروں گا کہ اپنی صفوں سے کوئی ایک مولانا معراج الدین شہید پیش کر سکتے ہو؟ جنہوں نے فاٹا کے شورش زدہ علاقہ میں پورے قد کے ساتھ کھڑے ہو کر آئین کی بالادستی اور جمہوری جدوجہد کی بات کی. اور اس کی پاداش میں جام شہادت نوش کیا. یا وانا کے مولانا نور محمد شہید جیسا؟ جنہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے ان دہشت گردوں کو مجاہد ماننے سے انکار کیا. یا لکی مروت سے تعلق رکھنے والے مولانا محسن شاہ شہید جیسا؟ جنہوں نے بہ بانگ دہل اس درندگی کو درندگی کہا.

جن کی اپنی گرہ میں اس عفریت کے خلاف عملی جدوجہد کرنے والا کوئی ایک ہیرا بھی نہ ہو. اور ان کے پلے صرف باتیں ہی باتیں ہوں. انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ ان علماء دین پر تنقید کریں جنہوں نے بے سروسامانی اور ‘دو طرفہ’ عدم تحفظ کے ماحول میں حق گوئی کا علم بلند رکھا ہوا ہے.اکبر الہ آبادی مرحوم یاد آ گئے
سورج میں لگے دھبہ فطرت کے کرشمے ہیں.
بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے.

وفاق المدارس سے لے کر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی، مفتی محمد تقی عثمانی، جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور دینی سیاسی جماعتوں تک کون ہے جس نے اس دہشت گردی کی مذمت نہیں کی؟ چاہیے تو یہ تھا کہ علمائے دین کے اس موقف کو اجاگر کیا جاتا. تاکہ دشمن کو پیغام ملتا، کہ آؤ دیکھو اہل علم کا وزن کس پلڑے میں ہے اور وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں. لیکن بجائے علمائے دین کا موقف اجاگر کرنے کے بیک جنبش قلم ان کے کردار پر ہی سوال کھڑے کر دینا. جبکہ دشمن اپنا مقدمہ پہلے ہی خود ساختہ دینی بنیادوں پر پیش کر رہا ہو. کیا دشمن کے موقف کو تقویت پہنچانے کے مترادف نہیں؟

جب قوموں کو حوادث کا سامنا ہو تو اس کا راستہ وہ خود آگے بڑھ کر روکا کرتی ہیں. مصیبت کے وقت تقسیم ہو جانے والوں کو تاریخ بھی اپنے اوراق میں جگہ نہیں دیتی. قوموں کی خطائیں قدرت معاف نہیں کیا کرتی. جب پوری قوم حکومت کی پشت پر کھڑی ہو اور حکومت قوم پر سایہ فگن. تب جا کر مصائب کا رخ پھیرنا ممکن ہو پاتا ہے.

اس کیلئے عوام و حکومت کے درمیان اعتماد باہمی لازم ہے. کیونکہ اعتماد باہمی ہی قوم سازی کی خشت اول ہوتی ہے. لیکن آہ…! کیسا المیہ ہے کہ ایک قوم بننا تو دور کی بات. شاید ہم تو ابھی قوم سازی کی نیو ہی نہ اٹھا پائے.

رویوں کا تضاد تو ملاحظہ کیجئے ایک طرف شکایت ہے کہ علمائے دین اس گمراہی کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے اور دوسری طرف اگر علمائے کرام آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہوئے جمہوری جدوجہد میں شریک ہو کر مسلح جدوجہد کی عملاً نفی کرنا چاہیں تو ان لبرلز کو تھیوکریسی نظر آنے لگتی ہے.
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے