تصویر نہیں طماچہ

یہ تصویر ہماری حکومت اور اُس سے بڑ کر نظام عدل کے چیچک زدہ چہرے پر زناٹے دار طماچہ ہے۔ یہ بول ٹی وی کے ملازمین ہیں جو دس ماہ سے تنخواوں کی عدم آدائیگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ میڈیا کی صنعت کے بہترین کارکنان ہیں۔ یہ اپنی پیشہ وارانہ دیانت کے لئے مشہور صحافی ہیں۔

یہ لوگ دس ماہ سے سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے، کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مہینوں قبل ان کے حق فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو ان کی تنخوائیں اور واجبات فوری طور پر ادائیگی کا بندوبست کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ باوجود اس کے کہ حکومت کا وزیر اطلات اور سیکریٹری اطلاعات الگ الگ مواقعوں پر آن ریکارڈ اعلان کر چکے ہیں کہ حکومت ان کی تنخواوں کی آدائیگی کا فوری بندوبست کرے گی۔ باوجود اس کے کہ میڈیا کنٹرول کرنے والی حکومتی اتھارٹی ‘پیمرا’ حکومت کو خط لکھ چکی ہے کہ ان کی تنخواوں کی آدائیگی فوری طور پر ممکن بنائی جائے۔ باوجود اس کے کہ "بول ٹی وی” کی انتظامیہ حکومت سے بار بار اپیل کر چکی ہے کہ ہم اپنے ملازمین کی تنخواؤں اور دیگر واجبات ادا کرنا چاہتے ہیں۔ صرف حکومت اس آدائیگی کی اجازت دے۔

[pullquote]پھر اس سب کے باوجود پھر مسئلہ کیا ہے؟؟[/pullquote]

مسئلہ یہ ہے کہ چند میڈیا سیٹھ نہیں چاہتے کہ ان ورکرز اور صحافیوں کو تنخواہ ملے۔ یہ میڈیا سیٹھ جو اکیسویں صدی میں صحافیوں کو اپنا غلام بنا کر رکھتے ہیں۔ انہیں سزا دے رہے ہیں اپنی میڈیائی جہاگیروں کی قید سے باہر نکلنے کی۔ اور حکومت ان میڈیا سیٹھوں کے سامنے بلیک میل ہو رہی ہے۔ ریاست کی عملداری ایک مذاق بن چکی ہے، عدلیہ کے فیصلوں کا نفاذ اور حکومتی وعدوں کی تکمیل اور آئین میں دے گئے بنیادی حقوق کا حصول ایک خواب بن چکا ہے۔

bol

قانون اور عدل کے ساتھ مذاق صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ جو اس مسئلے کی جڑ ہے وہاں اس سے بھی بڑا مذاق چل رہا ہے۔ بول ٹی وی لانچ کرنے والی "کمپنی ایگزیکٹ” کے خلاف غیر ملکی اخبار میں چھپنے والی مشکوک خبر اور پھر پاکستانی میڈیا کے دباؤ کے تحت درج کیے گئے مقدمے کو ایک سال ہونے کو آیا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفع چار سو بیس کے تحت درج مقدمے میں ایک سال سے پاکستان کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی "ایگزیکٹ” کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان سمیت اعلیٰ انتظامیہ کے تمام ارکان جیل میں قید ہیں۔ تمام دفاتر سیل اور بینک اکاونٹ منجمد ہیں۔ جس کی وجہ سے سات ہزار خاندان متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک ایسی دفع جس میں کے تحت مطلوب ملزم کو کوئی بھی تھانیدار شخصی ضمانت پر رہا کر سکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ اب تک "ایف آئی اے” کسی پر فرد جرم عائد کر سکی ہے، نہ ہی کوئی ثبوت یا چالان عدالت میں پیش ہوا۔

ابتداء سے عدالتی کاروائی میں ایک ہی مشق چل رہی ہے۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر ایف آئی اے کی جانب سے ایک نیا وکیل پیش ہو کر کیس کے مطالعے کے لئے مہلت طلب کرتا ہے، اگلی پیشی پر بیماری کا سرٹیفکیٹ پیش کر کے مہلت حاصل کرتا ہے، تیسری پیشی پر کیس کی پیروی سے معذرت کر لیتا ہے۔ پھر ایف آئی ایک نیا وکیل مقرر کرنے کی مہلت طلب کرتی ہے۔ یوں ایک وکیل کو تین سے چار پیشیوں میں ایک مہینہ ضائع کرنے پر ایف آئی اے لاکھوں روپیہ ادا کرتی ہے۔ اور پھر اگلے مہینے ایک نیا وکیل عدالت میں حاضر ہوتا ہے۔ نہ عدالت سوال کرتی ہے کہ یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟ اور نہ ہی حکومت کو غرض کے کہ قومی خزانہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے لئے لُٹایا جا رہا ہے۔

یہ حال ایک ہائی پروفائل کیس کا ہے جس کے متاثرہ فریقوں میں ملک کے نامور صحافی اور انتہائی با وسائل شخصیات شامل ہیں۔ اس آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارا نظام انصاف کس قدر فرسودہ، بے کار اور طاقتور افراد کے سامنے کس طرح موم کی ناک ثابت ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک غریب اور بے وسیلہ فرد کے ساتھ اس نظام میں کیا سلوک ہوتا ہو گا۔

[pullquote]سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟؟[/pullquote]

حضرت علی رضی اللہ کا قول یاد آتا ہے، معاشرے کفر پر قائم رہتے ہیں لیکن ظلم پر نہیں۔
اللہ میرے وطن عزیز کو قائم دائم رکھے اور جو افراد یا ادارے یہاں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں انہیں تباہ و برباد کر کے نشان عبرت بنا دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے