باچا خان پر حملہ

کون ایسا شخص ہے جس کی آنکھ باچاخان یونیورسٹی میں شہید کیے جانے والے بے گناہ نوجوانوں کے لیے اشک بار نہ ہو۔ میرے لیے یہ صدمہ دہرا تھا۔ پہلا یہ کہ دہشت گردوں کو تعلیم سے ڈر لگتا ہے، اسی لیے کبھی وہ کم عمر طالب علموں کو بے دردی سے ہلاک کرتے ہیں اور کبھی یونیورسٹی کے طلباء کو نشانہ بناتے ہیں۔
دوسرا صدمہ اس بات کا کہ چارسدہ میں اس شخص کے نام پر بننے والی ’پوہنتون باچاخان‘ میں بے دردی سے خون بہایا گیا جس کا سیاسی فلسفہ عدم تشدد تھا۔

دوسرے لفظوں میں کہہ لیجیے کہ عدم تشدد کو تشدد کے خنجر سے ذبح کیا گیا۔ خان عبدالغفار خان جنھیں لوگ محبت سے ’باچاخان‘ اور ’بادشاہ خان‘ پکارتے ہیں، وہ خیبر پختونخوا کے بیٹے تھے، اس کی آزادی اور اس کے لوگوں کی تعلیم کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔

برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کی کوششوں میں ان کی زندگی کے بیشتر ماہ و سال ہندوستان کی مختلف جیلوں میں گزرے۔ صدمے کی بات یہ ہے کہ وہ جو انگریز کے جانے کے اور آزادی کے خواہاں تھے، جب برٹش راج سے آزادی ملی اور پاکستان ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم ہوا تو بجائے اس کے کہ آزادی کی جنگ لڑنے والے اس بے مثال سیاسی رہنما کی عزت و توقیر کی جاتی، پہلے دن سے باچا خان کا نام غداروں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا اور ابھی برٹش راج کی قید و بند کی کلفتیں کم نہیں ہوئی تھیں کہ آزاد پاکستان میں بھی جیل کی کوٹھریاں ان کی قیام گاہ ٹھہریں۔

کم عمری سے اخبار پڑھنے کا چسکا تھا، اس لیے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ غداروں کی جو فہرست شایع ہوتی اس میں خان عبدالغفار خان المعروف بہ باچا خان، جی ایم سید اور کئی دوسروں کا نام سرفہرست ہوتا۔ ہماری نوجوان نسل باچا خان کی قید و بند پر مشتمل زندگی سے واقف نہیں، اس لیے وہ نہیں جانتی کہ برٹش راج سے آزادی کی جدوجہد میں انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کیا قربانیاں دی تھیں۔

وہ فروری 1890ء کو اتمان زئی ہشت نگر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیوسٹی بھیج دیے گئے۔ وہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کوچہ سیاست میں قدم رکھا، 1929ء میں ایک تحریک خدائی خدمت گار شروع کی، کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ پٹھان عدم تشدد اختیار کرسکتے ہیں، مہاتما گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد سے اتنے متاثر ہوئے کہ آخری سانس تک یہی طرز حیات ان کی زندگی کا محور رہا۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ انڈین نیشنل کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں میں تھے۔

وہ بٹوارے کے خلاف تھے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو انھوں نے حکومت سے وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر ایک انتظامی یونٹ ’پشتونستان‘ بنادیا جائے۔ اس مطالبے پر انھیں ’غدار‘ کہا گیا اور وہ جیل بھیج دیے گئے۔ تھوڑی مدت کے لیے رہا کیے گئے تو انھوں نے ون یونٹ کی سختی سے مخالفت کی، اس کے نتیجے میں 60 اور 70کی دہائیوں کا زیادہ عرصہ انھوں نے جیل میں گزارا۔ یہی وہ دن تھے جب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 1962ء میں انھیں ’ضمیر کا قیدی‘ قرار دیا اور ساری دنیا نے ان کی رہائی کی اپیلیں کیں۔

انھوں نے خدائی خدمت گار بنائے جن کے لیے لازم تھا کہ وہ سرخ قمیص پہنیں، اسی لیے یہ لوگ ’سرخ پوش‘ کہے گئے۔ پولیس یا فوج کے مظالم کے خلاف انھیں ہتھیار اٹھانا تو دور کی بات ہے، لکڑی اور پتھر سے لڑنا بھی حرام تھا لیکن یہ باچا خان کی فکری صلابت اور ان کی تقریر کی جادوگری تھی کہ برطانوی راج میں اور اس کے بعد بھی سرخ پوش نوجوان پولیس اور فوج کی گولیاں کھا کر گرتے رہے لیکن ان کی طرف سے کبھی ایک پتھر بھی نہیں پھینکا گیا۔

باچا خان کا کہنا تھا:’’عدم تشدد کو لوگ نہیں سمجھتے ہیں۔ میں آج یورپ کی تباہی اور بربادی کو دیکھتا ہوں کہ وہاں خدا کی مخلوق کے لیے ذرا رحم نہیں ہے تو میرا عدم تشدد پر عقیدہ اور بھی پختہ ہوجاتا ہے۔ تشدد کیا ہے نفرت اور عدم تشدد کیا ہے محبت … آپ نے دیکھا دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ جو قومیں تشدد کرتی ہیں، انھیں شکست بھی ہوجاتی ہے لیکن عدم تشدد میں صرف فتح ہی فتح ہے۔ آپ اپنی تحریک میں دیکھیں، آپ کا جذبہ بڑھا ہوا ہے، آپ آگے ہی آگے جارہے ہیں۔ پھر شکست کیسی‘‘۔

 

اپنی ایک تقریر میں انھوں نے کہا: ’’میں پارلیمنٹری آدمی نہیں، انقلابی آدمی ہوں، جو لوگ جیل میں میرے ساتھ رہے ہیں، میرے خیالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ جب کچھ لوگ جیلوں سے رہا ہوئے تو میں نے انھیں کہا تھا کہ آپ گھروں میں نہ بیٹھیں اور اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو محض آواز بلند کریں، لیکن آپ سے اتنا بھی نہ ہوسکا، آپ سے آواز تک بھی نہ اٹھائی گئی۔ آج میں آیا ہوں تو ہر ایک طاقتور بن گیا ہے۔ ابھی ہمارا کام ختم نہیں ہوا، ابھی تو کام اسی طرح جاری ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ میں پھر وہ جذبہ پیدا کروں اور جب مجھے یقین ہوجائے کہ آپ تیار ہیں تو پھر دیکھئے کہ میں جنگ جاری کرتا ہوں یا نہیں۔ آپ لوگ تالیاں بجاتے ہیں لیکن تالیاں بجانے سے میں خوش نہیں ہوسکتا۔ میں تو عمل کا آدمی ہوں۔ کئی لوگ اپنے آپ کو بزرگ اور بڑے عالم کہتے ہیں، لیکن قوم کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے۔ ہماری قوم بہت سادہ ہے‘‘۔

باچا خان تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ رام سرن نگینہ نے اپنی کتاب اٹک پار کی یادیں، میں باچا خان کی تعلیم سے گہری دلچسپی کا ذکر کچھ یوں کیا ہے کہ: ’’صوبہ سرحد میں تعلیم نام کی کوئی چیز نہ تھی، نہ کوئی اسکول تھا، نہ کالج، یونیورسٹی تو بڑی چیز ہے۔ وہاں تعلیم کے خلاف انگریز نے بڑی دلچسپ فضا بنادی تھی۔

سرکاری آدمی بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے پشتو زبان کا ایک شعر یاد کرایا کرتے تھے اور یہ لڑکے بازاروں اور گلیوں میں یہ شعر بڑے جوش و خروش سے پڑھا کرتے تھے۔ اس کے معنی ملاحظہ ہوں۔ ’’جو مدرسے سے سبق پڑھتے ہیں وہ پیسوں کی خاطر ایسا کرتے ہیں، انھیں جنت میں جگہ نہیں ملے گی، وہ دوزخ میں رگڑے کھاتے پھریں گے‘‘۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ صوبہ سرحد میں اسکول کھولنا جرم تھا۔ بادشاہ خان کو اتمان زئی میں اسکول کھولنے کے جرم میں تین سال کی سزا ہوگئی تھی۔

اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ پٹھانوں میں تعلیم کا نام و نشان نہ تھا۔ اسی جہالت سے فائدہ اٹھا کر صوبہ بھر میں دہشت پھیلادی گئی تھی۔ اگر کہیں کوئی پٹھان مشتعل ہوکر کسی انگریز کو قتل کردیتا تھا تو اپنا رعب قائم کرنے کے لیے انگریز پورے گاؤں کے گاؤں اجاڑ دیتے تھے۔ بے شمار پٹھانوں کو پھانسی دے دیتے تھے۔ اپنا رعب طاری کرنے کے لیے کیا کیا ترکیبیں کی جاتی تھیں صرف ایک مثال ملاحظہ ہو:

’’مالاکنڈ کے ایک پولیٹیکل ایجنٹ نے وہاں کے لوگوں پر ایسی دہشت بٹھا رکھی تھی کہ ان کے بڑے بڑے آدمی بھی جب کسی انگریز کو دیکھ لیتے تھے تو ان پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور بہت دور سے اس کے آگے جھک جاتے تھے اور بڑے ادب سے اسے سلام کرتے تھے۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ اگر کوئی آدمی انگریز کے سامنے آجاتا اور انگریز کو سلام نہ کرتا تو اسے گرفتار کرلیا جاتا تھا اور اسے کاٹھ میں ڈال دیا جاتا تھا۔کاٹھ ایک بڑی بھاری وزنی اور لمبی لکڑی ہوتی تھی۔ اس میں سوراخ ہوا کرتے تھے۔ ان سوراخوں کے اندر آدمی کے پاؤں دبا دیے جاتے تھے اور اوپر سے لکڑی کے ڈھکنے کو ٹھونک ٹھونک کر بند کردیا جاتا تھا۔ اس طرح آدمی اس میں بندھا ہوا پڑا رہتا تھا‘‘۔

دہشتگردوں نے باچا خان یونیورسٹی کو اپنا نشانہ بنایا تو اسی لیے کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کریں کیونکہ تعلیم ہی درست اور غلط، سیاہ اور سفید میں تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ حملہ آوروں کا خیال ہے کہ جدید تعلیم ہمارے نوجوانوں کو مرتد اور کافر بنا دیتی ہے، اسی لیے وہ تعلیمی اداروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔

ان کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ وہ درجن دو درجن طلبا کو قتل کردیں، ان کی کوشش اور خواہش یہ ہے کہ طلبا اور ان کے والدین میں اتنا خوف و دہشت پیدا کرو کہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول، کالج یا یونیورسٹی نہ بھیجیں، لیکن ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ خوف اور احتیاط میں ان اداروں کو چند دنوں کے لیے بھی بند کرنے کا خیال دل میں نہ لایا جائے۔ باچاخان نے خیبر پختونخوا میں تعلیم عام کرنے کا مشن 1910ء سے شروع کردیا تھا جب انھوں نے اتمان زئی میں ایک مدرسہ کھولا، اس وقت ان کی عمر صرف بیس برس تھی۔ ان کی کوششوں سے ایسے مدرسے خیبر پختونخوا کے ہر علاقے میں کھل گئے۔

لڑکوں میں اخبار اور کتب بینی کا شوق پیدا ہوا اور اس کے ساتھ ہی سیاسی شعور بھی عام ہونے لگا۔ برطانوی راج کو اسی سیاسی شعور سے ڈر لگتا تھا۔ آج بھی جو تاریک ذہن گروہ یا افراد ہیں انھیں بھی عام لوگوں کی ذہنی بیداری سے ڈر لگتا ہے۔ باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کا حملہ دراصل باچا خان، روشن خیالی اور علم دوستی پر حملہ ہے۔

بشکریہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے