تھینک یو راحیل شریف

انگریزی زبان کی ایک ترکیب ہے Gentleman Soldier۔ہماری تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے اس ترکیب کا مناسب ترجمہ میری دانست میں ’’دلاور‘‘ ہوسکتا ہے۔ دلاور محض ایک دلیر شخص ہی نہیں بلکہ چند مثبت روایات کی ترجمانی اور نگہبانی کرنے والا وہ بہادر آدمی ہوتا تھا جو پیدائشی طورپر مہم جو ہی نہیں بلکہ لوگوں کو خطرات سے بھری مہم کو سر کرنے کے لئے ایک گروہ یا جماعت کی صورت منظم کرنے کی صلاحیتوں سے بھی مالامال ہوا کرتا تھا۔

آج کے دور میں دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے Clear Holdاور Build کے الفاظ پر مشتمل ایک فارمولا بہت دہرایا جاتا ہے۔ افغانستان اور سنٹرل ایشیاء سے مسلسل آتے ’’دلاوروں‘‘ کو ماضی کے ہندوستان پر کئی صدیوں تک حکومت کرنے والے مسلمان سلاطین نے اسی فارمولے پر عمل درآمد کے لئے استعمال کیا تھا۔ روہیل کھنڈ اور دکن کی مہمات ان ہی دلاوروں نے سر کی تھیں اور جب مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا تو ان میں سے چند دلاوروںکی باقیات نے انگریزوں کی مکمل حکمرانی تک اپنی اپنی ریاستوں کو خود مختار حیثیت میں قائم رکھا ۔

دلاور اپنے وسیع تر معنوں میں کسی ایک اکل کھڑے مہم جو سپاہی کا نام نہیں۔ دلاوری بلکہ قیادت اور اصول پسندی کے ساتھ ہی فراست کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ فیوڈل ازم کے زوال کے بعد دلاوری سے وابستہ صفات بھی بتدریج ہمارے معاشرے سے غائب ہونا شروع ہوگئیں۔
Gentleman Soldierیا دلاور کی یاد مجھے منگل کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے آئی تو وجہ اس کی ایک ساتھ آنے والی دو خبریں ہیں۔ پہلی خبر خوش کن ہے۔ جی ہاں جنرل راحیل شریف کا یہ اٹل فیصلہ کہ وہ اپنی معیادِ ملازمت ختم ہوجانے کے بعد اس میں کسی توسیع کے خواہش مند نہیں ہیں۔

جنرل کیانی کے دورِ ملازمت کے آخری دنوں میں ہمارے 24/7چینلوں اور اخبارات میں دفاعی امور پر ’’عقل کل‘‘ بنے کئی اینکر حضرات اور لکھاریوں نے پہلے تو ہمیں اس بات پر قائل کرنے میں کئی ہفتے لگادئیے کہ جنرل کیانی کہیں نہیں جارہے۔ دہشت گردی کے خلاف چونکہ جنگ جاری ہے اور جنگ کے عین درمیان کمانڈر تبدیل نہیں کیا کرتے۔ لہذا سول قیادت کی بڑی خواہش ہے کہ Chief of Defence (COD)نام کا کوئی عہدہ متعارف کرواکر اسے جنرل کیانی کے سپرد کردیا جائے۔ ’’خاموش طبع‘‘ اور ہر صورت میں ’’قانع‘‘ قرار دئیے کیانی مگر ایسے کسی عہدے میں دلچسپی رکھتے نہ بتائے گئے۔ جنرل کیانی کی ’’قناعت‘‘ کے گن گانے کے بعد مگراخبارات اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے دفاعی امور پر اپنے تئیں ’’حرف آخر‘‘ بنے ان مسخروں نے ہمیں سمجھانا یہ بھی شروع کردیا کہ موصوف نے گیم ہی ایسی لگائی ہے کہ ان کے بعد نیا آرمی چیف ان کے چہیتے دو ناموں میں سے کوئی ایک ہی ہوسکتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کا نام متوقع افراد کی فہرست میں ڈالا ہی نہ گیا۔ کئی ’’دفاعی ماہرین‘‘ نے تو انہیں بلکہ "Mediocre”ٹھہرا کر ممکنہ آرمی چیف کی فہرست سے باہر نکال دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بالآخر آرمی کی کمانڈ ان کا مقدر بنی ۔

ایک بیمار معاشرے کے روایتی موقعہ پرستوں کی خصلت کے عین مطابق اپنے ’’تجزیوں‘‘ کے باطل ہوجانے پر شرمساری محسوس کرنے کی بجائے ہمارے میڈیا کے بنائے ’’دفاعی ماہرین‘‘ نے فوراََ جنرل شریف میں وہ خوبیاں بھی ڈھونڈنا شروع کردیں جن کے بارے میں شاید ہمارے سپہ سالار خودبھی قطعاََ لاعلم ہوں۔ یہ خوبیاں ڈھونڈلینے کے بعد وقت سے کہیں پہلے نہایت ڈھٹائی سے ان کی معیادِ ملازمت میں توسیع کے بارے میں قیاس آرائیوں کا شوربرپا کردیا گیا۔

قاعدے اور قانون کے مطابق چلنے والے کسی بھی صحت مند معاشرے میں قطعی بے بنیاد سازشی کہانیوں اور ذاتی خواہشوں پر مبنی اس نوعیت کے شوروغوغا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان مگر اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ سیاسی قیادت کو گلی کے غنڈوں کی طرح ٹی وی سکرینوں پر للکارنے والے جی دار حضرات خوب جانتے ہیں کہ پنجابی محاورے والا گھونسا ربّ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ’’گھونسے والوں‘‘ کو لہذا خوئے غلامی میں اپنے تئیں خوش کرتے رہتے ہیں۔

تھینک یو راحیل شریف۔ یقینا آپ کا وقت سے کہیں پہلے واضح الفاظ میں میعادِ ملازمت میں توسیع کی توقع نہ رکھنے والا اعلان ’’ذرا ہٹ کے‘‘ تھا۔ شاید ایک نارمل معاشرے میں اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ آپ مگر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے۔ قوم کو پیغام مل گیا کہ افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں اور پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی ضمانت اسی صورت مہیا ہوسکتی ہے اگر ہمارے تمام ادارے طے شدہ قواعد وضوابط کے تحت کام کرتے ہوئے اپنے فرائض تن دہی سے سرانجام دیتے رہیں۔ آپ ایسے Gentleman Soldierسے کسی بھی قسم کا ذاتی یا سماجی تعلق نہ ہوتے ہوئے بھی مجھے آپ سے اسی بات کی توقع تھی۔ مجھے قوی یقین ہے کہ اپنی معیادِ ملازمت کے اختتام تک آپ اسی رویے کے ساتھ اپنے طے شدہ اہداف کے حصول کے لئے دن رات ایک کردیں گے۔

جنرل راحیل شریف کی جانب سے دی گئی اچھی خبر کے بعد مجھے ذکر کرنا ہے صاحبزادہ یعقوب علی خان کا۔ میری دانست میں وہ اس ’’دلاوری‘‘ کی شاید ہمارے ملک میںایک آخری مثال تھے جس کا ذکر میں نے اپنے کالم کے ابتداء میں کیا ہے۔

اپنی صحافتی زندگی کے آغاز میں خارجہ امور پر رپورٹنگ کی ذمہ داری بھی ملی تو وہ پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ میں انہیں ایک فوجی آمر-جنرل ضیاء کا محض ایک چاپلوس کارندہ ہی شمار کرتا اور وقتاََ فوقتاََ سنسر کرنے والوں کے ساتھ چالاکیاں کرتا ہوا کوئی نہ کوئی سخت فقرہ ان کے بارے میں بھی لکھ ڈالتا۔ کسی سماجی یا سفارتی تقریب میں ملاقات ہوجاتی تو وہ میرے فقرے کو Quoteکرتے ہوئے گویا داد دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ بتدریج انہوں نے میری انگریزی تحریر میں زبان وبیان کی کئی فاش غلطیوں کی ٹھوس حوالوں کے ساتھ نشان دہی کرنا بھی شروع کردی۔ میں ان کی ذات کو اپنے پھکڑپن کا نشانہ بنانے کے بجائے انگریزی ادب کو زیادہ غور سے پڑھ کر اپنی زبان درست کرنے کی فکر میں مبتلا ہوگیا۔

صاحبزادہ صاحب کئی تاریخی لمحات اور فیصلوں کے عینی شاہد تھے۔ان سے خبر نکلوانامگر جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ میں سوالات کے ساتھ ان کے پیچھے لگارہتا۔ بالآخر کسی محفل سے رخصت ہوئے وہ مجھے صرف غالب -کوئی اور شاعر نہیں-کا کوئی مصرعہ سناکر وہاں سے چلے جانا شروع ہوگئے۔ اس مصرعے میں میرے سوال کا تفصیلی جواب موجود ہوتا۔ اس کالم کی تنگئی داماں مجھے مختلف مواقع پر سنائے مصرعوں کا تناظر بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

جنرل مشرف کے عروج کے دنوں میں ایک بار البتہ میں ان کے پیچھے پڑگیا۔ یہ جاننے کے لئے کہ ان کی نگاہِ دوربین موصوف کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہے۔ کئی ملاقاتوں میں میرے بارہا سوال کرنے کے باوجود انہوں نے کبھی کوئی جواب نہیں دیا۔ بالآخر ستمبر 2005ء آگیا۔ اس کے آخری ہفتے کے دوران ایک محفل سے رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے مختصراََ یہ کہا کہ: "He is a Commando All Tactics, no Strategy”

ایمان داری کی بات ہے میں ان کا فقرہ سمجھ ہی نہیں پایا۔ چند ماہ پہلے کچھ امریکی مصنفین کی افغانستان اور پاکستان کے بارے میں کتابیں پڑھیں تو علم ہوا کہ ستمبر 2005ء میں امریکہ نے دریافت کرلیا تھا کہ ان کے ساتھ مشرف ’’ہاتھ‘‘ کرگیا ہے اور NROکی گیم سجانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے