معاملہ ممتازقادری کا اوردو مقابل آراء

ممتاز قادری رہائی تحریک
سلمان تاثیرکوقتل کرنے والے ممتازقادری کے حوالے سے اس وقت دوقسم کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ ایک تحریک ان کی رہائی کے لیے ہے جبکہ دوسری تحریک میں انہیں کیفرکردارتک پہنچانے کی بات کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے دونوں طبقوں نے جومؤقف اپنایاہے وہ ہم عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں عوام فیصلہ کریں کہ کون درست ہے اورکون غلط ؟

پہلے گروہ کامؤقف
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی رہائی کے لئے ملک میں متعدد مذہبی تنظیموں نے ایک تحریک منظم کی ہے۔ اس تحریک نے چنددن قبل لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور حکومت سے ممتاز قادری کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے قبل دسمبر میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ممتاز قادری کی طرف سے سزائے موت پر نظر ثانی کی اپیل مسترد کر دی تھی۔ اس درخواست میں بھی ممتاز قادری نے موت کی سزا ملتوی کرنے کی استدعا کی تھی۔ اس دوران مجرم کی طرف سے صدر پاکستان کو رحم کی درخواست بھی بھجوائی گئی ہے۔ خبروں کے مطابق اس درخواست میں ممتاز قادری نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہے اس لئے اس پر رحم کیا جائے اور اس کی سزا معاف کر دی جائے۔ گویا حب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں دیوانہ ہو کر اس شخص کی جان لینے والا شخص جس کی حفاظت پر اسے مامور کیا گیا تھا، اب اپنی موت قریب دیکھ کر اسی عشق سے انکاری ہے جو توہین رسالت پر جان لینے یا جان قربان کرنے کا متقاضی ہے۔ اس کے باوجود سیاسی مقاصد کے لئے لوگوں کو گمراہ کرنے والے مذہبی لیڈر اس شخص کی بزدلی اور بے مقصد ارتکاب جرم کی حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے، اس کی بنیاد پر اپنی دکانداری چمکانے میں مصروف ہیں۔

سپریم کورٹ نے 7 اکتوبر 2015 کو ممتاز قادری کو سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے الزام میں پاکستان پینل کوڈ اور دہشت گردی کی دفعہ 7 کے تحت موت کی سزا سنائی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ملک کا توہین مذہب کا قانون بھی دوسرے قوانین کی طرح ہے اور ایک جمہوری نظام میں کسی بھی قانون پر تنقید کرنا اور اسے تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار ہر شہری کا حق ہے۔ اگرچہ ممتاز قادری نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس کی سلمان تاثیر سے کوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ اس نے صرف اس لئے اسے قتل کیا تھا کیونکہ اس کے خیال میں وہ توہین مذہب کے مرتکب ہوئے تھے۔ عدالت عظمی کے اس فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ ممتاز قادری اور اس کے وکیل عدالت میں کوئی ایسا ثبوت پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس سے یہ ثابت ہو کہ سلمان تاثیر توہین مذہب کے مرتکب ہوئے تھے۔ ممتاز قادری نے گمراہ کن غلط فہمی کے نتیجے میں ایک بے گناہ شخص کو قتل کر دیا۔ اگر وہ واقعی ایک سادہ لوح مسلمان ہے جو صرف عشق رسول میں جذبات کی رو میں بہہ گیا تھا تو اس وضاحت کے بعد اسے اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگنی چاہئے تھی اور عدالت کی دی ہوئی سزا کو کفارہ کے طور پر قبول کر لینا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس اب وہ ایک عام انسان کی طرح موت سے بچنے کے لئے ہر طرح کا ہتھکنڈہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قومی منظر نامہ پر چونکہ ملک کے اکثریتی مسلک کے نمائندوں کو خاص پذیرائی نہیں ملتی اور انہیں خود کو بڑی طاقت کے طور پر منوانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ نہیں آتا، اس لئے اب وہ ممتاز قادری کے معاملہ کو لے کر لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے اور حکومت کے سامنے اپنی قوت اور اہمیت منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو نہ تو ممتاز قادری درحقیقت حب رسول میں اس قدر دیوانہ ہو چکا ہے کہ بخوشی اس مقصد کے لئے اپنی جان دینے پر آمادہ ہو بلکہ اپنے قول اور فعل میں صریحا تضاد کا شکار ہے ۔ عین اسی طرح رہائی تحریک چلانے والے مذہبی گروہ اور لیڈر بھی اسلام کی خدمت یا رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت کے نقطہ نظر سے لوگوں کو گمراہ کر کے سڑکوں پر جمع کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ اگر واقعی وہ ان مقاصد میں سچے ہوتے تو انہیں بھی ممتاز قادری کی غلطی کو تسلیم کر کے اس کے گناہوں کی معافی کے لئے دعا کرنی چاہئے تھی، اور لوگوں کو مشتعل کرنے اور حکومت وقت کو دھمکیاں دے کر اپنے عقیدہ اور موقف کی جگ ہنسائی کا موجب نہیں بننا چاہئے تھا۔ اسلام ایک پاکیزہ اور منظم معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کسی فرد یا گروہ کو انتشار پیدا کرنے اور اشتعال انگیزی عام کرنے کا حق نہیں دیتا۔ نہ ہی اسلام کسی ایک شخص کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق قرآن و سنت کی تفہیم کو عام کرنے کے لئے قتل جیسے بھیانک جرم کا مرتکب ہو۔ اس بنیادی اور اہم نکتہ پر فکری اور فقہی مکالمہ کئے بغیر اگر کوئی بھی مذہبی لیڈر یا گروہ ملک کی اعلی ترین عدالت سے سزا یافتہ مجرم کی رہائی کے لئے مہم جوئی کی کوشش کرتا ہے تو وہ معاشرے میں انارکی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے اسلامی نظام میں کسی صورت قبول نہیں کیا جاتا۔

سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ملک میں مختلف مسالک اور عقائد آباد ہیں۔ اس لئے کسی ایک گروہ یا شخص کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے عقیدہ کی من پسند توجیہہ و تشریح کر کے اسے نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ حق صرف ملک کی وفاقی شریعت کورٹ ، سپریم کورٹ کے شریعت اپیل بنچ یا اسلامی نظریاتی کونسل کو حاصل ہے۔ یہ تینوں ادارے ملک کے آئین کے تحت قائم ہیں اور ملک کے تمام سیاسی و مذہبی گروہوں کا اس دستور پر اتفاق بھی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں بنیادی اور اہم نکات اٹھائے گئے ہیں:

(الف ) ان حالات میں کیا ملزم کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کا فیصلہ نافذ کرنے کے لئے اقدام کر سکے۔ خاص طور سے جبکہ وہ ایلیٹ فورس کا ملازم تھا اور مقتول گورنر کی حفاظت پر مامور تھا۔

(ب)اگر ہر شخص کو من پسند تشریح اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو کیا اس سے معاشرے میں خوف و ہراس نہیں پھیل جائے گا۔

(ج) جیسا کہ مشاہدہ میں بھی آتا ہے کیا کسی فرد یا گروہ کو حقائق جانے بغیر ہی فیصلہ صادر کرنے اور لوگوں کو مارنے کا حق دیا جا سکتا ہے۔

یہ تینوں نکات بے حد اہم ہیں۔ ملک کی جو مذہبی تنظیمیں اس وقت ممتاز قادری کی رہائی کے لئے لوگوں کو بھڑکانے اور ملک میں یک طرفہ مذہبی شدت پسندی کو عام کرنے کی علم بردار بنی ہوئی ہیں، انہیں سب سے پہلے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے چاہئیں۔ ممتاز قادری نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جس کے بارے میں وہ خود یہ ثابت کرنے سے قاصر ہے کہ اس نے توہین مذہب یا رسالت کی تھی۔ اس صورت میں شرمندگی اور شرمساری کا اظہار کرنے کی بجائے سینہ زوری اور غنڈہ گردی نما زبردستی کو اسلام اور عقیدہ کا نام دینا نہ صرف ان علما و فضلا کی جہالت اور مفاد پرستی کا پول کھولتا ہے بلکہ یہ لوگ دنیا بھر میں پاکستان ، اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

خاص طور سے ملک میں دہشت گردی کی صورتحال اور اس حوالے سے مذہبی انتہا پسندی کے اندیشوں اور خطرات کے پیش نظر یہ طرز عمل مسترد کرنا ضروری ہے۔ بریلوی مکتب فکر کے لوگ عام طور سے دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور اپنی تقریروں میں دوسرے مسالک پر اس قسم کی گمراہ کن مذہبی تفہیم عام کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ اب وہ خود دہشت گردی کی دفعات کے تحت سزا پانے والے ایک شخص کی حمایت میں اجتماعات کر کے اور حکومت کو دھمکیاں دے کر دراصل اسی مزاج ، رویہ اور مذہبی چلن کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں اختلاف رائے برداشت کرنے کو گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ جمہوری ضرورتوں اور سماجی امن و امان کے نقطہ نظر سے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی انتہا پسندی کا تعلق کسی ایک فرقہ یا مسلک سے نہیں ہے۔ جو لوگ اور گروہ بھی مذہبی تفہیم کی بنیاد پر اپنے موقف کو صائب قرار دیتے ہوئے، اسے دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کریں گے، وہ شدت پسند قرار پائیں گے۔ اس طرز عمل اور سوچ کی وجہ سے ہی دہشت گرد جنم لیتے ہیں۔ اگر سلمان تاثیر کے قاتل کو صرف اس لئے معافی ملنی چاہئے کہ اس نے اپنی سمجھ کے مطابق توہین مذہب میں ملوث ایک شخص کو قتل کیا تھا تو خودکش حملہ کرنے والے اور بم دھماکوں میں معصوم شہریوں اور نہتے طالب علموں کو مارنے والے اور ان کے سرپرست بھی یہی موقف اختیار کریں گے۔ وہ لوگ بھی دوسروں کو اسی بنیاد پر ہلاک کرنے کے درپے ہیں کیونکہ ان کے عقیدہ کے مطابق یہ سارے لوگ گمراہ اور واجب القتل ہیں۔

ابھی باچا خان یونیورسٹی میں بہنے والے نوجوانوں کے خون کی مہک تازہ ہے۔ ملک میں ایسے گروہ بدستور توانا اور سرگرم ہیں جو ایک قرآن کی اپنی اپنی علیحدہ تفہیم کو اصل اور حقیقی قرار دیتے ہوئے قتل و غارتگری پر مصر ہیں۔ یہ علت پاکستان یا مسلمان ملکوں تک محدود نہیں ہے۔ اپنا اپنا اسلام نافذ کرنے والے یہ لوگ دنیا بھر میں خوں ریزی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان حالات میں کسی مذہبی گروہ کو ایک مسلمہ قاتل کے خلاف عوامی تحریک چلانے کا نہ حق حاصل ہے اور نہ اس کی اجازت دینی چاہئے۔

دوسرے طبقے کامؤقف

غازی امت ممتاز حسین قادری کا کردار قرآن و سنت اور اجماع امت کے آئینے میں

بخدمت جناب صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ اسلام آباد
برائے حصول انصاف و تنسیخ سزائے موت وغیرہ
درخواست زیر آرٹیکل 45 آئین پاکستان1973

غازی امت عاشق رسول ملک ممتاز حسین قادری مدظلہ نے جو عظیم عشقِ رسول کا حقیقی مظاہرہ پوری امت مسلمہ کی طرف سے فرضِ کفایہ4 جنوری 2011 بروز منگل کو ادا کیا تھا ۔ اس کے بعد آج غازی امت کو اڈیالہ جیل میں پانچ سال پورے ہوگئے ہیں لیکن ان کا اللہ تعالیٰ کی ذات اور حضور ﷺ سے عشق و محبت کا رشتہ و جذبہ دِن بدن بڑھتا جا رہا ہے ۔ مگر میری اور آپ کی مسلم قوم کی کیا ذمہ داری ہے اس پر ضرور غور کریں ۔

باقی ان شاء اللہ غازی امت عنقریب اس کیس سے سرخرو ہو کر ضرور باہر آئیں گے ۔ اتنے عرصہ میں ان کے کئی ایمان افروز واقعات موجود ہیں ۔
اس نے وہ ساز چھیڑ دیا بسوز دِل
سارا جہاں اس کا ہم آواز ہو گیا
تاریخ کچھ ایسی ہمت و جرأت کی رقم کی
ممتاز دو جہاں میں ممتا ز ہو گیا

کیا غا زی امت ملک ممتا ز قا دری کوشر عی استثنٰی حا صل ہے ؟ قرآن وسنت اور خلفا ئے راشد ین کا عمل، اجما ع امت اور عا لمی قوانین کے تناظر میں ،اگر تعصب کی عینک اتار کر غور کیا جائے تو پھر غازی امت ملک ممتاز حسین قادری کا یہ کردار ایک اسلامی اور شرعی کردار ہے۔ اس کے اس کردار اور فیصلے کو قرآن و سنت، خلفائے راشدین اور اجماع امت کی بھر پور تائید حاصل ہے۔ اس لیے کہ تحفظ ناموس رسالت ہر مومن کے دل و ایمان کی آرزو اور آواز اور اپنے نبی ﷺ سے عقیدت و محبت کا اعزازہے۔
نبی ﷺ کی عزت و حرمت کے لیے ایک مسلمان اپنی جان اپنی اولاد اپنے مال و دولت کو نچھاور کرنا اپنے ایمان کی بنیاد سمجھتا ہے۔

ممتاز قادری کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی جس کو سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے اس سزا کو بحال رکھا ہے۔ اس کے بعد کی صورت حال پر گذشتہ دنوں عالم اسلام کی عظیم روحانی شخصیت میرے مرشد ، پیر طریقت حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی مدظلّہ کی قیادت میں عاشق رسول غازی امت ملک محمد ممتاز قادری کے گھر ان کے اہل خانہ اور بھائیوں سے ملاقات کی اور غازی امت کے والد محترم کی طرف سے صدر پاکستان کو جو انصاف کے حصول کے لیے درخواست دی اس پر غوروفکر کیا گیا اور فرمایا کہ ایک عظیم بزرگ کو حضور ﷺ نے خواب میں حکم دیا ہے کہ علماء کرام ممتاز قادری کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کریں اور پاکستان کے تمام علماء کرام کو میرا پیغام پہنچا ئیں اورپیر صاحب نے فرمایا کہ میں اس پیغام کو پاکستان کے تمام علماء کرام تک پہنچارہا ہوں اگر علماء کرام نے اس حوالے سے اپنا رول اور کردار ادا نہ کیا تو پھر وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے ۔ اب حصول انصاف کے لیے جو درخواست صدر پاکستان کو لکھی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں اور اس کے لئے اپنی اپنی ذمہ داری ضرور ادا کریں۔

دوسرے طبقے کامؤقف اس خط سے زیادہ واضح ہورہاہے جو ممتازقادری کے والدکاصدراسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام لکھا ہے

بخدمت جناب صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ اسلام آباد
بمقدمہ: ایف ۔آئی۔ آر نمبر 6 سال 2011 ؁
تھانہ: کوہسار مارکیٹ۔ اسلام آباد
جرم زیر دفعہ 302/109 تعزیرات پاکستان و دفعہ 7(a)۔ا نسداد دہشت گردی ایکٹ 1997
برائے حصول انصاف و تنسیخ سزائے موت وغیرہ
درخواست زیر آرٹیکل 45 آئین پاکستان1973

1 ۔ سائل کا بیٹاملک محمد ممتاز قادری سابقہ گورنر سلمان تاثیرکے حفاظتی دستے میں شامل اور اس کی محافظت پر مامور تھا، سابقہ گورنر اپنے ایک دوست کے ساتھ کوہسار مارکیٹ اسلام آباد میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں لنچ کرنے گیا واپسی پر ملک محمد ممتاز قادری نے سابقہ گورنر کے گاڑی میں بیٹھنے سے قبل اس سے یہ بات کی کہ آپ قانون توہین رسالت کو کالا قانون کیوں کہتے ہیں حالانکہ آپ بھی حضور ﷺ کے اُمتی ہیں؟ یہ سن کر گورنر نے انتہائی حقارت آمیز لہجے میں کہاکہ میں کہتا ہوں یہ نہ صرف کالا قانون ہے بلکہ میرا پاخانہ ہے ( معاذاللہ ثم معاذ اللہ) اس مقدس قانون کے خلاف سابقہ گورنر کے یہ توہین آمیز اور اشتعال انگیز جملے سن کر ملک محمد ممتاز قادری اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے بوجہ حُبِ رسول ﷺ اشتعال میں آکر گورنر کو اپنی گن سے فائر کرتے ہوئے مار ڈالا اور فوراً اپنی گن کو زمین پر رکھ کر اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا۔

2۔ چنانچہ ان کے خلاف 4 جنوری 2011ء کو FIRنمبر 6/11 درج کی گئی اور انسداد دہشت گردی اسلام آباد / راولپنڈی کی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا، عدالت نے انہیں بطور تعزیر 302(b) تعزیرات پاکستان کے تحت تابع توثیق ہائیکورٹ موت کی سزا دی اور مقتول کے ورثاء کو 544-A تعزیرات پاکستان کے تحت مبلغ ایک لاکھ روپیہ معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا، عدم ادائیگی کی صورت میں چھ ماہ قید کا حکم سنایا، پھر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (a) کے تحت تابع توثیق ہائیکورٹ نے سزائے موت کا حکم سنایا اور ایک لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا اور جرمانہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں چھ ماہ قید محض کا حکم سنایا۔ چنانچہ ملک محمد ممتاز قادری نے اپنی اس سزا کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی اور ہائیکورٹ اسلام آباد نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7(a) کے تحت دی جانے والی سزا کو منسوخ کرکے سائل کے بیٹے کو بری کردیا تا ہم دفعہ 302(b) تعزیرات پاکستان کے تحت دی جانے والی سزائے موت کو اپنے حکم جاری کردہ 9 مارچ2015ء میں برقرار رکھا۔ ملک محمد ممتاز قادری نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل دائر کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے ایک پٹیشن دائر کی، ریاست کی طرف سے بھی ہائیکورٹ اسلام آباد کے فیصلے کے اس حصہ کے خلاف اپیل دائر کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے پٹیشن داخل کی گئی جس کے تحت ملک محمد ممتاز قادری کو انسدد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7(a) کے تحت ملنے والی سزا سے بری کردیا گیاتھا۔ یاد رہے کہ یہ پٹیشن مقتول کے ورثاء کی طرف سے دائر نہیں کی گئی تھی گویا مقتول کے ورثاء اس فیصلے سے مطمئن تھے بلکہ ریاست نے ازخود یہ پٹیشن دائر کردی تھی ۔ دونوں پٹیشنز میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپیل دائر کرنے کی اجازت دے دی جن کے نمبر 210 اور 211 بابت سال 2015ء تھے۔

3۔ دونوں اپیلیں مؤرخہ 5 اکتوبر تا 7 اکتوبر 2015ء سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی گئیں جس میں ملک محمد ممتاز قادری کی طرف سے دائر کردہ اپیل کو مسترد کردیا گیا جبکہ ریاست کی طرف سے دائر کردہ اپیل کو قبول کرلیا گیاجس کی رو سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7(a) کے تحت دی جانے والی سزا کو برقرار رکھا گیا اور ہائیکورٹ اسلام آباد نے ملک محمد ممتاز قادری کی بریت کا جو حکم دیا تھا اسے منسوخ کردیا گیا۔ مؤرخہ 7 اکتوبر 2015ء کو ابھی وکلاءِ صفائی کی بحث بھی مکمل نہیں ہوئی تھی لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے وکلاء سے تحریری بحث وصول کی۔ دیگر تحقیقی مواد بھی پیپر بکس کی صورت میں لے لیا۔ لیکن اسے پڑھے بغیر بسرعت مختصر حکم صادر کرکے سائل کے بیٹے کی اپیل خارج کردی اور سرکاری اپیل منظور کرلی بعد ازاں تفصیلی فیصلہ 3 ہفتوں بعد جاری کیا۔ حیرت ہے کہ اس میں شارٹ آرڈر کا حوالہ تک نہیں دیا۔

4۔ ہائیکورٹ اسلام آباد اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کتاب و سنت اور چودہ سو سالہ اُمت کے اجماعی مؤقف کے سراسر خلاف ہیں، عدالتوں نے یہ فیصلے کرتے ہوئے آئین پاکستان اور مروجہ قوانین کا لحاظ نہیں رکھا جن کی رو سے ہماری عدالتیں پابند ہیں کہ وہ کتاب و سنت کو ملک کا سپریم لاء سمجھتے ہوئے اسلامی قوانین کی روشنی میں فیصلے کریں اور اگر انہیں کسی مسئلے پر ایسا محسوس ہو کہ مروجہ قوانین اسلامی قوانین سے متصادم ہیں تو وہ ان کی وہ تعبیر و تشریح کریں جو اسلامی قوانین کے مطابق و موافق ہو، آئین پاکستان اور مروجہ قوانین کے علاوہ بہت سے عدالتی فیصلوں سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے۔ چنانچہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے اجتماعی پلیٹ فارم جیسے ملی مجلس شرعی اور ملی یکجہتی کونسل نے دونوں فیصلوں کو کتاب و سنت کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا، دونوں مجالس کے فیصلوں کو قومی اخبارات میں بھی شائع کیا گیا۔

5۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملی مجلس شرعی نے اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک شرعی فتویٰ بھی مرتب کیا جس میں کتاب و سنت اور مجتہدین اُمت سے سابقہ گورنر کے گستاخ اور مباح الدم ہونے کے بارے میں ناقابل تردید دلائل پیش کیے گئے، اسی فتویٰ میں ملک محمد ممتاز قادری کے اقدام کے صائب اور مبنی برجواز ہونے پر بھی ٹھوس دلائل پیش کیے گئے اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ کتاب و سنت کی تصریحات اور اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے یہ گستاخ رسول اور مرتد کو قتل کرنے والے پر کوئی قصاص و دیت نہیں ہے لہٰذا اسلامی قانون کے سپریم لاء ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ عدالتیں ملک محمد ممتاز قادری کو باعزت بری کرتیں اور انہیں کوئی سزا نہ دی جاتی۔ اندریں صورت ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک محمد ممتاز قادری کے ساتھ عدالتوں نے انصاف نہیں کیا اور انہیں جو سزا دی گئی ہے وہ نہ صرف اسلام کی رو سے غلط ہے بلکہ یہ اسلامی قوانین اور چودہ سو سالہ اُمت کے اجماعی مؤقف کو مسخ کرنے کی کوشش بھی ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا شدید خطرہ ہے۔ عدالت میں نفاذ شریعت ایکٹ 1991 کی دفعات 4,3 کا حوالہ دے کر یہ واضح کیا گیا کہ اسلامی قانون اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سپریم لاء ہے۔ لہٰذا اس قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک محمد ممتاز قادری کو کوئی سزا نہ دی جائے یا بطور تعزیر حد کی مثل یعنی سزائے موت نہ دی جائے۔ اس ضمن میں تقریباً 15 احادیث مبارکہ پیش کی گئیں۔ عدالت نے اس سے صرف نظر کر لیا۔

6۔ 2010ء کے آخری چند ماہ میں سابقہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر توہین سالت کے جرم پر مجاز عدالت سے سزائے موت پانے والی آسیہ مسیح کے پاس جیل میں گیا اور اپنے منصب اور حلف کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے وہاں اس سزا یافتہ مجرمہ کو اپنے پہلو میں بٹھا کر پریس کانفرنس کی اور اس کی سزا کو ظالمانہ کہا اور اسے بے قصور قرار دیا پھر ملک میں رائج قانون تحفظ ناموس رسالت کو کالا قانون کہا اور اسے ختم کروانے کا عندیہ دیا اس موقع پر اس نے آسیہ مسیح سے ایک درخواست پر دستخط بھی کروائے اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ یہ درخواست صدر پاکستان کو پہنچا کر اس کی سزا ختم کروا دے گا۔
چنانچہ سابقہ گورنر کے اس اقدام کے بعد پورے ملک میں ایک شور اُٹھا، علماء نے اس سے مطالبہ کیا کہ اس نے قانون تحفظ ناموس رسالت کو کالا قانون کہہ کر اور توہین رسالت کی سزا یافتہ مجرمہ سے ہمدردی کرکے توہین رسالت اور استخفاف شریعت کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا اسے توبہ کرنی چاہیے اور تجدید ایمان کرنی چاہیے لیکن سابقہ گورنر نے علماء کی آراء کی قطعاً پرواہ نہ کی بلکہ ان کا بھی استہزاء کیا اور اخبارات اور ایک ٹی وی چینل پر براہ راست نشر ہونے والے پروگرام میں برملا علماء کے فتوؤں کا بھی استخفاف کیا اور کہا کہ میں انہیں جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ اس نے قانون تحفظ ناموس رسالت کے بارے میں یہ بھی کہا کہ اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور اپنے اہانت آمیز رویے پر ڈٹا رہا۔ دراصل اس طرح کے توہین آمیز بیانات مقتول گورنر2009 ؁ سے دے رہا تھا اور اس واقعہ کے بعد ان بیانات میں شدت پیدا ہوگئی۔

7۔ اس عرصہ میں سابقہ گورنر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے تمام راستے اختیار کیے گئے، سب سے پہلے اس کے خلاف 295-C کے تحت مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی گئی لیکن اسے آئین پاکستان کے آرٹیکل 248 سب آرٹیکل ’ 2‘ کے تحت حاصل دستوری استثناء کا بہانہ بنا کر درخواست گزار کو ٹال دیا گیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ ہائی کورٹ میں لایا گیا تا کہ فاضل عدالت سے اندراج مقدمہ کی بابت عدالتی ہدایت جاری کروائی جائے لیکن عدالت نے بھی اس سلسلہ میں دائر کردہ درخواست کو مسترد کر دیا۔ دوسری طرف سابقہ گورنر تسلسل کے ساتھ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اپنے اہانت آمیز بیانات کو دوہرا کر پوری اُمت بالخصوص اسلامیانِ پاکستان کے جذبات کو مجروع کرتا رہا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت کی حکومت اس مسئلہ پر خاموش تماشائی بنی رہی۔ نہ تو اسے اس رویے سے باز کیا اور نہ اس کو منصب سے الگ کیا کہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی۔ ایک معقول راستہ یہ بھی تھا کہ اس کے خلاف FIR کا اندراج کرلیا جاتا اور اس کے منصب سے الگ ہونے تک اسے منجمد کردیا جاتا لیکن حکومت نے کوئی بھی ایسا اقدام نہ کیا۔

8۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیراگراف 29.28 اور 30 میں سنت نبوی کی حیثیت کو مجروع کیا گیا اور اسلامی احکام میں ایسی رخنہ اندازی کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے شریعت کا چہرہ مسخ ہونا یقینی ہے اور آئندہ کے لیے لوگوں کو گستاخی رسالت مآب کرنے کا ایک کھلا لائسنس مل سکتا ہے چنانچہ ملک محمد ممتاز قادری کے وکلاء نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس قابل اعتراض پہلو کو کھل کر بیان کیااور فاضل جج صاحبان نے یہ یقین بھی دلایا کہ ہم ان قابل اعتراض پیروں کو اس فیصلے سے حذف کردیں گے لیکن انہوں نے انہیں اپنے فیصلے میں برقرار رکھا اور ان پیروں کو حذف کرنے کے بارے میں کوئی حکم جاری نہ کیا جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ہائیکورٹ اسلام آباد کے ان قابل اعتراض پہلوؤں کی توثیق کردی ہے۔ جو وعدہ خلافی کے علاوہ استخفاف شریعت کے مترادف ہے۔

9۔ دفعہ 302 ت پ کے تحت مقدمہ، حد کہلاتا ہے۔ اس کی دفعہ 302(a) کے تحت مجرم کو حداً سزائے موت بصورت قصاص دی جاسکتی ہے۔ عدالت نے یہ تو تسلیم کیا کہ موجودہ کیس میں حد کی شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ لہذا 302(b) کے تحت وہ تعزیری سزا کا مستحق ہے۔ لیکن جج صاحبان سزائے موت دینے پر ہی قائم رہے حالانکہ نبی پاک ﷺ کے ارشادات کے مطابق تعزیری سزا حد و قصاص کے تحت ملنے والی سزا کے مثل نہیں ہو سکتی اور ایسا کرنے والے کو حضور ﷺ نے ظالم کہا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302(b) میں یہ خامی موجود ہے جو کہ خلاف عقل و نقل ہے۔ کم و بیش ایسا ہی اعتراف فاضل جج صاحبان نے دوران سماعت کیا اور بینچ میں شامل ایک فاضل جج جسٹس دوست محمد خان کی بابت یہ انکشاف بھی کیا کہ انہوں نے دفعہ 302(b) ت پ میں سے سزائے موت کے الفاظ حذف کروانے کے لیے وزارت قانون کو ایک ریفرنس بھیجا ہوا ہے چنانچہ اس صورت میں فاضل جج صاحبان اسلامک لاء کو ملک کا سپریم لاء مانتے ہوئے ملک محمد ممتاز قادری کو بطور تعزیر زیادہ سے زیادہ مروجہ قانون 302(b) کے تحت بھی عمر قید کی سزا دینی چاہیے تھی جیسا کہ 338-F ت پ کی روح اور الفاظ کا تقاضہ ہے۔

10۔ اسی طرح مروجہ قوانین میں سے دفعہ79 تعزیرات پاکستان کے تحت بھی ملک محمد ممتاز قادری کو ریلیف مل سکتا تھا جس میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا فعل سرانجام دے جس کو سرانجام دینے میں وہ خود کو قانون کے تحت حق بجانب سمجھتا ہو تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے یہ فعل سرانجام دے کر کوئی جرم نہیں کیا لہذا ملک محمد ممتاز قادری بھی اپنے بہترین علم و یقین کے مطابق یہ سمجھتا تھا کہ سلمان تاثیر ارتدارواہانت رسالت مآب کے ارتکاب کے بعد مباح الدم ہوچکا ہے اور ایسے شخص کا خون بہانا از روئے شرع جائز ہے۔ اگر کوئی بھی مسلمان غیرت ایمانی سے مغلوب ہوکر اسے ازخود مار ڈالے تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاسکتی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ فاضل جج صاحبان نے مروجہ قانون کی اس دفعہ کو بھی اپنے فیصلے میں دورازکار تاویلات کا سہارا لے کر اُڑا دیا۔ دراصل یہ قانونی دفعہ اسلامی قوانین کے بھی عین مطابق ہے جن کی رو سے قتل بوجہ خطا فی القصد قابل مواخذہ نہیں اس ضمن میں متعدد واقعات کے حوالہ جات تحریری طور پر پیش کیے گئے جنہیں عدالت نے بلاوجہ نظر انداز کردیا۔

11۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ فاضل جج صاحبان نے ملک محمد ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت بھی سزائے موت سنا دی جبکہ ریکارڈ پر کوئی بھی ایسی شہادت موجود نہ تھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اس نے دہشت گردی کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ طے شدہ قانون ہے کہ دہشت گردی اسے ہی سمجھا جائے گا جب ملزم کی یہ نیت آشکار ہو کہ وقوعہ کے وقت وہ اپنے فعل سے لوگوں میں خوف و ہراس، سراسیمگی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا چاہتا تھا۔ وقوعہ کے بعد کیا ہوتا ہے یہ غیر متعلق ہے جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک معروف مقدمے میں یہی کہا گیا ہے ’’بشارت علی بنام سرکار پی ایل ڈی 2004 لاہور صفحہ 199 (ڈی بی)‘‘۔
عدالت نے وقوعہ کے وقت دہشت پھیلانے کی نیت کو ملک محمد ممتاز قادری کے اس بیان سے ثابت ہونا سمجھ لیا جو اس نے دفعہ 342 تعزیرات پاکستان کے تحت وقوعہ کے 8ماہ بعد دیا اور وہ بیان بھی بالکل کسی اور تناظر میں دیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ارتداد اختیار کرنے والوں کو بالآخر اسی انجام سے گزرنا پڑے گا اور یہ ایک تنبیہ تھی جسے دہشت پھیلانے کی نیت بنا دیا گیا لہذا اسے دہشت گردی قرار دینا اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کا اس پر اطلاق کرنا قانون کا مذاق اُڑانا اور سراسر ناانصافی ہے۔ اگر اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو نبی اکرم ﷺ نے شاتمین کو جہنم رسید کرنے والوں کی تحسین فرمائی ہے اور یہاں ہماری عدالت اسے دہشت گرد قرار دے رہی ہے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ ملک محمد ممتاز قادری کی سابقہ گورنر کے ساتھ کوئی اور عداوت نہیں تھی اور نہ ہی اس کے ساتھ اس کا کوئی جھگڑا تھا، سبب قتل صرف اور صرف اس کے توہین آمیز جملے تھے جنہیں وہ تواتر کے ساتھ میڈیا کے ذریعے اپنے قتل ہونے سے پہلے 3 سال سے بھی زائد عرصے تک دہراتا رہا اور بالآخر قتل کے موقع پر اس نے یہی جملے شدید قابل اعتراض اور اشتعال انگیز طریقے سے ادا کیے بلکہ ان میں اور بھی شدت پیدا کردی جس سے فوری اشتعال کی صورت میں وہ مارا گیا۔

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ملک محمد ممتاز قادری کا سروس ریکارڈاعلیٰ ذمہ درانہ اور انتہائی تسلی بخش ہے وہ سابقہ گورنر کے ساتھ ڈیوٹی کرنے سے قبل ستر وی وی آئی پیزکے ساتھ انتہائی تسلی بخش اور ذمہ درانہ طریقے سے اپنے فرائض منصبی نبھاتے رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی شکایت بھی ریکارڈ پر نہیں ہے۔ اسی طرح محکمہ اور اس کے علاقہ میں ان کی شہرت نہایت اچھی ہے۔ ایسا شخص دہشت گردی کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ فوری اشتعال میں سابقہ گورنر پر گولی چلانا اور کسی دوسرے شخص پر ہاتھ نہ اُٹھانا اور گولی چلانے کے بعد گن زمین پر رکھ کر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردینا اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اس وقت ان کے پیش نظر صرف سابقہ گورنر کو قتل کرنا تھا اور اس طرح کسی کو قتل کرنے کو دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

جناب صدر! یہ کیسی دہشت گری تھی کہ جس پر پورے ملک میں خوشی سے مٹھائیاں بانٹیں گئیں اور اسلام آباد میں کاروبار اس وقوعہ کے بعد بھی مکمل امن و امان اور سکون و عافیت کے ساتھ چلتا رہا؟

12۔ یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ اس حساس مقدمے میں کسی مرحلہ پر علماء کرام سے رائے لینا مناسب نہ سمجھا گیا اور عدالتوں نے خالصتاً اپنے فہم پر انحصار کرتے ہوئے حتمی رائے قائم کرلی کہ سابقہ گورنر سے توہین رسالت کا صدور نہیں ہوا ہے جج صاحبان تو شریعت اسلامیہ کی بنیادی اصطلاحات اور اس کے ابجد تک سے واقف نہ تھے۔ انہوں نے فقہاء، علماء اور اماموں کی آراء، تحقیق اور استنباط و استشہاد کو محض انسانی آراء کہہ کر نظر انداز کردیا۔ لیکن اپنی ذاتی رائے کو سب پر ترجیح دی۔ آخر وہ خود بھی تو انسان ہیں۔ مسلمان، فقہاء، علماء اور اماموں کے مقابل ان کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے۔

13۔ جج صاحبان یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ کسی بھی اسلامی قانون کی توہین دراصل اس کے مصادر و مآخذ کی توہین ہوتی ہے اور اس معاملہ میں تو 295-C ت پ کو کالا قانون کہنا حضور ﷺ کے فرامین اور فیصلوں کی صریح توہین ہے جن کی بنیاد پر قانون بنایا گیا اور جسے وفاقی شرعی عدالت نے کئی بار کتاب و سنت کے منضبط احکام کے مطابق قرار دیا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو ایک منافق کو محض اس لیے قتل کردیا تھاکہ اس نے حضور ﷺ کے فیصلے پر دل میں تنگی محسوس کی تھی اور اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ جبکہ سابقہ گورنر نے تو ان کے فرامین اور فیصلوں کی مذمت کی تھی۔

14۔ ملک محمد ممتاز قادری سے سابقہ گورنرکا قتل فوری اشتعال کی صورت میں ہوگیا تھا کہ اس معاملہ کو بھی شریعت اسلامیہ کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے اور اسے محض قانون کو ہاتھ میں لینے کا مقدمہ نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے پس منظر اور اس سے جڑے ہوئے تمام واقعات و معاملات کو صرف اور صرف شریعت اسلامیہ کے تناظر میں دیکھتے ہوئے درست نتائج تک پہنچا جائے لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔اب بھی میری درخواست ہے کہ آپ اس مسئلہ پر خود مستند اور جید علمائے کرام کی رائے لے لیں اور اس کی روشنی میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اور شریعت کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے فیصلہ فرمائیں۔
محترم صدر صاحب!
آپ کو آئین پاکستان کی دفعہ 45 کے تحت اختیار حاصل ہے کہ آپ کسی بھی عدالت کی طرف سے کسی بھی ملزم کو دی
جانے والی سزا کو جزوی طور پر یا کلیۃً ختم کرسکتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر آپ سربراہ مملکت ہیں اور ملک میں رائج نظام قضاء و عدل درحقیقت آپ ہی کے اختیارات کا ایک تسلسل ہے، اور آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ ازراہ کرم ایک عاشق رسول کو غلط عدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھنے سے بچالیں کیونکہ اس طرح ایک مرتد کے بدلے مسلمان کا قتل لازم آئے گااور شریعت اسلامیہ کی مسلمہ تعلیمات مسخ ہوکر رہ جائیں گی جس پر ہم سب کو اس دنیا میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا اور آخرت میں بھی باز پرس ہوگی، آپ کا غازی ملک محمد ممتاز قادری کی سزاؤں کو ختم کرنا نہ صرف آپ کے منصب کا تقاضا ہے بلکہ یہ آپ کے لیے دنیاوی اور اُخروی فلاح کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

درخواست دہندہ
(ملک محمد بشیر) قوم اعوان
ساکن مکان نمبر4501-B.V.
سٹریٹ نمبر5۔ مسلم ٹاؤن۔ راولپنڈی
منجانب: والد ( ملک محمد ممتازقادری۔ حال اڈیالہ جیل راولپنڈی)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے