سیکولرزم کا ایشو

سیکولرزم کی کلاسیکی تعریف اور اُس کے عملی سیاسی استعمال میں بڑا فرق موجود ہے۔ سیکولرزم کی کلاسیکل تعریف یہ ہے کہ ’’سیاست وحکومت میں مذہب کا کوئی دخل وعمل نہ ہو اور مذہب انسان کے صرف شخصی عقیدے تک محدود ہو‘‘۔ گویا اس تعریف کے مطابق مملکت کے اجتماعی اداروں اور آئین میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔

 

سیکولرزم کی اصطلاح سب سے پہلی ہولی اوک نامی انگریز نے 1846ء میں استعمال کی تھی۔ بہت جلد یہ ایک تحریک بن گئی اور پورے مغرب میں اسے بحیثیت قدر اختیار کرلیاگیا۔ مغرب کی دیکھا دیکھی بے شمار دوسرے ممالک نے بھی اسے ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے اختیار کرلیا۔سیکولرزم کے ظہور اور مقبولیت کا اصل سبب تاریخی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یورپ میں چرچوں یعنی مذہبی طبقے نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بہت بڑی جائیدادیں بنانا شروع کیں۔ رفتہ رفتہ ملک کی اکثر اہم اور قیمتی جائیدادوں پر اُن کا قبضہ ہوگیا۔ ان جائیدادوں کے انتظام نے انہیں حکومت کا چسکا لگادیا اور پادریوں نے ہر جگہ حکومتوں کے اندر حکومتیں قائم کرلیں۔ اُن کی اپنی عدالتیں اور اپنے جیل خانے تھے۔ بعض جگہوں پر وہ اتنے طاقتور ہوگئے کہ اُن کی مرضی کے بغیر حکومت ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اور بعض جگہوں میں یہ حالت ہوگئی کہ چرچ اور حکومت ایک دوسرے کے بالکل مقابلے پر آگئے۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ عیسائیت کے نام پر دراصل مذہبی طبقہ اپنے مفادات کے لیے کررہا تھا۔ عیسائیت بطور مذہب کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، کیونکہ عیسائی مذہب تو چند اخلاقی اصولوں پر مشتمل ہے اور اس کا اپنا کوئی نظامِ سیاست یا فوجداری قانون نہیں ہے۔ جب یورپی حکومتیں اس صورت حال سے عاجز آگئیں تو اہلِ کلیسا کے خلاف جگہ جگہ بڑے آپریشنز کا آغاز کردیا گیا۔ اور یہ فیصلہ ہوا کہ ان چرچوں کو آئندہ عدالت لگانے ، جیل بجھوانے اور اس طرح کے دوسرے اختیارات حاصل نہیں ہوں گے ۔ وہ اپنے چرچ کے اندر جو وعظ وتبلیغ چاہیں کریں لیکن چرچ سے باہر ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ تمام جائیدادوں اور جرائم کے فیصلے حکومت کرے گی، نہ کہ پادری۔ چونکہ یورپ میں پادری اور مذہب ایک ہی چیز کے دو نام تھے، اس لیے اصول یہ بنایا گیا کہ مذہب اور حکومت ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ اور مذہب (مطلب مذہبی لوگ یعنی پادریوں) کو اُمورِ مملکت میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ظاہر ہے کہ جب ایک تصور آگے بڑھ کر مملکت کے ایک ستون کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو اس کی کئی شیڈز، اظہار، یا تعبیریں بن جاتی ہیں۔ چنانچہ آج کل کی دنیا میں اس کی تین بڑی تعبیریں ہیں۔

 

 

امریکہ اور برطانیہ کا سیکولرزم

سیکولرزم کی اس تعبیر کے تحت ہر مذہب کا احترام کیا جاتا ہے۔ عام لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل درآمد میں سرکاری طور پر پوری آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ مثلاً برطانیہ کے اُن سرکاری سکولوں میں، جہاں مسلمان طلبہ وطالبات کی ایک خاص تعداد موجود ہو، اُن کے لیے اسلامیات پڑھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ سکولوں میں مسلمان طلبہ کو حلال خوراک فراہم کی جاتی ہے۔ سکولوں کے اندر بچے اپنے مذہبی شعائر کے مطابق لباس پہن کر آسکتے ہیں۔ مثبت طور پر ریاست وحکومت کے معاملات میں مذہب کو ایک خاص حد تک دخیل بھی ہونے دیا جاتا ہے۔ مثلاً ڈالر پر لکھا جاتا ہے "In God we trust” ۔صدرِ امریکہ کی حلف برداری کی تقریب میں پروردگار اور یسوعِ مسیحؑ سے دُعا مانگی جاتی ہے۔ تاہم باقی آئین وقانون کو مذہب سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ آئینی طور پر امریکہ کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے۔

 

 

فرانس کا سیکولرزم

یہ سیکولرزم کی دوسری تعبیر ہے۔ کسی حد تک جرمنی اور اٹلی بھی اس پر گامزن ہیں۔ ترکی میں آئینی طور پر یہی سیکولرزم ہے، اگرچہ وہاں کی موجودہ برسراقتدار پارٹی اس میں نرمی لانے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ اس سیکولرزم میں ہر نمایاں اجتماعی مذہبی علامت کو سیکولرزم سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً فرانس کے سرکاری سکولوں میں مسلمان لڑکیاں سر پر نقاب نہیں لے سکتیں، سکھ طلبہ پگڑی نہیں اوڑھ سکتے، عیسائی صلیب نہیں لٹکا سکتے اور یہودی اپنی مخصوص ٹوپی نہیں پہن سکتے۔ سیکولرزم کے اس برانڈ میں اجتماعی تقریبات میں مذہبی دُعا شامل نہیں کی جاتی۔ گویا اس سیکولرزم کو ’’مذہب مخالف سیکولرزم‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

 

 

بھارتی سیکولرزم

بھارتی سیکولرزم دوسرے ممالک سے یوں مختلف ہے کہ اس میں اکثریت کی دل آزاری روکنے کی خاطر ایسے قوانین بھی نافذ کیے گئے ہیں جو اپنی بنیاد کے اعتبار سے مذہبی ہیں۔ مثلاً بھارت میں گائے ذبح کرنے پر پابندی ہے اور اس کے لیے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ گائے ذبح کرنے سے عوام کے ایک بڑے طبقے کی دل آزاری ہوتی ہے۔ گویا یہ سیکولرزم کی ایک ایسی قسم ہے جس میں اکثریت کے مذہبی مفادات کا اِس طریقے سے خیال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے اقلیتوں کو کوئی بڑا نقصان نہ پہنچے۔ گویا اُسے ’’مطابقِ مذہب سیکولرزم‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

 

 

 

سیکولرزم کے ان برانڈز کی اسلام سے مطابقت

درج بالا برانڈز کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے پہلی دو اقسام اور اسلامی تعلیمات کے درمیان بہت فرق ہے۔ مثلاً اسلامی تعلیمات کے مطابق حکمرانوں کو اقامتِ صلواۃ اور ایتائے زکواۃ کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی طرح یہ بھی حکومت کا کام ہے کہ وہ بدکرداری، سود، جوئے اور شراب نوشی کو جرم قرار دے۔ اسی طرح ہمارے دین نے چند جرائم کی متعین سزائیں بیان کی ہیں جن کے نفاذ کی طرف ریاست کو ایک تدریج کے ساتھ کچھ شرائط کو پورا کرتے ہوئے بڑھنا چاہیے۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام کسی سیکولر حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔

 

 

تاہم جہاں تک سیکولرزم کی تیسری تعبیر کا تعلق ہے، اُسے چند مزید ارتقائی تبدیلیوں کے ساتھ اسلام کے مطابق بنایا جاسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دین نے کسی مسلمان ریاست کے اندر رہنے والے غیر مسلموں پر اپنے قوانین کو نافذ کرنے کی ہدایت نہیں دی۔ مثلاً کسی مسلمان ملک کے اندر غیر مسلموں کے لیے شراب نوشی پر کوئی پابندی نہیں۔ حتیٰ کہ جو فوجداری قوانین دین نے بیان کیے ہیں مثلاً چوری یا بدکاری کی سزا وغیرہ ، اُن کو بھی غیر مسلموں پر نافذ نہیں کیا جاتا۔ اگر وہ چاہیں تو انہی ملکی قوانین کو اختیار کرلیں اور اگر چاہیں تو اپنے لیے جمہوری طریقے سے علیحدہ قوانین بنائیں۔ اسلامی تعلیمات کے تحت انہیں یہ بھی اجازت ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے پرسنل لاء کے معاملات حل کرنے کے لیے اپنی عدالتیں بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔ گویا غیر مسلم کسی مسلمان ریاست کے اندر مکمل طور پر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ اس کو ہم ایک خاص مفہوم میں اس طریقے سے ادا کرسکتے ہیں کہ ’’اسلام غیر مسلموں کے لیے ایک سیکولر مذہب ہے‘‘۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کسی مسلمان ریاست کے اندر بھی غیر مسلموں پر اپنے احکام مسلط نہیں کرتا۔اور وہ مذہب کے نام پر کسی کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

 

 

 

 

خالص جمہوری نقطہ نظر سے بھی یہ بات ضروری ہے کہ کسی ملک کے باشندوں کی اکثریت کی خواہش کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد ستانوے فیصد ہے۔ اگر یہ سب چاہتے ہیں کہ اس ملک کے قوانین میں اسلامی تعلیمات کا خیال رکھا جائے تو آخر کس دلیل کی رو سے انہیں اس حق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسلام میں تھیاکریسی کا کوئی تصور نہیں ہے۔یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ جو لوگ اسلام کو نہیں مانتے، ان پر اس مذہب کی تعلیمات کا اطلاق نہ کیا جائے۔ ایک خاص مفہوم میں یہی سیکولرزم ہے۔ گویا ہم چاہیں تو اپنے آئین میں یہ لکھ سکتے ہیں کہ ’’پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا لیکن مذہب کے نام پر کسی کا استحصال کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور غیر مسلموں کے حوالے سے یہ ایک سیکولر ملک ہوگا‘‘۔ اس راقم کے نزدیک یہ طرزِ تعبیر اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس سے دنیا کے سامنے اسلام کا اصل چہرہ سامنے آسکے گا اور پھر کوئی بھی یہ الزام نہیں لگائے گا کہ اسلام اپنے احکامات کو دوسروں پر مسلط کرتا ہے۔

 

 

یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ آج دنیا کے مسلمہ نظامِ اخلاقیات کے تحت کئی امور عالمی اقدار کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں اور ان کی ترویج میں اب کسی مذہب اور کسی نظامِ سیاست بشمول سیکولرزم، کوئی اختلاف نہیں رہا۔ ان عالمی اقدار (Universal Values) میں مذہبی رواداری، برداشت، مکالمہ، جمہوریت، مساواتِ انسانی، انصاف، دیانت اور پرامن بقائے باہمی شامل ہیں۔ کیونکہ یہ سب امور انسانیت کی مشترکہ میراث ہیں۔

نوٹ : یہ مضمون اسلامی اسکالر ڈاکٹر فاروق خان مرحوم کی کتاب”امت مسلمہ،کامیابی کا راستہ(حصہ دوم)سے لیا گیا ہے۔ 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے