مولانا طارق جمیل اور دہشت گردی

پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت کے جن جھٹکوں سے نبرد آزما ہے وہ کوئی معمولی نہیں ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت قابو میں نہیں آرہا ہے اس کی وجوہات پر تو تبصرہ کرنا لاحاصل ہے لیکن یہ جنگ جس کے بارے میں ابتدائی ایّام میں عام رائے یہی تھی کہ یہ پرائی جنگ ہے ہماری نہیں وہ ہماری اپنی حماقتوں سے اب صرف ہماری ہی بن چکی ہے۔ اُس وقت ایک وسیع حلقہ بار بار بتا رہا تھا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے اور اس میں ایک حد سے آگے جانا خطرناک ہوگا۔

دہشت گردی کی جنگ میں شرکت سے پہلے اگر قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی گئی ہوتی جیسے کہ یمن کے مسئلے پر کی گئی تو حالات اتنے خراب نہیں ہوتے۔ سوات کی جس ویڈیو کی بھرپور نمائش کی گئی اور ایک آپریشن کے لیئے ایک فضا بنائی گئی وہ فلم جعلی ثابت ہوئی لیکن دشمن اور پاکستان میں انکے ہمدرد اپنا کام کر گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سازشی عناصر کس حد تک معاشرے میں سرایت کرچکے ہیں۔

اسی سلسلے میں سانحہ لال مسجد رونما ہوا۔ لیکن نہ دہشت کم ہوئی نہ ہی دہشت گرد معدوم ہوئے بلکہ پاکستان کے دشمن ہمارے اختلاف سے فائدہ اُٹھا کر ہماری صفوں میں گھس آئے۔ داد اُن کو دینی چاہیئے کہ جنہوں نے حالات اس نہج پر پہنچادیئے کہ یہ جنگ خواہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں اب سب کی جنگ بن چکی ہے کیونکہ بربریت کی حمایت کوئی ذی ہوش کسی بھی پیرائے میں نہیں کرسکتا ۔

عمل اور ردّ عمل کی چکّی میں ہم ہی پس رہے ہیں۔ یہ دنیادار مسلمانوں کی نام نہاد روشن خیالی کا انعام ہے۔

اب رہی بات حمایت یامخالفت کی تو ہر شخص کو اپنی رائے کا حق ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان دو طبقوں میں بٹ گیا۔ ہر دو طبقات اپنی حبّ الوطنی کے پرتو ہی ایک ایماندارانہ رائے رکھتے رہے ہیں۔ لبرل طبقات پاکستان کی فلاح اس جنگ کو اپنانے میں سمجھتے تھے اور کچھ مذہبی حلقے اس کو نقصان دہ سمجھتے تھے اور کچھ غیر جانبدار تھے۔ جو عوامل اس جنگ کو ہماری جنگ نہیں سمجھتے تھے وہ خاموش تماشائی بن گئے اور جو اس جنگ کو پاکستان کی جنگ سمجھتے تھے وہ طبقات اس کی حمایت میں نہ صرف صف آرا ہوئے بلکہ اس میں شریک ہوگئے ۔ لیکن گزرے حالات نے ثابت یہی کیا ہے کہ اس وقت ان غلط فیصلوں کی وجہ ہی سے ہم بحران کا شکار ہیں۔

امریکہ پر حملے میں نہ پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی اور نہ کوئی پاکستانی! لیکن اندھا دھند اس راستے پر ہم دوڑ پڑے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے۔ اس وقت کی لیڈرشپ آگے بڑھی اور وشن خیالی اور سیکولر ازم کے مدّاح لبرل حلقے انکی پشت پر آن کھڑے ہوئے اور دہشت گردوں کا قلع قمع شروع ہوگیا۔پرویز مشرّف صاحب کا وہ بیان جو پی ٹی وی پر دکھایا گیا آج بھی بھلایا نہیں جاسکا جس میں انہوں نے بہت زُعم میں فرمایا تھا کہ فاٹا میں صرف ۶۰ دہشت گرد ہیں جنہیں ہم ختم کردیں گے۔ ان گنتی کے تخریب کاروں کو ختم کیوں نہ کیا جاسکا؟ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ پٹھانوں کے جذبۂ انتقام ، قبائلی نفسیات اور بیرونی دشمنوں کی دراندازی کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکا یا نظر انداز کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قوم تقسیم ہوئی اور وہ ۶۰ دہشت گرد شاید ۶۰۰۰۰ بن گئے اور ختم ہونے میں نہیں آرہے۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے دشمن یہ تخریبی افراد اس ملک میں ہمیشہ سے پر امن شہری کی طرح رہ رہے تھے اور کبھی ایسے دہشت گرد نہیں تھے۔ یہ قبائلی اور پختون وہی ہیں جو پاکستان کے لیئے جان دیتے تھے لیکن انکا معاشر وہ ہے جہاں انتقام در انتقام عشروں تک چلتا ہے۔ ڈرون حملوں میں پورے خاندان کو تہہِ تیغ کردینے کے اثرات پر کبھی غور بھی نہیں کیا گیا نہ کبھی میڈیا پر اسپر رائے زنی ہوئی۔ ہم نے انسے غیروں والا سلوک کیا۔ انکی عورتوں اور بچّوں کی ہلاکت پر ہمدردی کے دو بول نہ بولے بلکہ لا تعلّق رہے۔ انہیں ہماری غلطیوں نے گمراہ کیااور انتقام میں وہ دشمن کے آلہ کار بن گئے۔ اپنی قبائلی روایات اور نفسیات کے بموجب ہر ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیئے تیّار نیم خواندہ نئے دہشت گرد بالواسطہ ہم نے ہی پیدا کیئے ۔ کیا ہم یہ مانیں گے؟

لیکن سوال یہ ہے کہ اس مرحلے پر اپنے موقف کی کمزوری اور ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے سیکولر، لبرل اور اس جنگ کے حمایتی ان لوگوں پر طعنہ زن کیوں ہورہے ہیں جو ایک مختلف موقف رکھتے تھے۔ یہ اصحاب کن اخلاقی بنیادوں پر علمائے دیو بند پر حملہ آور ہورہے ہیں کہ آپ ہماری مدد کیوں نہین کرتے! چہ بو العجبی است؟

یہ بات بھی یاد رہے کہ لال مسجد کے سانحے کے وقت یہی علماء اسلام آباد بلائے تو گئے تھے لیکن پھران کوشدّت پسندوں سے ملنے نہیں دیا گیا اور کیا یہ حقیقت نہیں شدّت پسندوں کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی پیشکش اور اعلان نصف شب کو سب نے براہِ راست ٹی وی پر سنا لیکنپھر بھیصبح آپریشن کردیا گیا ! لگتا تو یہی ہے کہ اس بے عزتی کے بعد سے یہ علماء اس معاملے سے کنارہ کش ہوگئے۔ لیکن ان علماء نے ہمیشہ ہر موقع پر بربریت کی مذمت کی ہے۔

مولانا طارق جمیل کا ایک انداز ہے کہ وہ محبّت اور اصلاح کی بات کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت والے غیر سیاسی انداز میں اپنا کام کرتے ہیں اور انکا واضح موقف تو یہ ہے کہ ہزار انسان کے قاتل کی بھی اصلاح کرو کہ وہ توبہ کرکے نیک بن جائے۔ ان پر کھسیاکر الزام تراشی کہ آپ ویسا کیوں نہیں کرتے جیسا ہم چاہتے ہیں ایک بچکانا اور مضحکہ خیز بات ہے۔ وہ اپنے نظریئے کے تئیں ہر قتل کی مخالفت اور مذمّت کریں گے لیکن قاتل کی اصلاح چاہیں گے۔ وہ انسان کی آخرت کی تعمیر کا کام کرتے ہیں وہ نبیوں والاکام کرتے ہیں انہیں کرنے دیں ۔

ان پر الزام تراشیاں دراصل اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز کیا جائے اور خوامخواہ ان لوگوں پر کیچڑ اُچھالنے سے گریز کیا جائے جن کا اس معاملے سے تعلّق نہیں ہے یا اس سے لاتعلّق رہے ہیں۔ اس جنگ میں شریک پاکستان سے باہر کے لوگوں کو طارق جمیل صاحب نے نہیں بلایا۔

روشن خیال اور لبرل اصحاب پاکستان کے نادان دوست ثابت ہوئے۔ ان کی انتہا پسندی اور مذہب سے کدورت نے یہ دن دکھایا کہ پاکستان کو بچانے کے لیئے فوج نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ میں ملوّث ہوئی۔

لبرل اور سیکولر جتنا پاکستان کا قبلہ تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے اتنا ہی ردِّ عمل ہوتا رہے گا۔

اپنے ہی گھر میں آگ سے کھیلنے والے روشن خیال جب بھائیوں کو لڑا چکے اور آگ قابو سے باہر ہوئی تو ناصح لوگوں پر کھسیاکر تنقید کر رہے ہیں۔انکو چاہیئے کہ اپنا بگاڑا ہوا کام یا توخود درست کریں یا شائستگی سے لوگوں کی مدد مانگیں۔

اللہ ہم سب کو عقلِ سلیم عطا کرے۔۔۔۔ آمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے