شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم سٹر یٹیجی

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی گئی ہے اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے سے مراد ان کا مکمل صفایا ہوجانا ہے تو اسے اپنی غلط فہمی درست کر لینی چاہیے۔ یہ جنگ ابھی جاری ہے،دہشت گردوں کے فیلڈ سکواڈممکن ہے اس سال ختم ہوجائیں، ویسے تو یہ بھی خاصا مشکل ہدف ہے،مگردہشت گردوں کے ممکنہ حملوں سے ملک اور عوام کو مکمل محفوظ بنانے والی صورتحال میں کچھ وقت مزید لگے گا۔ دہشت گردی کے خلاف اس جدوجہد کودو مختلف انداز میںدیکھنا ہوگا۔ ایک شارٹ ٹرم یعنی ہنگامی بنیادوں پر بنائے جانے والی حکمت عملی اور دوسری لانگ ٹرم، طویل عرصے کے لئے مستقل، پائیدار بنیادوں پر ترتیب دی جانے والی سٹریٹجی بنانے کی ضرورت ہے۔

آج کی نشست میں شارٹ ٹرم یا مختصر المدت حکمت عملی پر بات کرتے ہیں۔یہ ہنگامی بنیادوں پر کرنے والا کام ہے، جس میں ایک دن کی بھی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔پچھلے کالم میں اس حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی چیزپر بات ہوئی،جسے پہلی دفاعی لائن کہا جا سکتا ہے، وہ ہے پولیس ۔ پولیس کے نظام کو ہمیں اہمیت دینا ہوگی۔ صرف الزامات اور طعن وتشنیع اسکے حصے میںآتے ہیں،لیکن اس محکمے کی کارکردگی بری نہیں، سیاسی بنیادوں پرنااہل افسر اگر تعینات نہ ہوں اور پولیس کام کرنا چاہے توٹھیک ٹھاک قسم کا فرق موجودہ کمزوریوں کے باوجود ڈالا جاسکتا ہے۔پولیس کے روایتی مخبری نظام کو ہر حال میں مضبوط بنانا ہوگا، نئی ہنگامی بھرتی کے ذریعے ان کی نفری بڑھائی جائے، اسلحہ اور جدید ہتھیار ملیں اور انہیں اصل ذمہ داری دی جائے کہ علاقہ کی جغرافیائی اور پیپل میپنگ کریں۔ہر گلی،سٹرک پر کیا ہور ہا ہے، کون آ، کون جا رہا ہے، کس نے رہائش اختیار کی، کون چھوڑ گیا، کس کے پاس اسلحہ ہے، کہاں پر پراسرار نقل وحرکت ہورہی ہے… یہ سب کام پولیس کے کرنے کے ہیں، انہیں ہی کرنے ہوں گے۔

دوسری دفاعی لائن دراصل وہ بیریئر یا رکاوٹیں ہیں جو ہم دہشت گردوں، مجرموں کے راستے میںکھڑی کرتے ہیں۔ بیریئرز سے مراد وہ رکاوٹیں نہیں ہیں،جوپولیس والے تلاشی لینے یا چیکنگ کے لئے سڑکوں پر لگاتے ہیں۔ میں ان دیکھی رکاوٹوں کی بات کر رہا ہوں، جو نظرنہ آنے کے باوجود نہایت موثر ثابت ہوتی ہیں۔قوانین وضابطوں پر سختی سے عمل کرایا جائے، ناجائز اسلحے کی دستیابی ممکن نہ ہوپائے، سرحد پار سے یوں درآنے والوں کو روکا جائے، بغیر پاسپورٹ ، ویزا لئے پشاور، مردان،چارسدہ، چمن، کوئٹہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں گھومنے والے افغانیوں کوپکڑا جائے، انہیں نکالا جائے ۔پاک افغان بارڈر مینجمنٹ انتہائی ضروری ہے۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پاکستان سے کوئی ویزے،پاسپورٹ کے بغیر افغانستان کیوں جائے؟ وہاں سے آنے والوں کو کیوں نہ روکا جائے؟ سادہ سی بات ہے کہ افغانستان ہمارا دوست ملک نہیں ہے، آج کل تو تمام دہشت گردی وہاں ہی سے پلان ہو رہی ہے، وہاں سے دہشت گرد یہاں آتے اور کارروائیاں کر کے واپس اپنے بل میں چھپ جاتے ہیں۔ افغان حکومت ، خاص کر افغان انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں اگر فنانس نہیں کر رہیں تو بھی وہ انہیں روکنے کی قطعی کوشش نہیں کرتیں۔ اس لئے اب تمام تر ذمہ داری ہماری ہے۔ ہمیں ہنگامی طور پر پاک افغان سرحدکے معاملات کو ٹھیک کرانا ہوگا۔

ایک عجیب دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کئی سو میل لمبی سرحد ہے، اسے مکمل طور پر بند نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے ساتھ بھی پنجاب اور سندھ میںکئی سو میل طویل سرحد ملتی ہے، اسے بھی مکمل طور پر بند نہیں کیا جا سکتا، مگر کیا یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں کوئی شخص آزادانہ طور پر آ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ مختلف طریقوں سے سرحدکو محفوظ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔پاک افغان بارڈر پر بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ پہلے مرحلے پر ہمیں طورخم بارڈر اورچمن کی طرف سے آنے والوں کو سخت قانونی ضابطے میں لانا ہوگا۔ اگر ویزہ نظام میں خامیاںہیںتو وہ دور کی جائیں، افغانستان میں اپنے مختلف قونصلیٹ میں ویزا کائونٹرز بڑھائے جا سکتے ہیں، جتنے ویزے اس وقت جاری ہوتے ہیں، ان کی تعداد اگر ضروری ہو تودوگنا ، تین گنا بڑھائی جاسکتی ہے۔چیزوںکومشکل تو بنایا جا سکتا ہے، قانونی طور پر آنیوالوں کو ڈسپلن میںلایا جائے، جن پوائنٹس سے غیر قانونی طور پر دخل اندازی ہوتی ہے، وہاں بارڈر فورس تعینات کی جائے۔ دہشت گردوں کو کم از کم صاف راستہ تو نہ دیا جائے۔

تیسرا مرحلہ مقامی آبادی کی شناخت ہے۔ ہمیں کچھ نہیں معلوم کہ کون کہاں اور کیوں رہ رہا ہے؟یہ تک معلوم نہیں کہ خیبر پختون خوا اور دیگر صوبوں میں کہاں کہاں افغان مہاجرین مقیم ہیں؟ویسے تو اب بہت ہوچکی، افغان مہاجرین سے بھی جان چھڑالینی چاہیے۔ پاکستان نے تین عشروں سے زائد عرصہ ان کی میزبانی کر لی، اب انہیں واپس جانا چاہیے۔ ہر جگہ وہ پاکستانی معاشرے میں سرائیت کر چکے ہیں، انہیں واپس بھیجنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے، لیکن اس کا آغاز تو کیا جائے، کہیں سے توکام شروع کرنا پڑے۔

چند دن پہلے وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک نے دو بڑی عمدہ باتیں کی ہیں۔ انہوں نے افغان مہاجرین واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا اور کرفیو لگا کر مختلف شہروں میں لوگوں کی جانچ کرنے کا کہا گیا۔ یہ بہت اہم باتیں ہیں۔ ہمیں پہلے مرحلے پر خیبر پختون خوا میں مردم شماری کر ا لینی چاہیے، باقی ملک میں بعد میں ہوتی رہے گی۔ کئی ممالک میں مردم شماری کے لئے کرفیو لگا کر گھر گھر چیکنگ کر کے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ پشاور، مردان، چارسدہ، صوابی وغیرہ سے ڈی آئی خان، ٹانک ،کوہاٹ جیسے اضلاع میں ایک ایک دن کا کرفیو لگا کر مردم شماری کی جائے اور جہاں کہیں افغان مہاجرین مقیم ہیں یا بغیر شناختی کارڈ کے مشکوک مقامی لوگ ملیں، ان سب کا الگ الگ ڈیٹا بنے ۔

انہی بیریئرز میں سے ایک پاکستان کو بائیو مکینک ملک بناناہے۔ موبائل سمیں بنانے کیلئے نجی موبائل کمپنیوں نے لاکھوں تصدیق کرنیوالی چھوٹی مشینیں بنا دیں، جن کے ذریعے روزانہ ہزاروں، لاکھوں لوگوں کو سمیں جاری ہوتی ہیں۔ اس عمل کو ہر جگہ لاگو کرنا ہوگا۔فضائی سفر سے ریل کی ٹکٹوں اور بسوں کے سفر تک ہر جگہ ٹکٹوں کو بائیومکینک تصدیق سے مشروط کرنا چاہیے۔ شناختی کارڈ کی پابندی موثر ثابت نہیں ہورہی، لوگ کسی بھی کارڈ کی فوٹو کاپی سے ٹکٹیںلے لیتے ہیں۔بائیومکینک تصدیق سے حکومتی اداروں کے پاس مکمل ڈیٹاہوگا کہ کون شخص کہاںکہاں سفر کرتا رہا۔ یہ ڈیٹابعد میں ٹیکس معاملات کے لئے بھی کام آئیں گے۔ بنکوں کے اکائونٹس بھی بائیومکینک تصدیق سے منسلک کر دیں۔ اسی طرح پاک افغان بارڈر پر آنے جانے والوں کا بائیومکینک ڈیٹابنایا جائے، چند ہی ماہ میں بیش قیمت معلومات حاصل ہوجائیں گی۔ یہ سب کرنا بالکل بھی مشکل نہیں، خرچہ بھی زیادہ نہیںآنا، صرف حکومتی فیصلے اور اس پر موثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ اب فیصلہ کن دور میں داخل ہوچکی ہے۔دہشت گرد اب دوبارہ سے منظم ہو رہے ہیں، انہیں اندازہ ہے کہ اگر اسی رفتار سے آپریشن جاری رہا توچند ہی ماہ میںان کے سہولت کاروںکا نیٹ ورک بالکل ہی ختم ہوجائے گا، اس لئے وہ سافٹ ٹارگٹس تلاش کر کے عوام اور فورسزکے حوصلے پست کرنے کی کوشش کریں گے۔ حکومت کو عوام کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط بنانا ہوگا۔ سب کچھ کھل کر بتائیں۔ سکیورٹی خطرات کی بنیاد پر سکول بند کر کے شدید سردی کا بہانہ کب تک بناتے رہیں گے؟صاف صاف بتائیں کہ ہمیں بزدل مگر سفاک دہشت گردوں سے خطرہ ہے کہ وہ پنجاب کے تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنائیں گے، اس لئے حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس قسم کے خطرات ہیں اور انہیں خود بھی ہوشیار رہنا چاہیے۔ دراصل ایک اہم دفاعی لائن شہریوںکا تعاون ہے۔ سوک سپورٹ کے بغیر اس نوعیت کی دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔ حکومت نے ایک نمبر کا اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اس پر اطلاعات دی جائیں۔اگر کسی خوش نصیب کو وہ نمبر معلوم ہے تو میری طرف سے شاباش قبول کرے۔میں نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے پوچھا، میرے سمیت میرے صحافی دوستوں کو بھی وہ نمبر نہیں معلوم۔ وجہ صاف ہے کہ اس حوالے سے کوئی موثر مہم چلائی ہی نہیں گئی۔ پنجاب میںہر ایک کو ریسکیو ون ون ڈبل ٹو کا نمبر یاد ہے۔ دہشت گردی کے خلاف معلومات فراہم کرنیوالانمبر بھی اسی انداز کا ہوناچاہیے اور موثر تشہیری مہم کے ذریعے اسے ازبر کرا دیا جائے۔ یہ معلومات لینے والے لوگوں کی بھی تربیت کی جائے تاکہ عوا م خوفزدہ ہونے کے بجائے اعتماد کیساتھ ہر معلومات شیئر کر سکیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ریاست کی ذمہ داری ہے، جس کی نمائندگی حکومت کرتی ہے۔ اسے ہی فرنٹ پر آ کر ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔ کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ سب حکومت ہی کے کھاتے میں جاتا ہے۔ٹوئیٹس بھی حکومتی ترجمانوںکو کرنے چاہئیں۔یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ حکومت اور فورسز الگ الگ حیثیت کے مالک ہیں اور ایک نے اچھا جبکہ دوسرے نے برا کام کیا۔ دہشت گردی کیخلاف سب کو یکسو ہوکر اپنی پوری قوت سے کام کرنا ہوگا، تب جا کر یہ عفریت زیر ہو پائے گا۔ ورنہ باقی سب کہانیاں ہیں بابا۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے