نام نہادموٹیویشنل اسپیکرزکاابال

سرمایہ دارانہ نظام نے جدید انسان سے ہر وہ چیز چھین لی ہے جو اسکے لئے باعث شرف ہوا کرتی تھی۔ انسانی روح کو ایسے اندھے کنویں میں گرادیا ہے جہاں وہ خود اپنی آواز کو اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اس نظام میں ہر انسان ایک "صارف”ہوتا ہے اور بس۔ انسان کی ہر صلاحیت، فن،Skill اور علم اگر سرمایہ کی بڑھوتری کے لئے استعمال ہو تو اسکا "فائدہ” ہے ورنہ "بےکار” ہے۔

بولنے اور گفتگو کا فن بھی جب تک انسانوں کو صارف بنانے کے لئے استعمال نہ ہو اسے "مفید” تصور نہیں کیا جاتا۔ نام نہاد Motivational Speakers اس افادی نقطہ نظر کی عمدہ مثال ہیں۔ گفتگو کا فن، خطابت اور ابلاغی صلاحیت کبھی قابل قدر انسانی اثاثہ ہوتا تھا مگر ان نام نہاد Trainers نے اسے ایک قابل فروخت جنس میں تبدیل کرکے انسان کی روح پر ظلم کیا ہے۔ بڑبولا پن جو کبھی خصائل رذیلہ میں شمار ہوتا تھا اب انکے ہاں ایک کاروباری جنس تصور ہوتی ہے جو ہر صورت مالی یافت کا ذریعہ ہونی چاہئے۔

یہ جدید جہلاء Corporate Culture کے وہ آلے(Tools) ہیں جو زبانِ غیر کے منہ زور گھوڑے پہ سوار، مانگے کے افکار مایہ کو”مایہ” کے لئے سونا بنا کر اپنے ہی ہم وطنوں کو مرعوب کرکے تالیاں پٹواتے ہیں۔ جعلی تحقیق کے حوالے اور تیسرے درجہ کے لکھاریوں کے ادھ کچرے خیالات کی جگالی، نفس مضمون کے بجائے بدن بولی، متاثرکن حلیہ اور سامعین کی نفسیات سے کھیلنے کی جادوگرانہ تراکیب ان کا کل اثاثہ ہوتی ہیں۔ علمی افلاس کے مارے، سادہ اور عام پڑھے لکھے عوام کی تحسینِ ناشناس کے بل پر یہ حضرات اپنی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کی نامحمود کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ”دلیل” کے ہاتھوں خود بھی ذلیل ہوتے ہیں اور اپنے سامعین کو بھی کرتے ہیں۔

"مثبت سوچ” کا منجن بیچنا خود ان اسپیکرز اور ٹرینرز کے حق میں تو بہت”مثبت اور کارآمد” ثابت ہوتاہے مگر سامعین کو ایک فوری —یا اکثر تاخیری— ڈپریشن، Guilt, غیر حقیقی آدرش اور منفی اثرات کا شکار کر چھوڑتا ہے۔
اسی لیے میں کہا کرتا ہوں

"جو بَکتا ہے وہی بِکتا ہے”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے