اسکول سیکورٹی اور دہشت کی معیشت

کچھ خبریں ہیں۔ بظاہر ان خبروں میں کوئی باہم تعلق نہیں ۔ مگر آنکھ تو تصویر دیکھتی ہے اورکان آواز سمجھتا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں بچوں کے اسکول مختصر مدت کیلئے بند کر دئیے گئے ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اسکول سیکورٹی خدشات کی بنا پر بند کئے گئے تھے۔ پھر بتایا گیا کہ یہ موسم سرما کی تعطیلات ہیں۔ لیکن صاحب موسم سرما کی تعطیلات تو روایتی طور پر دسمبر کے آخری عشرے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ کیسی معمول کی تعطیلات ہیں کہ جنوری کی ایک شام بچوں کو اسکول بند ہونے کے بعد اطلاع ملتی ہے کہ آئندہ اطلاع تک ان کے اسکول میں تعطیلات ہیں۔ پنجاب کے نہایت ہر دل عزیز صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ صاحب کہتے ہیں کہ اسکول سخت سردی کے باعث بند کئے گئے ہیں ۔ رانا صاحب راہ سلوک کے طریق سے بھی آشنا ہیں اور قانون شریعت میں بھی درک رکھتے ہیں۔ کیا عجب کہ ان کے فرمودات کا تعلق اس خبر سے ہو کہ سعودی عرب کے کچھ حصوں میں شدید برف باری کے باعث اسکول بند کر دئیے گئے ہیں۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے۔ اس دوران باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملے کے بعد ایک اشقلہ چھوڑا گیا کہ تعلیمی اداروں میں اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے گویا تعلیم و تدریس کی ذمہ داری اب مورچہ بند ہو کر پوری کی جائے گی۔ استاد نے فائرنگ روک کر بندوق میز پر رکھتے ہوئے کہا، ’’تو بچو اپنی کتابوں میں صفحہ نمبر 115کھولئے ۔ آج ہم اقبال کا ساقی نامہ پڑھیں گے‘‘۔ اس دوران میں مچان پر بیٹھے پرنسپل کی آواز آئی ، ’’اساتذہ کرام، میں نظر رکھے ہوئے ہوں، دشمن کو عقبی دیوار سے آگے نہیں آنے دوں گا ۔ آپ بالکل بے فکر ہو کر سبق پڑھانا جاری رکھیں‘‘۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ دسمبر 2014میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد تعلیمی اداروں میں چار دیواری بلند کرنے کی مہم شروع کی گئی تھی۔ درویش نے تب عرض کیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں تحفظ کی ضمانت دیواریں اٹھانے سے نہیں ملتی۔ اگر تعلیمی ادارے میں وہ شعور پیدا کیا جائے گا جو دہشت گردی پر سوال اٹھانے کی استعداد رکھتا ہو تو معاشرے میں دہشت گرد کو پناہ نہیں مل سکے گی۔ تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں تو شعور کی آلودگی کی سطح بدستور بلند ہے۔ ٹھیک بتیس برس پہلے جن اصحاب نظر نے تعلیمی اداروں میںا سٹوڈنٹس یونین پر پابندی کی تائید کی تھی اور اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں اجتماعی زندگی کے بارے میں مکالمے سے تشدد کو فروغ ملتا ہے، مقتول طالب علموں کی فہرست سازی کی تھی، سیاسی جماعتوں کو مطعون کیا تھا، تاجر برادری کے وہ نمائندے جنہوں نے کھلے عام کہا تھا کہ ہمارے بچوں کو ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا ہے، ہمارے بچے انجینئر بن کر قوم کی قسمت بدل دیں گے، ہمیں سیاست سے کیا لینادینا… بند کریں جی اسٹوڈنٹس یونین کا کھڑاگ … آج وہی صاحبان بصیرت رہنمائی فرماتے ہوئے دہشت گرد کو تعلیمی اداروں کے اندر لے آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دہشت گردی سے متعلق سیاسی اور معاشرتی سوالات کا گلا دبانے کیلئے اسے محض ایک سیکورٹی مسئلے کے طور پر لیا جائے، پالیسی پر سوال نہ اٹھایا جائے۔ یہی تو دہشت گرد کا خواب تھا کہ تعلیم پا کر انسانوں میں زندگی کو بہتر بنانے کی آرزو پیدا ہوتی ہے، امن کاخواب جاگتا ہے، ترقی کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ اگر تعلیم امید پیدا کرتی رہے گی تو بندوق کون اٹھائے گا۔ بند کریں تعلیم، ختم کریں تحقیق …تحقیق کہ ہمارے بچوں کیلئے بس اتنی تعلیم کافی ہے کہ شمشیر و سناں کی لغت کو سوشل میڈیا پر تفرقہ انگیز تقریر و تحریر میں بدلا جا سکے۔واشنگ مشین میں لگے ٹائمر کو ٹائم بم بنایا جا سکے، پریشر ککر سے بارودی سرنگ بنائی جا سکے، موبائل فون کی سم سے دھماکہ کیا جا سکے…

سیدھی بات ہے کہ تعلیم ہمارے اندر اعتماد پیدا کرتی ہے کہ ہماری صلاحیت کسی سے کم نہیں، ہم مقابلہ کرنے کی استعداد رکھتے ہیں اور اہلیت کی بنیاد پر اپنا حق حاصل کر سکتے ہیں… اور اگر استحصال یا جبر کی مدد سے ہمارا حق چھینا گیا تو ہم سیاسی جدوجہد کی مدد سے، بلند اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر احتجاج کرتے ہوئے اپنا حق منوا سکتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے دستوری سیاست کرتے ہوئے بیرونی استعمار سے آزادی حاصل کی تھی، ہم سیاسی جد وجہد کے ذریعے منصفانہ حاکمیت کا اصول منوا سکتے ہیں۔ یہ امید دہشت گرد کیلئے سوہان روح ہے۔ دہشت کی نفسیات مایوسی کے خمیر سے اٹھائی جاتی ہے۔ دہشت گرد کا نصب العین انہدام اور تباہی ہے۔ منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید… چنانچہ دہشت گرد تعلیم کی تہذیب، رواداری کی ثقافت اور امن کے امکان سے خوفزدہ ہوتا ہے۔

دہشت گرد تو مسیحا ہے۔ اسم اعظم جانتا ہے۔ الوہی تدبیر سے لیس ہے۔ کیمیا کا نسخہ جانتا ہے، مٹی کو سونا کر سکتا ہے۔ اور… سونے کو مٹی کر سکتا ہے۔ باور آیا، اسے پانی کا ہوا ہو جانا… تو دیکھ لیجئے کہ 1952ء میں قدرتی گیس کے ذخیرے دریافت ہوئے۔ اندازہ لگایا گیا کہ تیس برس کیلئے توانائی کا مسئلہ حل ہو گیا۔ کل آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی۔ شاعر نے اپنی مٹی میں نم کی خواہش کی تھی، سیم اور تھور نہیں مانگا تھا کہ آبادی بڑھا کر بیس کروڑ کر دی گئی۔ اسی برس یعنی 1952ء میں سعودی عرب نے قدرتی تیل کی نعمت سے دولت کی یافت شروع کی۔ تب کوریا کی لڑائی جاری تھی۔ پاکستان کے پاس گیس، سعودی عرب کے پاس تیل اور ان دونوں نعمتوں سے محروم جنوبی کوریا نے دو فیصلے کئے۔ زرعی اصلاحات کی جائیں گی اور تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔ مسکین لوگوں کی غربت کے رنگ نیارے ہیں۔ اور آج ٹھیک ساٹھ برس بعد… قدرتی تیل کی فی بیرل قیمت 110 ڈالر سے گر کر تیس ڈالر فی بیرل پر آ گئی۔ پاکستان بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے دوچار ہے… اور جنوبی کوریا کی فی کس قومی پیداوار جو 1960ء میں 1106ڈالر تھی ، 2014ء میں 24565 ڈالر کو جا پہنچی۔ یہ رہا ادارے کی معیشت اور شخصیت کی معیشت میںموازنہ۔ دہشت گرد عقیدے کی سیاست ، تعصب کی ثقافت اور شخصیت کی معیشت چاہتا ہے۔ شخصیت کی معیشت کسے کہتے ہیں؟ بھائی، درویش سے کیا پوچھتے ہیں؟

 

 

 

ہمارے معروف ریسرچ اسکالر، ممتاز تجزیہ نگار اور متعدد کتابوں کے مصنف کے مقبول ترین ٹیلی وژن پروگرام میں ’’81فیصد افراد نے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں رائے دے کرکثرت رائے سے فیصلہ سنا دیا ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ منظور نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں ا ن کی ضرورت ہے لہٰذا حکومت ان کی مدت ملازمت میں کم ازکم دو برس کی توسیع کرے اور اس حوالے سے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خصوصی قرارداد منظور کی جائے… لوگ آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ … ملک میں جمہوریت کے نام پربعض نااہل افراد برسوں سے مسلط ہیں تو اتنے قابل جنرل کی مدت ملازمت اتنی مختصرکیوں ہے؟‘‘

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے