گلگت بلتستان مسئلہ کا بہترین حل

گلگت بلتستان کے حقوق کا معاملہ اس وقت اسلام آباد کے سیاسی ایوانوں ، گلگت بلتستان اور کشمیر کے عوام اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہنے والا سب سے بڑا موضوع بن چکا ہے۔کہیں یہ موضوع تشویش کا باعث ہے اور کہیں امید کی کرن کی کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے اس حوالے سے میں نے گلگت بلتستان کے وزیر اعلی، وزیر اعظم آزاد کشمیر، دونوں خطوں کی سیاسی جماعتوں کے ذمہ داروں کے انٹرویوز کئے اور دونوں خطوں کی عوام کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔اس میں دونوں اطراف سے شدت پسندی اور کے تاثرات دیکھنے اور سننے کو ملے۔

آزاد کشمیر کے عوام اور حکمران گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت(حقوق کے حصول کی مخالفت نہیں کی گئی) میں کٹ مرنے کو تیار جبکہ گلگت بلتستان کا ایک حلقہ صوبہ نہ بننے پر شدت پسندی اختیار کئے ہوئے ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے کسی حلقے نے گلگت بلتستان کو حقوق کے مطالبے پر مخالفت نہیں کی بلکہ ان کے حقوق کیلئے حکمران طبقے سمیت عوام نے بھی آواز بلند کی اور گلگت بلتستان کے کئی اہم حلقوں کی جانب سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت گئی اور بنیادی حقوق کا مطالبہ رہا۔

یہ مسئلہ 1949 میں معائدہ کراچی کے بعد پیدا ہوا جب آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار ابراہیم، چوہدری غلام عباس اورپاکستان کے وزیر بے محکمہ مشتاق احمد گورمانی نے معائدہ کراچی پر دستخط کئے اور گلگت بلتستان کے انتظامی امور کو پاکستان کے سپرد کر دیا لیکن حکومت پاکستان کی عدم توجہی کی وجہ سے گلگت بلتستان کو کوئی انتظامی سیٹ اپ نہ دیا گیا۔ پھر 1974 میں جب آزاد کشمیر کو پارلیمانی سیٹ اپ دیا گیا اس وقت بھی گلگت بلتستان کو اس سیٹ اپ میں شامل کیا گیا نہ کشمیریوں نے ان کے حق میں کوئی آواز اٹھائی۔ پھر جب کوئی مارشل لاء لگا تو اس خطے کو زون قرار دے کر احسان جتایا گیالیکن وہاں کے بنیادی مسائل کے حل کیلے کوئی میکنزم نہیں بنایا گیا۔

2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک ایگزیکٹو آرڈیننس کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کو ایک سیٹ اپ دیا اور اسمبلی قائم کی جو عارضی بنیادوں پر ہے۔اس نظام کے قائم ہوتے ہی گلگت بلتستان کے حکمران طبقے سمیت کچھ سیاسی حلقوں کی طرف سے کی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔

2013 میں ایک مخصوص طبقہ کی طرف سے یہ مطالبہ شدت اختیار کر نے لگا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے۔اس وقت آزاد کشمیر کے حکمران طبقے کی طرف سے صوبے کی مخالفت میں بیانات سامنے آنے لگے (جن کو گلگت بلتستان میں حقوق کی مخالفت سمجھا گیا) جو مزید دوریوں کی راہ ہموار کرنے لگے اس پر گلگت بلتستان کی طرف سے رد عمل بھی سامنے آنے لگاکیونکہ گلگت بلتستان کے عوام حقوق سے محرومی کا ذمہ دار آزاد کشمیر کو سمجھنے لگے۔

اس مختصر تمہید کے بعد موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کی قیادت اور عوام میں اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک رشتہ جو 1947 کے بعد کمزور ہوتا آیا ہے اب بھی موجود ہے اور دونوں پھر سے گلے مل سکتے ہیں۔ انٹرویوز کے دوران گلگت بلتستان کے وزیر اعلی حفیظ الرحمن ، پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد حسین ،بلاورستان نیشنل فرنٹ کے نواز خان ناجی اور جمعیت علمائے اسلام کے راہنما عطاء اللہ شہاب نے واضح اقرار کیا کہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر اور ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے اور اس کی حیثیت متنازع ہے۔

اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے صدر نے کہا کہ اب اسے پاکستان کا صوبہ بن جانا چاہئیے کیونکہ کشمیر کے مسئلے پر صرف دکانداری کی جاتی ہے اور کوئی بھی اس کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے پاس 1947 سے سیاسی سیٹ اپ موجود ہے لیکن ہمیں سیاسی حقوق سے محروم اور پسماندہ رکھا گیا کشمیر والے تو سیاسی مزے لوٹتے رہے لیکن کبھی ہمارے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھائی اور پاکستان نے بھی ہمیں ہمیں سیاسی حقوق سے محروم رکھا۔ اگر پاکستان UNCIP کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے گلگت بلتستان کو کشمیر سے جدا نہیں کرنا چاہتا توگلگت بلتستان اورآزاد کشمیر سے اپنا سیاسی سیٹ اپ کو رول بیک کرے ہمیں مکمل ریاست کا درجہ دیکر مکمل اختیارات دے جہاں ہم کشمیر کی مکمل آزادی کے لئے منظم جد وجہد کر سکیں ،آج تک کشمیری زبانی دعوی کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان ریاست کی اکائی ہے لیکن حقوق کی بات آئی ہے تو گلگت بلتستان کو حقوق نہ دینے کیلئے آزاد کشمیر اسمبلی میں قرار داد منظور ہوتی ہے اگرکشمیری قیادت حقوق دلوانے کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو پہلے معائدہ کراچی کو منسوخ کروائیں پھر ہم سے بات کریں ۔ پہلے تو پاکستان کو بیچ دیا اور اب حق جتا رہے ہیں۔

موجودہ وزیر اعلی کا کہناہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ نہیں بن سکتا ہے لیکن بنیادی حقوق ہمارا دئے جائیں۔ نواز خان ناجی کا کہنا تھا کہ پاکستان کومشترکہ کشمیر اور گلگت بلتستان کونسل بنانی چاہئیے تا کہ دوریاں ختم ہونی چاہئیے۔عطا اللہ شہاب کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں دوریاں کم ہونی چاہیں تا کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت کر سکیں۔

اسی طرح آزاد کشمیر کے سیاست دانوں بالخصوص موجودہ حکومت کے صدرسردار یعقوب اور وزیر اعظم عبدالمجید کی طرف سے جاری کر دہ بیانات پر نگاہ ڈالی جائے جس میں انہوں نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مشترکہ حکومت بنا کر صدارت اور وزارت عظمی گلگت بلتستان کو دینے کا اعلان کیا ہے ۔ سردار یعقوب نے 1947 کے بعد پہلی مرتبہ صدر آزاد کشمیر کی حیثیت سے گلگت کا دورہ بھی کیا تھا اور گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلی مہدی شاہ نے مظفر آباد کا دورہ بھی کیا تھا ۔ حکومتی سطح پر پہلے دورے تھے جو ریاست کے دونوں خطوں کے حکمرانوں نے کئے اور آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز میں بڑے پیمانے پر کوٹہ رکھا گیا ہے جس سے نوجوان نسل کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب رہنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ان سے قبل کسی کبھی حکومتی سطح پر ایسے اقدامات نہیں ہوئے تھے۔

ایسے اقدامات خوش آئند ہیں ان سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام میں غلط فہمیاں ختم ہونگی بالخصوص جو حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے حقوق میں آزاد کشمیر کے عوام رکاوٹ بنے رہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔اس سب کے باوجود کچھ عناصر کی طرف سے شدت پسندانہ طرز کے بیانات سامنے آ رہے ہیں جو پہلے سے موجود دوریوں کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو حکومتی سطح پر ایسے بیانات کا جائزہ لینا چاہئیے اور ریاست کی وحدت کیلئے ایک نکتے پر جمع ہونا چاہئیے۔

ایسے میں جب گلگت بلتستان کا یہ معاملہ عروج پر ہے پاکستان کو چاہئیے کہ وہ معاہدہ کراچی 1949کو منسوخ کر کے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ایک انتظامی یونٹ بنا کر موجودہ اندرونی خودمختاری دیں اور پورے خطے کو اسٹیٹ اسبجیکٹ رول کے تحت رکھاجائے تا کہ کشمیر کے مسئلے کو بھی نقصان پہنچے نا کسی کے حقوق مسخ ہوں تب ہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ملکر ایک حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کرسکیں گے اور پاکستان، بھارت کو بتا سکے گا کہ ہم نے اس خطے باقاعدہ ریاست کا درجہ دیا ہے۔اس کیلئے وفاق کو سب سے پہلے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے روایتی راستے کھولنے ہوں گے اور وفاق کی جانب سے استور سے تاؤ بٹ تک روایتی راستے کو کھولنے کی منصوبے شونٹھر ٹاپ پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے تا کہ 1947 کے بعد بند ہونے والا راستہ پھر سے بحال ہو سکے اور گلگت سے مظفر آباد سفر کیلئے پہلے اسلام آباد کے بجائے براہ راست مظفر آباد تک رسائی ممکن ہو۔ روائتی راستے کھولنے سے جہاں سفری آسانیاں پیدا ہونگی وہیں تجارت اور دیگر روابط سے دلوں کی قدورتیں بھی ختم ہو سکیں گی اس لئے حکومت پاکستان کو اس تجویز پر بھی غور کرنا چاہئیے تا کہ سابقہ غلطیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے