آدھا سچ

دشمن کا بھی جواب نہیں، وہ پہلے سازش کرتا ہے پھر سازش کے ایک اہم کردار کو پکڑ کر آپ کے حوالے کردیتا ہے۔وہ کردار آپ کی تحویل میںآکر بتاتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ایک کمانڈر عمر خالد بھارت کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کرارہا ہے۔ آپ اس کے بیان کی ویڈیومیڈیا کو جاری کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ آپ نے دشمن کو منہ توڑ جواب دے دیا لیکن قوم کو یہ نہیں بتاتے کہ اس منہ توڑ جواب کو دشمن نے خود آپ کے پاس بھیجا تھا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے، میں لطیف اللہ محسود کے اس ویڈیو بیان کا ذکر کررہا ہوں جو پراسرار طریقے سے پاکستانی میڈیا تک پہنچا اور کئی ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائن بن گیا۔

ایک مسلم ملک کے سفارتکار نے مجھ سے پوچھا کہ لطیف اللہ محسود کا ویڈیو بیان پاکستانی میڈیا کو کس نے فراہم کیا؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اس نے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ لطیف اللہ محسود کو افغانستان کے صوبے لوگر میں امریکی فوج نے گرفتار کیا تھا؟میں نے اثبات میں جواب دیا ، اس نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ اسے افغان انٹیلی جنس کے کچھ ا فسروں کے ہمراہ سفر کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور اسے افغان فوج کا محاصرہ توڑ کر افغان انٹیلی جنس سے چھینا گیا تھا۔ میں نے بتایا کہ یہ پوراواقعہ اکتوبر2013میں جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں سنا چکا ہوں۔ سفارتکار نے کہا کہ پھر تو تم یہ بھی جانتے ہوگے کہ لطیف اللہ محسود کی گرفتاری کے کچھ دنوں بعد حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ میں نے پھر اثبات میں سر ہلایا۔ سفارتکار بولا کہ امریکیوں نے لطیف اللہ محسود سے جو کام لینا تھا لے لیا پھر اسے آپ کے حوالے کردیا اور آپ کو یہ پیغام دیا کہ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت کرنے والوں کو ا مریکہ اپنی گرفت میں لے سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پاکستان کے راستےسے افغانستان میں مداخلت کرنے والوں پر گرفت کی جائے۔

اس نے کہا کہ پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہورہی ہے۔ افغانستان کے شہر جلال آباد کے علاقے حبیب آباد میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے کچھ اہلکار بھیس بدل کر کافی دن تک مقیم رہے اور تحریک طالبان پاکستان کے ایک گروپ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران افغان حکومت کی ایک اہم شخصیت کو خبر ہوگئی کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کے لوگ جلال آباد میں سرگرم ہیں، اس نے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، تو اسے خاموش کرادیا گیا۔ سفارتکار نے افسوس بھرے لہجے میں کہا کہ اسے پاکستان کی سلامتی بہت عزیز ہے، اسے پاکستان کے حالات پر بہت تشویش تھی وہ بار بار پوچھ رہا تھا کہ آپ کے میڈیا پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو درپیش نئے خطرات پر بحث کیوں نہیں ہوتی؟ اسے یقین تھا کہ امریکہ نے ایران کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرا کر ایک اہم ہدف حاصل کرلیا ہے، اب امریکہ کی تمام توجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہوگی لیکن آپ لوگوں کو تو آپس میں لڑنے سے فرصت نہیں۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، پاکستان کے خلاف دشمنوں کی سازشیں عروج پر ہیں لیکن اہل وطن تو اپنوں کی ا پنوں کے خلاف سازشوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے پر شک اور ایک دوسرے کے خلاف سازش نے انسانوں کو لومڑی کی طرح مکار اور بھیڑئیے کی طرح خونخوار بنادیا ہے۔ پانچ وقت کے نمازی دہشت گردوں کی درندگی سے خوفزدہ ہو کر تعلیمی ا دارے بند کئے جارہے ہیں اور دوسری طرف ان دہشت گردوں کے خلاف سچائی کو ہتھیار بنانے کی بجائے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو پاکستان میں داعش نظر آتی ہے نہ داعش کے حق میں بیان جاری کرنے والے نظر آتے ہیں، لیکن انہیں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا حکومت کے ساتھ مک مکا نظر آجاتا ہے۔ سید خورشید شاہ کو نواز شریف کی آستین میں سانپ تو نظر آجاتے ہیں لیکن وہ آصف علی زرداری کی آستین کے بارے میں اپنے ہی کہے گئے الفاظ بھول جاتے ہیں۔ زرداری صاحب ان الفاظ کو بھولنے کے لئے تیار نہیں۔

آصف علی ز رداری اور سید خورشید شاہ کے درمیان وہی معاملا ت ہیں جو وزیر اعظم نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے سید خورشید شاہ پر الزامات کے بعد زرداری صاحب کی کچھ غلط فہمیاں دور ہوجائیں ، ویسے بھی آنے والے دن صرف پیپلز پارٹی کے لئے نہیں بلکہ تمام اہل اقتدار کے لئے بہت سخت ہوں گے خواہ وہ اسلام آباد میں ہیں یا پشاور اور لاہور میں ہیں۔ اسلام آباد میں سب اچھا نہیں ہے، اسلام آباد میں کچھ دن قبل رینجرز نے ایک صحافی کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ کچھ دن بعد ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کے گھر پر بھی چھاپہ ماردیا گیا۔ اس ریٹائرڈ فوجی افسر نے رینجرز والوں سے پوچھا کہ وہ کس قانون کے تحت اسلام آباد میں چھاپے ماررہے ہیں تو رینجرز نے سوال پوچھنے والے کے دو ملازموں کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس کو حکم دیا۔اسلام آباد پولیس نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار اداروں میں مثالی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہو گی تو فائدہ ملک دشمن طاقتیں اٹھائیں گی۔ ملک دشمن طاقتوں کے خلاف نفسیاتی جنگ جیتنے کے لئے میڈیا کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔

آج کے دور میں میڈیا کی مضبوطی پارلیمنٹ اور عدلیہ کی خود مختاری سے مشروط ہے تاکہ میڈیا، قانون کے اندر رہتے ہوئے ذمہ داری کے سا تھ اپنی آزادی کا استعمال کرے لیکن صورتحال یکسر مختلف ہے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے تکلیف اور شرم محسوس ہورہی ہے کہ میڈیا صرف سیاستدانوں کی کردار کشی اور گانے بجانے کے لئے آزاد ہے۔ آپ کسی بھی طاقتور فرد یا ادارے کے طبلچی یا بھونپو بن جائیں اور وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر تک جس کی چاہیں شلوار اور پتلون اتاردیں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن آپ نے غلطی سے بھی کسی سے یہ پوچھ لیا کہ آئین و قانون صرف سیاستدانوں کے لئے کیوں ہے تو طوفان آجاتا ہے۔

یاد کیجئے !تین سال پہلے کچھ کرم فرما سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی شان میں کیسے کیسے قصید ے کشید کیا کرتے تھے۔ ان کے منہ سے نکلنے والے سگریٹ کے دھوئیں میں سے قوس قزح کے رنگ تلاش کئے جاتے تھے۔ جب سے جنرل کیانی کے ایک بھائی کیخلاف کرپشن کے الزام میں تحقیقات شروع ہوئی ہیں تو انکے کچھ پرانے قصیدہ خواں تو خاموش رہے اور کچھ نے پرانی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا شروع کردیا، یہ ہے ہماری اصلیت ۔ جس ملک کے اہل قلم و دانش ابن الوقتی اور مفاد پرستی کو زندگی کا چلن بنالیں۔ وہاں سیاستدانوں سے کیا شکوہ؟

پچھلے دنوں پشاور کے ایک معروف صحافی کو ہتھکڑی لگا کر گرفتار کرلیا گیااور کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا۔ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت پر بیچارا صحافی بھی خاموش رہا اور اس کا ادارہ بھی خاموش رہا۔ یہیں سے آپ میڈیا کی آزادی کا اندازہ لگالیں۔ میڈیا عزیر بلوچ اور پیپلز پارٹی کے تعلقات پر سوال کرنے کیلئے آزاد ہے لیکن یہ کوئی نہیں پوچھے گا کہ جب2011ءمیں پیپلز امن کمیٹی پر پابندی لگائی گئی تو لیاری میں ہر طرف جنرل کیانی کی بڑی بڑی تصاویر کس نے آویزاںکرائیں؟ کیا ذوالفقار مرزا نے عزیر بلوچ کو اپنا بھائی قرار دیکر ’’مک مکا‘‘ کا شک پیدا نہیں کردیا؟ عزیر بلوچ کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہئے لیکن اس کے سہولت کاروں کو کسی کی پسند یا نا پسند پر پرکھا گیا تو یہ اداروں کی ساکھ مجروح کرنے کے مترادف ہوگا۔ پاکستان کے گمبھیر اور پیچیدہ مسائل کا حل آئین و قانون کی بالا دستی ہے۔ تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق چلیں اور سچائی کو اپنا ہتھیار بنائیں گے تو جھوٹ، مکر و فریب ا ور سازش کا مقابلہ کرسکیں گے۔

سچائی ہی قوم کو متحد کرسکتی ہے اور غیر ملکی دشمن کو ناکام بناسکتی ہے۔ فی الحال نہ تو حکومت پورا سچ بول سکتی ہے، نہ ہی قومی ادارے سچ کو ہتھیار بنا رہے ہیں نہ ہی میں پورا سچ لکھ سکتا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے