بیچ دو اور مار دو

یاران نکتہ دان کا خیال ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بڑے پکے اور ٹھیٹھ ” کاروباری ” ہیں۔ ان کے کانوں کو ” کھول دو ” کی بجائے ” بیچ دو ” کی آواز بھلی لگتی ہے۔ جبھی تو انہوں نے عمران خان کے مطالبے "کھول دو ” پر تو کان نہیں دھرے مگر آئی ایم ایف کی خواہش ” بیچ دو ” پر پورا دھیان دے رہے ہیں۔

میاں صاحب کا تعلق برصغیر پاک وہند کے ایک بڑے کاروباری خاندان سے ہے یوں 80 کی دہائی میں سیاست میں آنے سےقبل ہی وہ ” بیچ دو ” اور ” خرید لو” کی آوازوں سے خوب آگاہ تھے۔ انہوں نے 1990 میں اپنا پہلا اقتدار سنبھالا تو "نجکاری” کی پالیسی اپنائی۔ 1997 میں دوسری مرتبہ اقتدار سبنھالا تو ” نجکاری ” کی پالیسی دہرائی اور 2013 میں تیسری مرتبہ اقتدار سبنھالا تو ان کے ہاتھ میں آئی ایم ایف نے ” نجکاری ” کی پالیسی ہی تھمائی۔تینوں مرتبہ نواز حکومت کی جانب سے نجکاری کی اس پالیسی کا مقصد بجٹ خسارہ کم کرنا اور اندرونی و بیرونی قرضوں میں کمی لانا تھا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 1990 سے لے کر 2015 تک 170 قومی ادارے تقریبا 500 ارب روپے میں فروخت کئے گئے ہیں ۔ایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں نجی ملکیت کو دیئے گئے 45 فیصد اداروں کی” کارکردگی” ویسی کی ویسی ہی ہے جیسے پبلک سیکٹر میں تھی۔ 35 فیصد ادارے پہلے کی نسبت خراب کارکردگی دکھا رہے ہیں جبکہ نجی ملکیت میں دیئے گئے صرف 20 فیصد ادارے پہلے سے بہتر کام کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک ایسے اعدادوشمار منظر عام پر نہیں آئے کہ حکومت نے آج تک جتنے ادارے نجی شعبے کے حوالے کئے ان سے حاصل ہونےو الی کتنی رقم سے کتنے غیر ملکی قرضے ادا ہوسکے ہیں لیکن ایک ” سادہ ” حقیقت یہ ہے کہ تمام تر نجکاریوں کے باوجود پاکستان کے بیرونی اور اندرونی قرضوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

ماضی میں باکمال لوگ، لاجواب سروس کا دعوی کرنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز( پی آئی اے ) آج کل نجکاری کی زد میں ہے۔پی آئی اے کی نجکاری کرنے کے فیصلے کی بڑی وجہ خسارہ بتایا جاتا ہے۔ نجکاری کا تصور بنیادی طور پر ” برا” نہیں مگر دنیا بھر میں نجکاری کے دوران شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ شفافیت میں یہ بھی شامل ہے کہ پہلے بین الاقوامی شہرت کی حامل فرم متعلقہ اداروں کا حساب کتاب اور ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کرے کہ کون کون سے ادارے ریاست کو حقیقی معنوں میں منافع دے رہے ہیں اور کون سے ادارے خسارے میں ہیں؟ کیا ان خسارے والے اداروں کی نجکاری کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ نجکاری سے پہلے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کرپشن کو ختم کر کے، مینجمنٹ کو صاف شفاف بنا کر اور اُس کے انتظامات کو بہتر بناکر اس نقصان میں جانے والے ادارے کو قابل منافع بنایا جائے۔ جب منافع کے حصول کے تمام امکانات ادارے سے ختم ہو جائیں، سو فیصد شفافیت، دیانتداری لا کر بھی کسی ادارے کو ریاست کی ملکیت میں قابل منافع نہ بنایا جاسکے تو اُس کو نجکاری کے لئے پیش کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں جن خسارے والے اداروں کی نجکاری کی جارہی ہو ان پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا اُن کے خسارے کے اسباب معلوم کر لیے گئے؟ کیاغیر جانبدار، دیانتدار، ماہر، تجربہ کار لوگوں پر مشتمل کمیٹی نے اُس کے خسارے کے اسباب کا تجزیہ کر دیا ہے؟ مگر کیا ہمارے ہاں ایسا ہوا؟ ہمارے ہاں تو یہ ہوتا ہے کہ بیچنے والے سیاسی رہنما ” کاروباری ” ہیں اور ان کے خاندان والے اور دوست احباب بھی۔ یوں وہ اپنا نیا "بزنس ایونیو” کھولنے کے لیے اُس خسارے کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور براہ راست نجکاری پر آجاتے ہیں صرف اس لئے کہ ماضی کی طرح اب کے بار بھی کوئی "اپنا” ہی خرید لے۔
ہونا تو یہ چاہییے کہ پہلے کمیٹی تعین کرتی کہ پی آئی اے کے خسارے کے اسباب کیا ہیں؟ جب اسباب کا تعین ہو جائے پھر اگلا مرحلہ ہے کہ اُن کے ازالے کی کاوشیں ہوئی ہیں یا نہیں؟ حکومت نے تو اقتدار میں آنے کے بعد ان اسباب کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ آتے ہی نجکاری کا فیصلہ کرڈالا تھا۔ ایک زمانے میں پی آئی اے ٹھیک ٹھاک کما کے دیتا رہا ہے، دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں سے تھا۔ یہ کمانے والا ادارہ تھا۔ یہ کیوں خسارے میں گیا ہے؟پہلے اُن اسباب کا خاتمہ کریں۔

جب سارے اسباب کا خاتمہ کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو چکے اور پھر بھی وہ ادارہ خسارے سے نہ نکلے اور کمیٹی یہ کہہ دے کہ نجکاری کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں پھر آپ اُس کی نجکاری کی طرف جائیں۔ ہمارے ہاں یہ دونوں کام نہیں ہو ئے۔ یہ نجکاری نہیں بلکہ "کاروکاری” ہے۔ یہ کیسا "معاشی ویژن”ہے کہ ہم اپنے قومی اداروں کو ٹھیک کرنے کی بجائے ان کو ناکارہ اور غیر منافع بخش بنا کر ان کی نجکاری کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ کیا حکومت چاہتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی بجائے ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ میاں صاحب آپکی ” تجربہ کار ” ٹیم اور اس کی "گڈ گورنس ” کا یہ بڑا ہی انوکھا فارمولا ہے۔

گزرے دنوں کی بات ہے اعلی عدالتوں نے 22 جولائی 2013ء کو ملک کے بڑے 58 اداروں کے سربراہان کی میرٹ اور شفافیت کے ساتھ تقرری کے لئے تین رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔ اس کمیشن کی تشکیل کی خبر 12 نومبر 2013ء کو تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ ابھی اُس کمیشن کو چارج لیے 2 مہینے ہی ہو ئے تھے کہ نواز حکومت نے اُن اداروں میں سے 35 اداروں کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار 14جنوری 2014ء کو کمیشن سے واپس لے کر ان کی ذمہ داریاں اپنوں کو ” نواز ” دیں اور آج انہی قومی اداروں کو جو ملک کا اثاثہ ہیں، نہ صرف بیچا جارہا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے آرڈرز کو بھی پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔

پاکستان شاید olx بن چکا ہے جس پر آئے دن آئی ایم ایف کی ایک ہی آواز آتی ہے” بیچ دو” یقینا اگر سعادت حسن منٹو آج کے پاکستان میں ہوتے تو ان کے افسانے کا نام "کھول دو” نہیں "بیچ دو” ہوتا۔ میاں صاحب کی حکومت کے پہلے اڑھائی برس تو پی ٹی آئی کے مطالبے ” کھول دو” میں گزر گئے اور آئندہ اڑھائی برس آئی ایم ایف کے مطالبے ” بیچ دو” میں گزر جاتے۔ مگر حکومت نے کراچی میں ” بیچ دو ” کا حساب مانگنے والوں کو ” مار دو” کا جواب دیکر اپنے آئندہ اڑھائی برس مشکل بنا لئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے