” سیکولر ازم ایک اجتماعی نظریہ "

سیکولر ازم کو ہمیشہ سے پاکستانی مسلم معاشرے کے لئے نہ صرف غیر ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ کفر کے مترادف بھی سمجھا جاتا ہے لیکن جہاں کہیں (انڈیا اور ترکی) سیکولر اپروچ کو بطورِاجتماعی نظریہ اپنایا گیا ہے وہاں نہ صرف سماجی اور معاشی ترقی نسبتاََ جلد ممکن ہوئی ہے بلکہ اُن معاشروں میں مذہب کو بھی پنپنے کا برابر موقع دیا گیا ہے ۔

بہر حال اس موقف سے تو اتفاق کرنا پڑے گا کہ اگر ایک طرف مذہبی طبقہ مسائل کا حل دینے میں ناکام ہے تو دوسری طرف سیکولر طبقہ بھی صرف ذہنی عیاشی تک محدود ہے اور عملی طور پر مسائل کے حل سے کوسوں دور ہے بلکہ نظریات کی جنگ میں ملائیت سے زیادہ شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ سیکولر لوگ اکثر و بیشتر مذہب سے خود کو کاٹ لیتے ہیں اور جن نظریات کو معاشرےکی ترقی کے لئے ضروری تصور کرتے ہیں اُن کے متعلق اپنے قریبی دوستوں کو بھی قائل نہیں کر پاتے ۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ سیکولر ذہن رکھنے والے لوگ عدم برداشت اور ذہنی تنگی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ قوی دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ مذہبی طبقے کو تو مذہب کا حوالہ دے کر کسی صورت اُن کی تشدد پسند ذہنیت کو لگام دی جا سکتی ہے لیکن سیکولر طبقہ تو خود کو کسی بھی قید و بند سے آزاد تصور کرتا ہے اور اپنے ذہن کو عقلِ کُل مانتا ہے جس کی بنا پر سیکولر مُلائیت کو لگام دینا ناممکن نظر آتا ہے ۔

لیکن وہ پہلو جس کی طرف آج تک توجہ نہیں دی گئی وہ سیکولر ازم کا اجتماعی پہلو ہے ۔ سیکولر ازم کی اصطلاح انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی معنی میں استعمال ہوتی ہے ، فرد عقیدہ یا نظریہ پرست ہوتا ہے اور اسٹیٹ سیکولر ۔ سیکولر ازم کا کسی مذہب کی مخالفت یا حمایت سے کوئی تعلق نہیں ۔ سیکولر ازم ایک ایسا ریاستی نظام ہے جو مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کے تحفظ ، بہبود اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ۔

جمہوریت بنیادی طور پر ملوکیت اور پاپائیت کے خلاف رد ِعمل کے طور پر وجود میں آئی تھی جس میں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں اور حکومت فیصلہ سازی کیلئے مذہبی پیشوائوں کی رائے کی پابند نہیں ہوتی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند سیکولر ازم کی حمایت کرتی ہے اور انڈیا میں جب بھی کسی مذہبی فرقے کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے توجماعتِ اسلامی پاکستان انڈیا کو سیکولر ہونے کا طعنہ دیتی نظر آتی ہے ۔

ہزاروں برس کی کوشش کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ریاستی بندوبست کی تمام صورتیں معاشرے میں امن ، انصاف اور ترقی کی راہ میں کسی نہ کسی صورت رکاوٹ بنتے ہیں ۔ انسانی ترقی کا بہترین حل یہ قرار پایا ہے کہ مذہبی امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کو ریاست کا مساوی رکن تسلیم کر لیا جائے اور مختلف الوہی یا نظریاتی مقاصد کے بجائے ریاست کو انسانوں کی دنیاوی زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ قرار دیا جائے ۔ عقیدہ انفرادی انسانی ضمیر سے تعلق رکھتا ہے اور کسی فرد یا ادارے کیلئے ممکن نہیں کہ کسی کے عقیدے کو پرکھے پس مذہب میں مداخلت یا مذہب کی بالادستی قائم کرنا یا کسی مذہب کوغلط قرار دینا ریاست کا کام نہیں ، ریاست اگر ایک مذہب کی ترویج کرے گی تو دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی حق تلفی یقینی ہے اور ساتھ ہی ترجیحی مذہب کے پیشوائوں کی ریاست میں مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے ۔

اگر آج کے مذہبی طبقے کو دیکھا جائے تو اکثر کے انگ انگ سے شدت پسندی اور مفاد پرستی ٹپکتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ مذہب بذاتِ خود شدت پسندی اور مفاد پرستی کا نام ہے ؟

یقینا جواب نفی میں ہی ہو گا ۔ ایسے ہی ہم سیکولر ریاست کے نظریئے کو یکسر مسترد نہیں کر سکتے ۔

پاکستانی سیکولر حضرات اگر نظریاتی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر رہے تو اس بنیاد پر ہم سیکولر ریاست کے ثمرات سے خود کو محروم کیوں رکھیں ؟ اسلامی تاریخ تو ہم بہت پڑھتے ہیں لیکن صرف جنگوں کی کہانیوں تک محدود رہتے ہوئے ، امن کے معاہدے تو طلباء کو اس بددلی سے پڑھائے جاتے ہیں جیسے وہ اسلام کا حصہ ہی نہیں ۔

میثاقِ مدینہ کی دوسری شق میں لکھا ہے کہ اس معاہدے میں شامل تمام لوگ امتِ واحدہ تصور ہوں گے حالانکہ اُس معاہدے میں مسلمان ، یہودی اور مشرک بھی شامل تھے ۔۔۔۔۔۔ وجہ پوچھ سکتا ہوں کہ کیوں ؟؟؟ ذرا غور فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے