عہد کا آخری تہذیبی آدمی

ابھی تو ادبی حلقوں کی فضا جدید شاعری میں خوبصورت لہجے کی شاعری کے ساتھ شہرت پانے والی نسرین انجم بھٹی کی وفات سے سوگواراور مغموم تھی اورانجمن ترقی پسند مصنفین ، حلقہ اربابِ ذوق ، اکادمی ادبیات پاکستان ،پنجابی ادبی بورڈ وکے پلیٹ فارم سے اس کی یاد کے دیپ روشن کیے جارہے تھے کہ اس دوران اس عہد کے بڑے ادیب، کہانی کار اور صاحبِ اسلوب کالم نگار انتظار حسین کی شدید علالت کی خبر سننے کوملی ۔انہیں نمونیہ کی شکایت پر مقامی نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں رہے اوراسی عالم میں عالمِ جاودانی کو سدھار گئے اور وہ آواز جسے سننے کے لیے لوگ ہمہ تن گوش ہوا کرتے تھے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ۔انتظارحسین کے انتقال کی خبر آناً فاناً پوری دنیا میں پھیل گئی اور نسرین انجم بھٹی کی وفات سے فضا میں جو بوجھل پن اور سوگواری کی کیفیت تھی و ہ مزید گہری اور گھمبیر ہوگئی ۔

انتظار حسین اپنی وضع اور الگ رنگ ڈھنگ رکھنے والی منفرد شخصیت کے مالک تھے ۔متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ کے قصبہ ڈبائی میں1925ء میں جنم لینے والے اس عظیم افسانہ نگار نے کم وبیش نوے برس عمر پائی اور 2 فروری 2016ء کو اردو دان و اردو شناس طبقے میں غیرمعمولی شہرت اور عزت وا حترام سمیٹے لاہور میں آسودہ خاک ہوا۔اپنے آبائی قصبے کے بارے میں خود ان کا کہنا تھاکہ’’ ڈبائی وہ قصبہ تھا جہاں کے کمہار بڑی نفیس چلمیں بنایا کرتے تھے اگر میں ڈبائی میں ہی رہتا تو وہاں چلمیں بناتا یا پھر یکہ چلا کر دال دلیا کرلیتا لیکن اپنے استاد حسن عسکری کے کہنے پر لاہور چلا آیا۔اس تاریخی شہر نے بھی بانہیں کھول کر ان کا یوں سواگت کیا کہ عمر بھر کے لیے اسی کے ہوگئے اور آخر اسی شہرکی مٹی کواوڑھ کر سوگئے ۔ لاہور آنے کے بعد اگرچہ انہوں نے دوبارہ ہندوستان جا کر وہاں آباد ہونے کاکبھی سوچا نہ تھا لیکن ان کی روح اور دل ودماغ پر ہندوستان کی تہذیب کے اثرات اس قدر راسخ ہوچکے تھے کہ ان کی سوچ اور فکر کا جزو لاینفک بن کر رہ گئے تھے یہی وجہ تھی کہ لوگ انہیں ’’ ناسٹلجیا کا مارا ہوا ‘‘خیال کرتے جبکہ ترقی پسند ادیبوں کی نظر میں وہ ایک ’’رجعت پسند‘‘ ، ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’ماضی کا مریض ‘‘قرارپائے ۔لیکن یہ تمام ’’ طعنے ‘‘ یا ’’خطابات ‘‘بھی ان کی سوچ میں تبدیلی نہ لاسکے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا اپنے ماضی سے تعلق اتنا ہی مضبوط اور مستحکم ہوتا چلاگیا ۔

انتظار حسین نے جس دو ر میں ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا وہ ترقی پسند تحریک کا دور تھا ۔ہر طرف اسی ادبی تحریک کا ڈنکا بج رہا تھا۔انتظار حسین پر بھی دوسرے اہل قلم کی طرح اس تحریک کابلا واسطہ نہ سہی بالواسطہ ضرور اثر پڑا ۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں کسی نہ کسی انداز میں ترقی پسند سوچ ہی دکھائی دیتی تھی ۔ انسان ، انسانیت ، انسانی آزادی،جمہوریت پسندی ، سماج اور سماج سے جڑے مسائل ومعاملات اور ظلم ، جبر اور استحصال سے پاک سماج کے قیام کی آرزو مندی ان کی تخلیقات کا موضوع زیادہ تر تھے تاہم وہ خود کو کسی نظرئے کا پابند رکھنے کے حق میں نہیں تھے ۔وہ سمجھتے تھے کہ ادیب کو کسی بھی نظریے کے کھونٹے کے ساتھ نہیں بندھا رہنا چاہیے ۔ان کے خیال میں ایک لکھنے والے کو نہ تو خود کسی قسم کی پابندی اپنے اوپر مسلط کرنی چاہئے اور نہ ہی اپنے قاری کو پابندکرنا چاہئے ،اس اعتبار سے وہ ادیب اور قاری دونوں کی آزادی کے قائل تھے ۔

انتظار حسین ایک کامیاب کہانی کار تھے ۔انہوں نے ’’نانی اماں ‘‘ سے جو قصے کہانیاں سن رکھی تھیں اور جن الف لیلوی داستانوں کو وہ پڑھ کر ان کے سحر میں مبتلا ہوچکے تھے وہ اس سے باہر نہ نکل سکے۔وہ ہندوستانی تہذیب پر بھی فریفتہ تھے اور جدید تہذیب سے بھی بے گانہ نہیں تھے۔انہوں نے دونوں تہذیبوں کے اثرات کو قبولتے ہوئے اپنی کہانیوں میں انہیں متشکل کیا ۔ابتدا میں انہوں نے شاعری بھی کی ۔انہیں غزلوں کے مقابلے میں نئی شاعری زیادہ پسند تھی وہ ن م راشد سے بھی متاثر تھے لیکن جو لطف انہیں نثر لکھنے میں آیاشاعری میں نہ آسکا۔اپنے عہد کے ایک بڑے نقاد حسن عسکری کی صحبت کے نتیجے میں تنقید نگاری بھی کی لیکن جلد سمجھ گئے کہ یہ بھی ان کا میدان نہیں ہے سو انہوں نے اس بھاری پتھر کو بھی چوم کر الگ ر کھ دیا اور فکشن کی طرف مائل ہوگئے ۔اور پھر اس میدان میں ایسے رواں ہوئے کہ بہت سو ں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ان کی آئیڈیل شخصیات میں امیر خسرو، رومی ، نظیر اکبرآبادی اور حسن عسکری شامل تھے جن سے انہوں نے فیض پایا اور اپنی سوچ ، فکر اور نظریئے کی آبیاری کی ۔

حقیقت یہ ہے کہ انتظار حسین نے اپنی تحریروں (افسانہ ، ناول ، سفر نامہ نگاری ، ترجمے وغیرہ )کے ذریعے جس انداز اور معیار کاادب تخلیق کیا اس نے اپنی حیثیت اس طور منوائی کہ اس دور کے بڑے بڑے ادیبوں کی موجودگی میں اپنا منفرد مقام ومرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ان کا اسلوب کوئی دوسرا نہ اپنا سکا ۔جوزبان انہوں نے اردو ادب کو دی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آسکی ۔جوتہذیبی رچاو ان کی نثر میں ملتا ہے وہی ان کے کالموں کا بھی طرہ امتیاز ہے ۔وہ لکھنو اور دلی کی زبان اور محاورے کو جس حسن ، خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ برتتے تھے وہ کچھ انہی کو زیبا تھا ۔انہیں بجا طورپر جدید اردو افسانے کا معمار کہا جاسکتا ہے ۔آج کے دور کے بڑے بڑے ادیبوں اور نثر نگاروں نے ان سے ہی اکتساب فیض کیا ہے ۔انتظار حسین کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ آج اردو فکشن کے میدان میں کوئی دوسرا ان کا ہمسر یا ہم پلہ نہیں پوری دنیائے ادب میں ان کا یہ مقام ومرتبہ مسلمہ ہے ۔

وہ ان چند خوش نصیب اہل قلم میں شمار کیے جاسکتے ہیں جنہیں ان کی زندگی ہی میں وہ مقام ومرتبہ اور عزت وپذیرائی حاصل ہوئی جوہمارے ہاں عمومی طورپر مرنے کے بعد ملتی ہے۔انہیں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا ۔ان کی شخصیت قدیم وجدید تہذیب کا خوبصورت امتزاج تھی وہ جدید دور میں بھی پرانی زبان وتہذیب کو سینے سے لگائے ہوئے تھے اور جدید نسل تھی کہ اس کے باوجود ان کی والہ وشیدا دکھائی دیتی تھی ۔ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش پائی جاتی تھی وہ جس محفل میں بھی ہوتے میرِ محفل ہی سمجھے جاتے تھے ۔وہ پیرانہ سالی کے باوجود گھر کے ہی ہو کر نہیں رہ گیے تھے بلکہ اپنے معمولات کو انہوں نے اسی طرح جاری و ساری رکھا حتیٰ کہ ہسپتال داؒ خل ہونے سے پہلے تک وہ متحرک اور فعال ہی دکھائی دیئے شائد یہی تھی کہ ان کے انتقال کی خبر جب آئی تو بہت سے لوگوں کو یقین ہی نہ آتا تھا۔

آخری دنوں میں انہوں نے حلقہ اربابِ ذوق کے زیراہتمام یونیورسٹی اوری اینٹل کالج میں منعقدہ ایک روزہ ادبی کانفرنس میں شرکت کی جو ان کی آخری تقریب ثابت ہوئی ۔انتظار حسین کی ادبی خدمات اتنی ہمہ گیر و ہمہ جہت ہیں کہ ان کا احاطہ آسان نہیں ہے اس پر گفتگو اور بحث ہوتی رہے گی اور اپنے ادبی سرمائے کی بدولت وہ دیر تک یاد رکھے جائیں گے۔بلاشبہ وہ ایک نابغہ عصر اور عالمی سطح پر پاکستان کی شناخت اور پہچان اور شاید عہد کے آخری تہذیبی آدمی تھے جو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے ہیں ۔

 

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے