فیاضیاں ( پانچویں قسط )

گزشتہ ماہ کے دوران تو ایسی حالت تھی کہ گویا مرغی انڈہ دینے کو بے چین ہو۔ جگہ ڈھونڈتی ہو کہ انڈہ کہاں دوں۔ کوئی ہاتھ لگائے تو پروں کو پھلا کر چونچ مارنے کو دوڑے۔ شاید اسی لئے ایک دو نہیں زندگانی کی فیاضیوں بارے ، اکٹھی چار قسطیں لکھ ماریں۔ اور پھر اگلے ہی دنوں حالت یوں جیسے ” کڑک” مرغی۔ جانے مصروفیت آڑے آتی رہی یا شاید تخلیق کا عمل ہوتا ہی ایسا ہے کہ کبھی تو بن بادل برسات اور کبھی کالے گھنے بادلوں کے بعد سفید چکمتی دھوپ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے اس دن سحری کے وقت گھر میں جشن کا سا سماں تھا۔ ہم سب بہن بھائی اعجاز بھائی کے کمرے میں جمع تھے۔ کھانے پینے کی چیزیں اکٹھی کر لی گئی تھیں۔ ہاکی میچ کے دونوں ہافس، پورے 70 منٹ، گویا سانسیں رکی رہی تھیں۔ پاکستان نے سنٹر فارورڈ حسن سردار کے خوبصورت گول کے باعث آسٹریلیا کو ایک صفر سے شکست دے دی تھی۔ گھر میں دو اخبارات جنگ اور نوائے وقت آتے تھے۔ اگلے دن اخبار میں خبر لگی تھی کہ میچ شروع ہونے سے قبل، قومی ترانہ بجنے کے بعد حسن سردار نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا رکھے تھے کہ آسٹریلوی ٹیم کا کپتان جسے پیار سے سب چارلی کہتے تھے، نے حسن سردار سے پوچھا۔۔ سردار! کیا کر رہے ہو؟؟؟ حسن سردار نے جواب دیا۔ چارلی! خدا سے دعا مانگ رہا ہوں۔ چارلی ہنس پڑا اور جیب سے کچھ نکال کر بولا” سردار! تمہارا خدا تو نظر ہی نہیں آتا،مجھے دیکھو! میرا خدا، ہر وقت میری جیب میں ہوتا ہے۔ میچ حسن سردار کے گول کے باعث پاکستان کی جیت پر ختم ہوا تو حسن سردار، آسٹریلوی کپتان کے پاس گیا اور بولا ” چارلی ! خدا نظر آیا؟؟؟

یہ 1984 کا لاس اینجلس اولمپکس تھا اور ہاکی میرا پہلا پیار،،، جو میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ گھر میں ٹی وی کی موجودگی، اسکول سے گرمیوں کی چھٹیاں اور بھائی جان اعجاز ( جو خود بھی ہاکی کبھی شوق سے کھیلتے تھے ) کی جانب سے لائیو ہاکی میچ دیکھنے کی اجازت نے، زندگی اپنے انداز سے گزارنے کا مزہ دوبالا کردیا تھا۔۔۔ پاکستان اپنے پول میں دوسرے نمبر پر رہا تھا اور سیمی فائنل میں آسٹریلیا جیسی مظبوط ٹیم کو شکست دی تھی ۔ آسٹریلیا جس کی کپتانی رک چارلس ورتھ جیسے شاندار کھلاڑی کے ہاتھ تھی اور جس میں ڈیوڈ بیل، ٹیری والش، پیٹ مور، ہیزل ہیسٹ، کریگ ڈیوس اور سب سے بڑھ کر میرے بچپن کے ہیرو ” کولن بیچ ” جیسے عظیم کھلاڑی کھیلا کرتے تھے۔ سیمی فائنل کے ٹھیک دو دن بعد فائنل میں پاکستان کا مقابلہ مغربی جرمنی سے تھا جو انتہائی سخت حریف سمجھی جاتی تھی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ روزانہ ہاکی کی پریکٹس ایک ڈیڑہ ماہ قبل گزرے رمضان سے جاری تھی۔ سال یقینا 1984 کا تھا اور میری عمر 8 برس سے کچھ ماہ زیادہ۔۔۔۔ میں اپنے محلے کی ہاکی ٹیم، جس میں دس بارہ برس سے لیکر سولہ اٹھارہ برس کے لڑکے بالے شامل تھے، کا سب سے کم عمر مگر ایکٹو ممبر تھا۔ قومی کھیل کے عروج کا زمانہ تھا اور ٹینچ بھاٹہ راولپنڈی کےا س محلے میں خدا جھوٹ نہ بلوائے ہاکی کا ٹیلنٹ بھی بہت تھا۔ محلے کا ہر بچہ خود کو حسن سردار، منظور جونیئر، حنیف خان اور کلیم اللہ سے کم نہیں سمجھتا تھا۔

اگر میں بھول نہیں رہا تو جیلے ( جمیل ) کو اس کے سنٹر ہاف نے لمبا پاس دیا تھا۔ ایک ہی جست میں جیلا ہمارے دو دفاعی کھلاڑیوں کو بیٹ کرکے ٹاپ آف دی ڈی آپہنچا تھا۔ میں اگرچہ فارورڈ لائن میں کھیلتا تھا مگر پتلی جسامت، کم وزن اور تیز رفتاری کے باعث، دوستوں میں بجلی کے نام سے مشہور تھا اور اٹیک کےفورا بعد ڈیفنس کے لئے واپس اپنے ہاف میں بھی با آسانی پہنچ جاتا تھا۔ میچ کے آخری منٹ میں جیلے کو ملنے والا لمبا پاس ہمارے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ 18 سالہ جیلا، جس کی جسامت بھی اچھی خاصی تھی، تیزی سے گول پوست کی جانب گیند لیکر بھاگا، سامنے میں تھا اور میرے پیچھے گول کیپر۔ پھر یوں ہوا کہ جانے کیسے میں اپنے سے 10 سال بڑے جیلے کے آگے دیوار بن گیا۔ جیلے نے خطرناک باڈی ڈاج دیا، اس کے کندھے کی رگڑ لگنے اور توازن برقرار نہ رکھے کے باعث میں اپنے ہی گول کیپر کے کندھوں کے اوپر سے ہوتا ہوا دور جا گرا۔ مگر اس دوران بال بھی جیلے کی پہنچ سے کئی دور جا چکی تھی۔ نیم بے ہوشی میں، بازو کی ہڈی ٹوٹ جانے کے ساتھ ساتھ جو دوسرا احساس جاگا وہ یہ تھا کہ ریفری نے وقت ختم ہونے کی سیٹی بجادی ہے اور ہم میچ بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

11 اگست 1984 کو پاکستان بمقابلہ مغربی جرمنی اولمپک ہاکی فائنل،،، میں نے اسی ٹوٹے ہوئے بازو کے ساتھ دیکھا تھا۔ مقررہ وقت تک پاکستان اور مغربی جرمنی کا فائنل ایک ایک گول سے برابر تھا۔ شیمٹ، بلوشر، فشر اور برنک مین جسے جرمن کھلاڑیوں کی موجودگی میں فتح حاصل کرنا، گویا شیر کے جبڑوں سے شکار کھینچنے کے مترادف تھا۔ مگر بالآخر ” ایکسٹرا ٹائم ” میں رائٹ آوٹ کلیم اللہ نے بال کو گول پوسٹ میں پہنچایا تو اعجاز بھائی نے مارے خوشی کے اپنے بیڈ سے اچھل کر نعرہ لگایا اور یوں بیڈ ہی ٹوٹ گیا۔ وہ ٹوٹا ہوا بیڈ ” مناسب آلڑیشن” کے بعد کئی برسوں ہمارے گھر میں یادگار کی صورت موجود رہا۔

ٹوٹے بازو اور ٹوٹے بیڈ کی یادوں کو کریدتے ہوئے ” ٹوٹی ہوئی ہاکی ” کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جو میری ماں نے نجانے کتنی بچتیں کرکے، تین برس قبل ہمارے پیپلز کالونی والے گھر میں میری ضد کو پوری کرنے کے لئے خرید کر دی تھی۔ گرمیوں کی ایک دوپہر جب میں، اسد، عاطف اور کاشف گلی میں ہاکی کھیل رہے تھے کہ میری لگائی ہوئی ایک ہٹ کے باعث، نالی کے پانی سے بھیگی گیند، ساجدہ کے ابا کو جا لگی تھی، جس کے بعد انہوں نے مجھے بے نقط سناتے ہوئے، میری ہاکی اہنے پیروں کے نیچے دبا کر توڑ ڈالی اور پھر گلی سے اچھال کر اپنے گھر کی دیوار کے اندر پھینک دی۔ میری حالت اس گھڑی انتہائی قابل رحم تھی ، شام کو جب ساجدہ، میری بہنوں سے ملنے آئی تو اس نے کالے کپڑے میں لپٹی ایک زخمی ہاکی میرے حوالے کی جسے انتہائی مہارت سے ” مچھی سلیش اور سفید سوتر ” کی مدد سے جوڑا گیا تھا اور پھر شاید مظبوطی کے لئے ساجدہ نے اپنے پرانے،کالے رنگ کے دوپٹے کو ہاکی کے اوپر باندھ دیا تھا۔ یقین کریں میری آنکھیں نہ چاہتے ہوئے بھی بھیگ گئی تھیں۔

آج 32 برس بعد،پی ٹی وی پر پاکستان سپرلیگ کرکٹ کی رنگا رنگ تقریب دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ 2016 میں ، پاکستان ہاکی ٹیم، تاریخ میں پہلی مرتبہ اولمپک کھیلنے کے لئے میدان میں نہیں اترے گی ، ایسے میں نجانے کیوں مجھے، کالے دوپٹے میں لپٹی وہ زخمی ہاکی یاد آگئی ہے۔۔۔۔۔ یقیقنا دل کا ٹوٹنا، بازو ٹوٹنے یا پلنگ ٹوٹنے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہماری ” قومی ہاکی ” ٹوٹ چکی ہے اور اسے صرف ساجدہ جیسا دل رکھنےو الا کوئی شخص، محبت سے، اپنے تن کا کپڑا لپیٹ کر ہی مرنے سے بچا سکتا ہے( جاری ہے )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے