پی آئی اے کا بحران ۔ پس چہ باید کرد

وقت نے ثابت کردیا ہے کہ حکومت کاروبارنہیں کرسکتی اور پاکستان میں تو بالکل نہیں کرسکتی ۔ کوئی احمق ہی ہوگا کہ جو پی آئی اے، اسٹیل مل اور اسی نوع کے دیگر کاروباری اداروں کی نجکاری کی مخالفت کرے۔ ترقی یافتہ دنیا میں ہر شہری مال سرکار کو اپنا سمجھ کر اس کا خیال رکھتا ہے ۔ ریاستی ملکیت کا بھی اسی طرح خیال رکھا جاتا ہے جس طرح کہ اپنی ذاتی ملکیت ہو لیکن استعمال اس کا اپنے مال کی طرح نہیں کرتا بلکہ قواعد و ضوابط کا اسی طرح خیال رکھتا ہے جس طرح کہ غیر کے مال کو استعمال کرتے وقت رکھنا پڑتا ہے ۔ مثلاً برطانیہ میں وزیراعظم اور امریکہ میں صدر بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ اپنے لئے ٹرین لیٹ کرادے یا پھر بچوں کی سیرو تفریح کیلئے سرکاری طیارہ استعمال کرلیں لیکن وہاں کا عام شہری بھی اپنے پارک،ا سکول، سڑک اور دیگر سرکاری املاک کا اسی طرح خیال رکھتا ہے جس طرح کہ ہم ذاتی ملکیت کا رکھتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے ۔ ہر وزیر، مشیر، سرکاری افسر، جج، جرنیل اور اب تو ہم جرنلسٹس بھی پی آئی اے جیسے سرکاری اداروں پر اسی طرح حق جتاتے ہیں کہ جیسے یہ ان کی ذاتی ملکیت ہو لیکن اسے اس بری طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ کسی دشمن کی ملکیت ہو۔ اب تماشہ یہ ہے کہ مغر بی دنیا سرکار کے زیرانتظام کاروباری ادارے چلانے سے تائب ہورہی ہے جبکہ ہم ابھی تک مصر ہیں کہ سرکار ، کاروبار بھی کرے ۔ حالانکہ مغرب میں حکومت کاروباری لوگوں کے قبضے میں نہیںجبکہ پاکستان میں سیاست اور حکومت دونوں کاروباری لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے ۔ گویا ہم بلے کو دودھ کا چوکیدار بنا کر دودھ کی سلامتی کے خواب دیکھتے ہیں ۔

پی آئی اے کی مثال لے لیجئے ۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ٹکٹ خریدتے وقت مجھے بتایا گیا کہ سیٹ میسر نہیں ہے ۔ پھر کسی سفارش سے سیٹ حاصل کرکے جب میں جہاز میں بیٹھا ہوں تو دیکھا کہ جہاز خالی ہے ۔ معلوم کرنے پر معلوم ہو ا ہے کہ یہ سیٹیں وزیروں، مشیروں اور جرنیلوں کیلئے بطور احتیاط خالی رکھی جاتی ہیں ۔ اسی طرح میں نے اپنے صحافیوں کے ہاتھوں پی آئی اے کے ساتھ اسی طرح کا سلوک ہوتے دیکھا ہے ۔ پی آئی اے کے کئی افسران اپنے ادارے کو تعلقات بنانے اور اپنا رعب جمانے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ اور تو اور میں ایک بار لاہور سے اسلام آباد آرہا تھا تو جہاز پینتالیس منٹ لیٹ ہوا ۔ میں نے وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے بچوں کیلئے (خود وہ نہیں تھے صرف ان کی اہلیہ اور بچی نے اسلام آباد آنا تھا) جہاز لیٹ کیا گیا ۔ میں نے اگلے روز اس پر آرٹیکل لکھا جو جنگ میں چھپا لیکن اس کے بعد بھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ اس روز جہاز کے پائلٹ نے مجھے خود بتایا کہ چند روز قبل اسی طرح ہم سے لندن میں وزیراعظم کی اہلیہ کیلئے کئی گھنٹے جہاز لیٹ کروایا گیا کیونکہ ان کی شاپنگ مکمل نہیں ہوئی تھی۔ یہ صرف پی آئی اے کا معاملہ نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں نے یہ وطیرہ بنارکھا ہے کہ اپنے خاص بندوں کو سرکاری اداروں میں اہم مناصب دے کر اور اپنے ووٹروں کو سرکاری اداروں میں کھپا کر وہ انہیں زیردام لاتے ہیں ۔ آپ کو آصف علی زرداری صاحب کی ذاتی شوگرملوں میں ایک بھی بندہ ضرورت سے زیادہ نہیں ملے گا ۔ اسی طرح میاں صاحبان کے ذاتی کاروباری اداروں میں حسب ضرورت بندوں کو رکھا جاتا ہے ۔ نہ ایک بندہ کم اور نہ زیادہ ۔ یہی معاملہ جہانگیر ترین صاحب اور پرویز خٹک صاحب وغیرہ کے کاروبارو ں کا بھی ہے ۔ لیکن سب کا ریکارڈ چیک کرلیجئے کہ جس کا جتنا بس چلا ہے اس نے پی آئی اے، ریلوے ، اسٹیل مل اور اسی طرح کے دیگر اداروں میں اپنے بندوں کو کھپایا ہے اور اب بھی کھپا رہے ہیں ۔

زرداری صاحب کی حکومت تھی تو انہوں نے اپنے چہیتوں کو نوازنے کیلئے پی آئی اے ان کے سپرد کررکھی تھی ۔ اب میاں صاحب نےبرادر ملک کے ذریعے پرویز مشرف کے ساتھ اپنی رہائی کی ڈیل میں کردار کا صلہ شجاعت عظیم صاحب کو دینا تھا تو پی آئی اے ان کے سپرد کردی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈھائی سال گزرنے کے باوجود بھی مسلم لیگ(ن) کی حکومت پی آئی اے کو خسارے سے نہیں نکال سکی۔ پی آئی اے کے ملازمین حکومت کو الزام دیتے ہیں اور حکومت پی آئی اے کے ملازمین کو ۔ پی آئی اے کے اندر آجائیں تو ایک سیکشن دوسرے کو اور دوسرا تیسرے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف پی آئی اے بطور ادارہ عوام اور فضائی دنیا کا اعتماد کھوتا جارہا ہے اور دوسری طرف ہر سال پاکستانی عوام کے ٹیکسوں کا اربوں روپے اسکے خسارے کی نذر ہورہے ہیں ۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ مجھ سمیت جس بھی پاکستانی کو اگر کوئی دوسری ائیرلائن میسر ہو تو وہ پی آئی اے کا انتخاب نہیں کرتا۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام آباد سے لندن کے ہیتھرو کو پی آئی اے کی فلائٹ جاتی ہے ۔ ٹوٹل وقت سات آٹھ گھنٹے لگ جاتا ہے ۔ اس کے برعکس امارات ائیرلائن کی فلائٹ پہلے دبئی اور پھر لندن جاتی ہے ۔ دبئی ائیرپورٹ پر تین چار گھنٹے انتظار بھی کرنا پڑتا ہے اور اس کے ذریعے جاتے ہوئے ٹوٹل ڈبل ٹائم یعنی چودہ پندرہ گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ امارات ائیرلائن کا کرایہ بھی پی آئی اے کے کرائے سے زیادہ ہے ۔ گزشتہ ماہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک، ان کی کابینہ کے نصف درجن وزراء ، اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر اور بعض اراکین اسمبلی پختونخوا حکومت کے خزانے کے پیسوں پر لندن جارہے تھے ۔ ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے پی آئی اے سے جانے کی بجائے دبئی کے راستے ، زیادہ پیسے خرچ کرکے ،لندن جانے کیلئے امارات ائیرلائن کا انتخاب کیا۔

اب پی ٹی آئی کی قیادت جو پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کررہی ہے ، سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ ان کے وزیراعلیٰ اورا سپیکر نے اپنے نصف درجن وزراء سمیت سرکاری خزانے سے سفر کرتے ہوئے اس قومی اثاثے (پی آئی اے) کی بجائے غیرملکی ائیرلائن کا انتخاب کیوں کیا ۔ حالانکہ پی آئی اے سے سفر کرنے کی صورت میں سرکاری رقم کے ساتھ ساتھ ان کا قیمتی وقت بھی بچ سکتا تھا۔ غرض پی آئی اے کی نجکاری کے سوا کوئی راستہ ہی نہیںلیکن سوال یہ ہے کہ کیا نجکاری کا یہی طریقہ ہے جس طریقے سے حکومت کرنے جارہی ہے ؟۔ اس معاملے کو چند افراد کے سپرد کرکے روایتی پراسراریت سے کا م کیو ں لیا جارہا ہے ؟۔ اگر واقعی کسی چہیتے کو نوازنا مقصود نہیں اور اگر واقعی خود یا پھر اپنے کسی بندے کو آگے کرکے خود ہی فروخت کنندہ اور خود ہی خریدار بننے والا معاملہ نہیں تو پھر ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پی آئی اے کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو بلا کر انہیں یہ پیشکش کی جائی کہ وہ خود مالک بن کر گارنٹی دیدے کہ اتنے عرصے میں پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنادیا جائے گا۔ اگر وہ یہ گارنٹی نہیں دے سکتے تو پھر اس کے معاملات کیلئے ان کے نمائندے اور تمام اہم سیاسی جماعتوں کی مشترکہ کمیٹی بنا دی جائے جو شفاف طریقے سے حل نکالے ۔ جب معاملات شفاف اور قوم کے سامنے ہوں گے تو قوم خود بخود جان لے گی کہ زیادتی پی آئی اے کی یونینز کی طرف سے ہورہی ہے ، مینجمنٹ کی طرف سے یا حکومت کی طرف سے ۔ لیکن نہ حکومت کا یہ رویہ درست ہے کہ وہ ہٹ دھرمی اور پکڑ دھکڑ سے کام لے کر زبردستی کرے اور نہ پی آئی اے یونین کا احتجاج کا یہ طریقہ درست ہے کہ جس میں وہ حکومتی شخصیات کی بجائے ان مسافروں کو تکلیف دے رہی ہے جو بے قصور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے گاہگ بھی ہیں ۔ اسی طرح حکومت کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ پی آئی اے سے وابستہ سب لوگ کرپٹ ، کام چور یا سفارشی نہیں۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں کام کرکے اس ادارے کو مشکلات کے باوجودزندہ رکھا ہے ۔ اسی طرح ان ملازمین اور ان کے بچوں کو بھی ان کے مستقبل کا تحفظ چاہئے۔ حکمران یہ سوچیں کہ یہ ملازمین غیرملکی نہیں بلکہ اس ملک کے پڑھے لکھے شہری ہیں اور یہ وہی ہیں کہ جن کے حق میں اور نجکاری کے خلاف کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ(ن) کے پارلیمنٹیرینز نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا بینر اٹھا رکھا تھا کہ جس پر جئے بھٹو کے حق میں نعرے درج تھے ۔حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی ان کی حکومت ختم بھی ہوگی اور کبھی وہ پھر اپوزیشن میں بھی آسکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے