امن کی امید،چانکیہ کے پیروکاروں سے ممکن نہیں

باچا خان یونیورسٹی میں شہید ہونے والے معصوموں کی قبروں کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بلوچستان کو ایک دفعہ پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ کوئٹہ کی سڑکیں معصوم شہداء کے خون سے سرخ ہو گئیں، خودکش حملہ آور میں ایف سی قافلے کے قریب اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا اس حملے میں دس معصوم لقمہ اجل بن گئے۔ آخر کون لوگ ہیں جو معصوم شہریوں کو مار رہے ہیں ، کون ہے جو ان دہشتگردوں کو فنڈنگ کر رہا ہے؟

پٹھان کوٹ حملے کے بعد بھارتی وزیر دفاع منوج پاریکر کا بیان کہ جنہوں نے ہمیں زخم دیا ہم ان کو بھلائیں گے نہیں جگہ اور وقت کا انتخاب ہم حخود کریں گے کی آواز ابھی ہمارے کانوں میں گونج رہی تھی کہ کوئٹہ میں معصوم شہریوں کو دہشتگردوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف پٹھان کوٹ حملے کے وقت سری لنکا کے سرکاری دورے پر تھے انہیں بھارتی ہم منصب مسٹر مودی کی کال موصول ہوتی ہے کال سننے کے بعد میاں صاحب کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آتے ہیں اور وہ بھارتی ہم منصب کو یقین دلاتے ہیں کہ حملے میں ملوث لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ ہمارے وزرائے کرام یہ کہتے تھکتے نہیں کہ ہمارا موقف بڑا مضبوط ہے پاکستان کے اندر ہونیوالی دہشتگردی میں باہر کی قوتیں ملوث ہیں، کچھ عرصہ قبل مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پاکستان میں ہونیوالے دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور ’’انکل سام‘‘ کو پیش کیے تھے لگتا ہے انہوں نے اسے دیکھے بغیر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔

سادہ سا سوال ہے کہ جن قوموں کا موقف مضبوط ہوتا ہے وہ دشمن ملک کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرتے ہیں مسٹر مودی چانکیہ کا پیروکار ہے ، ہاں وہی چانکیہ جس کے منہ میں رام رام اور بغل میں چھری ہوتی ہے۔ قارئین! چانکیہ کے حوالے سے ایک کہانی ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ جنگل میں ٹھہرا ہوا تھا شام کے وقت اپنے چیلوں کو ہمراہ لیے وہ جنگل کی سیر کیلئے نکل گیا سیر کے دوران چانکیہ کا گزر ایک خاردار جھاڑی کے قریب سے ہوتا ہے کانٹا چبنے کی دیر تھی کہ چانکیہ مارے درد کلبلا اٹھا چیلوں نے کہا کہ حضور جھاڑی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں گرو نے انہیں ایسا کرنے سے انہیں منع کر دیا ، سیر کے بعد واپس اپنی آرام گاہ میں پہنچا تو اس نے چیلوں کو شربت تیار کرنے کا حکم دیا چانکیہ نے شربت کو چکھا اور غصے کا اظہار کیا چیلے ڈر گئے اس نے حکم دیا کہ اس میں میٹھا اور ڈالو شربت لے کر وہ جھاڑی کے پاس پہنچا اور اس پر انڈھیل دیا صبح ہونے پر چیلوں کو حکم دیا کہ جاؤ جھاڑی دیکھ کر آؤ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں جھاڑی کا نام و نشان نہیں اسے چیونٹیاں تلف کر چکی تھیں۔ کہانی لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ چانکیہ کے پیروکاروں سے امن کی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے دیوانے کا خواب۔ مسٹر مودی افغانستان میں پاکستان کے خلاف زہر انگلتا ہے وہاں سے ٹویٹ کرتا ہے کہ میاں صاحب بھارت جاتے ہوئے پاکستان سے ہو کر جانا چاہتا ہوں میاں صاحب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایئرپورٹ پر استقبال کرنے کیلئے پہنچ جاتے ہیں یہ لاہور امن کی بات کرنے نہیں بلکہ میٹھا دینے کیلئے آیا تھا۔

مسنگ پرسن کا چیمپیئن ماما عبدالقدیر بلوچ کے میڈیا میں کہیں ’’مامے‘‘ بنے ہوئے تھے جو اسے انتہائی مظلوم پیش کر رہے تھے ان ماماؤں کو مسنگ پرسن کے حوالے سے واویلا کرنا تو آتا ہے لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے جب ڈالر آتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کتنے معصوم شہریوں کو خون میں نہلا دیا گیا اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ یہ بات ’’ڈیووٹ‘‘ کی سربراہ سلمیٰ محمد حسنی سے جا کر کوئی پوچھے جو ایک بلوچ خاتون ہیں جن کے والد اور بھائی ان جنگجوؤں کے ہاتھوں مارے گئے جن کے بارے میں شنید ہے کہ پڑوسی ممالک پاکستان میں دہشتگردی کیلئے انہیں فنڈنگ کر رہے ہیں۔ ان کی تنظیم کا مقصد ان افراد کی بحالی ہے جو انتہاپسندوں کے خلاف سینہ سپر تھے اور وہ پاکستان سے وفاداری کی جنگ لڑ رہے ہیں ان مظلوموں کا کیس میڈیا کو کیوں نظر نہیں آ رہا بلوچ علیحدگی پسندوں کے کالے کرتوت میڈیا کیوں بے نقاب نہیں کرتا ، تمام ثبوت اور گواہ موجود ہونے کے باوجود میڈیا کی چشم پوشی ایک سوالیہ نشان ہے۔ عالی جاہ پاکستانی عوام اور سکیورٹی فورسز اپنی جانیں وطن کی خاطر قربان کر رہے ہیں اور آپ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ۔

نامور صحافی الطاف حسن قریشی اپنی کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1986ء میں ہندوستان اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا۔1987ء میں سارک سربراہ کانفرنس ڈھاکہ میں ہو رہی تھی جنرل ضیاء الحق مالدیپ سے کولمبو آتے ہیں اور وہاں سے نئی دہلی جاتے ہیں ایک عظیم الشان تقریب میں راجیو گاندھی جنرل کا استقبال کرتا ہے ایک گھنٹے کی نشست میں جنرل اپنی دانائی اور مستقبل بینی سے پورے منظر پر اس انداز سے حاوی ہو گئے کہ وہ گرو اور راجیو گاندھی ان کا چیلا نظر آنے لگا۔ ایک معاہدے پر دستخط ہوئے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ آور نہیں ہونگے اور یہ بھی عہد کیا گیا کہ ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کا تحفظ کریں گے اس آن میں پاکستان ایک بلند مقام پر کھڑا تھا جبکہ بھارتی قیادت پر ایک ہیبت تاری تھی۔ میاں صاحب وہ تو ایک ڈکٹیٹر تھا اور آپ عوام کے منتخب نمائندے اس کی پشت پر تو کوئی نہیں تھا اور آپ کی پشت پر 20کروڑ عوام لیکن آپ گرو بننے کے بجائے چیلا نظر آتے ہیں آپ کو گرو کا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ چیلے کا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے