کاش وہ گوشہ نشین ہوگئے ہوتے

لکھنا کسی اور موضوع پر تھا مگر صبح کے اخبارات پر نظر ڈالی تو اُردو کے ایک معاصر میں غیر نمایاں طورپر اندرونی صفحات میں چھپی ایک یک کالمی خبر پر نظر پڑگئی۔ ایک ڈبہ نما خانے میں چھپی اس مختصر خبر کے ذریعے معلوم یہ ہوا کہ ایک زمانے میں بہت قدآور مانے سیاستدان، حامد ناصر چٹھہ، کی عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد امید ہے کہ آئندہ چند روز میں تحریک انصاف کے سربراہ چٹھہ صاحب کے آبائی قصبے احمد نگر جائیں گے۔ وہاں ایک بڑی تقریب کا انعقاد ہوگا جہاں حامد ناصر چٹھہ صاحب اپنے خاندان سمیت تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیں گے۔ اس شمولیت کے بدلے حامد ناصر کے کوئی قریبی عزیز قومی اسمبلی کی وہ نشست عمران خان کی دی گئی ٹکٹ پر جیتنے کی کوشش کریں گے جو پاکستان مسلم لیگ (نون) کے افتخار چیمہ کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی ہے۔

اس مختصر خبر کو پڑھتے ہوئے ماضی کے دریچے وا ہونا شروع ہوگئے۔ میرے ذہن میں آج کے لئے جو موضوع کل رات سونے سے قبل بیٹھ گیا تھا، نظرانداز کرنے پر مجبور ہوا اور یاد آنا شروع ہوگئے 1985ءکے ابتدائی مہینوں کے وہ دن جب جنرل ضیاءنے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی کو بحال کیا تھا۔ اس وقت تک تقریباََ گمنام محمد خان جونیجو کو اس ایوان کا قائد اور وزیر اعظم نامزد کردیا گیا۔ اپنے کیریئر کے لئے نئی منزلیں تلاش کرنے کی خاطر میں نے بھی اسلام آباد کے انگریزی روزنامے ”دی مسلم“ کے مدیر مشاہد حسین سید کو قائل کیا کہ مجھے اس نوزائیدہ اسمبلی کی کارروائی کی بابت ایک کالم لکھنے کی اجازت دی جائے۔ میرے کئی سینئرز بہت عرصے تک شاکی رہے کہ اسمبلی کی کارروائی کو نصابی طورپر سکھائی رپورٹنگ کی صورت سے ہٹ کر کالم کے ذریعے کیوں بیان کیا جارہا ہے اور تبصروں سے بھرے اس کالم کو اخبار کے صفحہ اوّل پر نمایاں جگہ کیوں دی جائے۔ میری خوش بختی کہ اپنی لگن سے بالآخر میں نے ان سینئرز کی آشیر باد بھی حاصل کر ہی لی۔

بہرحال محمد خان جونیجو نے کابینہ بنائی تو اس میں ایک نام حامد ناصر چٹھہ کا بھی تھا۔ یہ نام ہمارے لئے اہم اس لئے بھی ہوگیا کہ انہیں وزارتِ اطلاعات سونپی گئی تھی اور یہ وزارت ان دنوں پاکستانی اخبارات کی حتمی مدیر ہوا کرتی تھی۔ کوئی خبر یا مضمون چھپنے سے پہلے اس کا سنسر سے پاس کروانا تو ضروری نہ رہا تھا۔ ایک چیز مگراب بھی باقی تھی۔نام اس چیز کا تھا ”پریس ایڈوائس“۔ ایڈوائس کا اُردو مطلب ویسے تو ”تجویز“ ہوسکتا ہے لیکن وزارتِ اطلاعات سے آئی ”ایڈوائس“ ان دنوں حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ اس ایڈوائس کے ذریعے فیصلہ ہوتا کہ کونسی خبر کو کن فقروں اور سرخیوں کے ساتھ نمایاں انداز میں کونسے صفحے پر چھاپنا ہے۔ وزارتِ اطلاعات کی اس طاقت کو جانتے ہوئے ضروری تھا کہ محمد خان جونیجو کے چُنے اس نئے وزیر کی سوچ کا پتہ چلایا جائے۔

حامد ناصر چٹھہ میرے لئے بحیثیت رپورٹر ایک غیر معروف شخص تھے۔ میری ماں کے چند رشتے دار گوجرانوالہ کے نواحی قصبات میں آباد تھے۔ ان کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ وہاں کوئی چٹھہ خاندان بھی ہوتا ہے۔ احمد چٹھہ نام کے کوئی صاحب اس خاندان کے بڑے نامی ”جد“ تھے۔ انہوں نے سکھوں سے کئی جنگیں لڑیں۔ احمدنگر آباد کیا اور سکھوں سے بھنگیوں کی توپ وغیرہ چھینی تھی۔ اس خاندان کے ایوب خان کے زمانے میں ایک صاحب صلاح الدین اسمبلیوں وغیرہ کے رکن بناکرتے تھے۔ حامد ناصر چٹھہ ان کے فرزند تھے۔

نئے وزیر اطاعات کی سوچ کو جاننے کے لئے بھاگ دوڑ کی تو بہت ہی خوش گوار کن خبر یہ ملی کہ اپنی وزارت کا حلف اٹھانے کے بعد حامد ناصر چٹھہ دفتر گئے تو ان کی ملاقات Media Chiefsسے کروائی گئی۔ یہ لوگ سرکاری طورپر چلائے ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، سرکاری خبر رساں ایجنسی-APP-اور سب سے بڑھ کر PIDجو اخباروں کو سرکاری اشتہارات دیتی ہے کے سربراہان ہوا کرتے تھے۔ دو سے زیادہ افسران نے جن پر میں اعتبار کرسکتا تھا مجھے بتایا کہ ان سربراہان کا اجلاس شروع ہوتے ہی نئے وزیر اطلاعات نے انہیں کافی حقارت بھری طنز کے ساتھ "Media Thieves”کہہ کر پکارا۔ انتہائی درشتی سے یہ حکم صادر کیا کہ پی ٹی وی پر ان کا چہرہ نظر نہیں آنا چاہیے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن یہ ہدایت تھی کہ ”آج سے اخبارات کو کوئی پریس ایڈوائس جاری نہیں کی جائے گی۔“

خود کو ملی اطلاعات کو مزید حوالوں سے چیک کرنے کے بعد میں نے حامد ناصر چٹھہ کے اپنے دفتر میں گزارے پہلے دن کے بارے میں ایک چٹ پٹا کالم لکھا تو میرے دو سینئرز نے اسے پڑھ کر ”مروا نہ دینا“ والا رویہ اپنایا۔ بالآخر میرا لکھا کالم ایڈیٹر کے دفتر میں منظوری کے لئے بھیج دیا گیا۔ مشاہد صاحب نے فون پر صرف ”زبردست“ کے الفاظ کہے اور دوسرے دن وہ کالم بغیر کسی قطع وبرید کے چھپ گیا۔ ایک نوجوان اور ذاتی انا اور اکڑفوںمیں مبتلا ہوئے رپورٹر کی حیثیت میں مجھے پورا یقین تھا کہ نئے وزیر اطلاعات اپنے بارے میں ایسا ”شاندار خیر مقدمی“ کالم پڑھ کر خوش ہوئے ہوں گے۔ ان کے دفتر سے مجھے فون آئے گا۔ ان سے ملاقات ہوگی۔ میرے اور وزیر اطلاعات کے مراسم بن جانے کے بعد گہرے ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے۔

ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ان دنوں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہال میں ہوا کرتا تھا۔ وزراءاس راستے سے وہاں داخل ہوا کرتے جہاں سے عام لوگ اندر جایا کرتے تھے۔ دروازے بھی ”سانجھے“ تھے۔ اس لئے صحافیوں اور وزراءکا ایک دوسرے سے اکثر سامنابھی ہوتا رہتا تھا۔ میں نے حامد ناصر چٹھہ کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر ایک دو بار ان کا انتظاربھی کیا۔ ان کی نظر پڑی تو بہت اشتیاق سے اپنا اور اپنے اخبار کا نام بھی بتایا۔ موصوف مگر ہاتھوں کو اپنی پشت پر باندھے بے اعتنائی سے آگے بڑھ جاتے۔ ایک بار بھی Acknowledgeنہ کیا کہ میں نے ان کے بارے میں کیا ”شاندار“ کالم لکھاتھا۔ شکریہ وغیرہ تو دور کی بات ہے۔ ایک دن مگر اسی حامد ناصر چٹھہ کے دفتر والوں نے مجھے دیوانوں کی طرح ڈھونڈنا شروع کردیا۔

ہوایہ تھا کہ محمد خان جونیجو نے 31دسمبر1985ءکو ملک سے مارشل لاءکو باقاعدہ طورپر اٹھانے کا اعلان کیا تو اس سے قبل کابینہ کا ایک اہم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں زیادہ غور اس سوال پر ہوا کہ مارشل لاءاٹھانے کے بعد بھی کچھ وقت تک آئین میں دئیے بنیادی حقوق معطل رکھے جائیں یا نہیں۔ وزیر اعظم کا خیال تھا کہ بنیادی حقوق کی بحالی کے بغیر مارشل لاءکا خاتمہ خلقِ خدا کو بے معنی نظر آئے گا۔ وزراءکا ایک گروہ جو جنرل ضیاءکے قریب تھا بڑی شدومد سے اصرار کرتا رہا کہ مارشل لاءکا بنیادی حقوق کی معطلی کے بغیر خاتمہ ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کردے گا۔

جو وزراءاس خیال کے حامی تھے میں نے ان کے نام اور کہے کلمات اپنے کالم میں من وعن لکھ دئیے۔ وہ شائع ہوا تو ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے وزیر اعظم کو شکایت لگائی کہ ان کی کابینہ کے کچھ وزیر اس خاکسار کے ”جاسوس“ ہیں۔ جو کچھ بھی کابینہ میں زیر بحث آتا ہے مجھے بتادیتے ہیں۔ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم دوسرے وزیر تھے جو اس کالم پر بہت چراغ پا ہوئے۔

وزیر اطلاعات کی ڈیوٹی لگی کہ وہ میری Sourceکا پتہ چلائیں۔ حامد ناصر چٹھہ نے مجھے طلب کرلیا۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد سیدھا موضوع پر آئے تو میں نے صرف اتنا کہا کہ میری دانست میں آپ ابھی تک وزیر اطلاعات ہیں۔ آپ سے پہلی ملاقات کے بعد اندازہ ہوا کہ آپ کا اصل کام تو وہ ہے جو وزیر اعظم کے لئے انٹیلی جنس بیورو کو کرنا چاہیے۔

سچی بات ہے موصوف کو میری بات ہرگز بُری نہ لگی۔ فوراََ کہا بات تو میں صحیح کررہا ہوں اور میری موجودگی میں فون اٹھاکر وزیر اعظم کے سیکرٹری کوبتایا کہ ”نصرت میرے سامنے بیٹھا ہواہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کو اس کی Sourceکا پتہ چلانا چاہیے۔ میرا یہ خیال بھی ہے کہ اس کا یہ جواب بڑا ٹھوس اور معقول ہے۔ آپ IBوالوں سے کہیں کہ نصرت کے جاسوس وزیروں کا پتہ چلائے“۔ یہ کہنے کے بعد انہوں نے فون کریڈل پر دے مارا اور اپنا ہاتھ مجھے الوداع کہنے کے لئے آگے بڑھادیا۔

صبح ایک ڈبہ نما خانے میں چھپی ایک مختصر سی خبر نے مجھے حامد ناصر چٹھہ کے عروج کا زمانہ یاد دلایا۔ کاش وہ اس کا بھرم رکھتے ہوئے اب گوشہ نشین ہوگئے ہوتے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے