مذہبی سیاست عوامی حمایت سے محروم کیوں؟

گزشتہ ہفتے لاہور میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی کوئی قابل ذکر سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آئیں ۔چند جماعتوں کی طرف ’’اپنی موجودگی ‘‘ کا احساس دلانے کے لیے چھوٹے موٹے اجتماعات ، احتجاجی مظاہرے اور اسی نوع کی ہلکی پھلکی سرگرمیوں رہیں جن کی وجہ سے شہر کی سیاسی فضا میں کوئی ہلچل پیدا ہوسکی اور نہ ہی عوامی زندگی پر کوئی اثرات مرتب ہوسکے ۔گزشتہ دنوں منصورہ میں البتہ ملی یکجہتی کونسل کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا ۔کہنے کو تو یہ ’’سربراہی اجلاس‘‘ تھا لیکن اس میں صرف گنتی کی صرف چند جماعتوں ہی نے شرکت کی جن میں جماعت اسلامی ( میزبان جماعت ہونے کے ناطے) ، جمعیت علماء پاکستان (نورانی گروپ) ، اسلامی تحریک اور جماعۃ الدعوہ قابل ذکر ہیں ۔جن کے سربراہ سراج الحق، ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر ، علامہ ساجد میر اور حافظ محمد سعید نے اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کی ۔ ان کے علاوہوہ مذہبی تنظیمیں تھیں ان میں ایسی بھی تھیں جن کو شائد عوام جانتے بھی نہین ہوں گے۔دو بڑی جماعتیں مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علماء اسلام اور پیر اعجاز ہاشمی کی جمعیت علماء پاکستان نے بوجوہ شرکت نہیں کی ۔ صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر کی صدارت میں منعقدہ ملی یکجہتی کونسل کے اس ’’ سربراہی ‘‘اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف ہونے والی اندرونی اور بیرونی سازشوں کا تمام دینی جماعتیں مل کر مقابلہ کریں گی۔ اجلاس میں مطالبہکیا گیا کہ آئین پاکستان پر عمل درآمد کراتے ہوئے سودی معیشت کافی الفور خاتمہ کرے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کاانتظار کیے بغیر سابقہ فیصلوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے تمام سودی قوانین کاخاتمہ کرے۔مساجد و مدارس کے خلاف تمام غیر قانونی اقدامات بند کیے جائیں اور تمام گرفتار شدہ علمائے کرام کو فی الفور رہا کیاجائے نیز لاوڈ سپیکر پر تمام ناروا پابندیوں کا فوری خاتمہ کیاجائے۔ حکومت تعلیمی اداروں میں تبلیغ دین پر پابندی کے خاتمے کا فوری اعلان کرے ۔ حکومت واضح اعلان کرے کہ جب تک بھارت کشمیر کو متنازعہ تسلیم نہیں کرتا اور کشمیر دریائی پانیوں ، سیاچین ،سرکریک اور پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کے خاتمہ جیسے موضوعات پر با مقصد مذاکرات نہیں کرتا۔ اس سے تجارت و دیگر غیر اہم موضوعات پر کسی صورت مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ملی یکجہتی کونسل میں شامل جماعتوں نے اس عزم کااظہار بھی کیا کہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان میں مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بھرپور جدوجہد کرے گی اور اْمت مسلمہ میں تفریق و انتشار کی ہر سازش کو ناکام بنادیاجائے گا۔

اجلاس کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان تمام مقاصد کے لیے مشترکہ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا جس کی تفصیلات طے کرنے کے لیے لیاقت بلوچ کی سربراہی میں تمام جماعتوں کے نمائندگان پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان جماعتوں میں خود اتفاق نہیں ہے ۔گویا ’’یک جہتی ‘‘کونسل میں کسی جماعت کی بھی کوئی واضح ’’جہت ‘‘ نہیں ہے ۔ماضی میں انہی مذہبی جماعتوں کی طرف سے مختلف ناموں کے ساتھ تحریکیں چلائی گئیں جن کا نتیجہ یا ماْل عوامی فلاح یا ملک کی بہتری کے بجائے الٹا انتشار اور بعداعتمادی کی صورت میں برآمد ہوا ۔جس کی بنیادی اور بڑی وجہ ان جماعتوں کی قیادتوں کی دوعملی ( یا منافقانہ طرز عمل ) تھی ۔ چنانچہ جن عوام کی بیساکھیوں کے سہارے یہ بڑی بڑی تحریکیں کھڑی کرتے رہے وہی ان سے متنفر ہوگئے ۔اس کا ثبوت ان جماعتوں کی انتخابات کے موقع پر ’’عوامی مقبولیت ‘‘ سے لگایا جاسکتا ہے ۔سو ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اب عوام ایسی کسی تحریک کا حصہ بننے کو تیار نہیں جس میں مذہب بطور ہتھیار استعمال کیاجائے ، جماعتی قائدین اپنے اپنے مفادات کے بت بغلوں میں دبائے ایک طرف ہوجائیں اور عوام ایک بار پھر ٹوٹی پتنگ کی طرح لڑکھڑاتے ہوئے منتشر وپریشان پھرتے رہیں ۔سوہماری مذہبی جماعتوں کو ایسی کسی بھی تحریک کا اعلان کرنے سے پہلے ہزار بار اس کے مضمرات پر غور کرنا چاہئے ۔ان مذہبی قائدین کو اپنے کردار سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ واقعی عوام سے مخلص ہیں ان کے خیر خواہ ہیں محض دکانداری چمکانے کے لیے سیاست نہیں کررہے ۔

اس وقت کوئی بھی مذہبی جماعت ایسی نہیں ہے جس کے اپنے ایک سے زیادہ حصے یا دھڑے نہ ہوچکے ہوں ۔ظاہر ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب شخصی مفادات کا ٹکراو ہو تاہے ۔ہر جماعت کا امیر ہی اس کا مدارالمہام ہے جس کے گرد ساری جماعت گھومتی ہے اسی کی مرضی کا نام پالیسی ہوتا ہے ۔پوری جماعت ہی اسی کے نامِ نامی سے منسوب ہوتی ہے ۔یعنی وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔صرف ایک جماعت کو البتہ استثیٰ حاصل ہے اور وہ بجا طورپر یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس میں شخصیت نہیں جماعت مقدم ہے ۔شخصی فیصلے پر شوریٰ کے فیصلے غالب ہوتے ہیں ۔فرد کے مفادات کے مقابلے میں اجتماعی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی جماعت کی بدقسمتی ہے کہ آج یہ جماعت یکسوئی سے محروم ہے۔اس کی پالیسی کنفیوزڈ ہے ۔یہ ایک ہی وقت میں جس جماعت کی مخالفت میں بیانات جاری کرتی ہے اسی جماعت کی کسی دوسرے موقع پر حمایت بھی کررہی ہوتی ہے ۔قومی سیاست میں پیپلزپارٹی کو اگر مفاہمت کی سیاست لے ڈوبی ہے تو جماعت اسلامی کو’’ مصلحت ‘‘ کی سیاست لے ڈوبی ہے۔جب تک اس کی قیادت اگر مگر اور گومگو کی کیفیت سے باہر نہیں آجاتی اور قومی معاملات اور اہم ایشوز پر پوری طرح یکسو نہیں ہوجاتی جماعت بھی دوسری جماعتوں کی طرح محض بیانات کی حدتک زندہ رہے گی اور تمام حیلوں اور لیپا پوتی کے باوجود عوامی حمایت اور ہمدردی سے محروم ہی رہے گی ۔

جہاں تک دوسری مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے ان میں بھی الاماشاء اﷲ اس سے مختلف صورت حال نہیں ہے۔مولانا فضل الرحمان قومی سطح پر سیاست کرتے ہیں عوامی سطح پر مگر انہیں وہ قبولیت حاصل نہیں جس کا ان کی جماعت خود کو حقدار تصور کرتی ہے ۔پنجاب میں تو ابھی تک یہ جماعت اپنے قدم نہیں جما سکی ۔ جمعیت علما ء پاکستان اس وقت تک ایک عوامی جماعت تھی جب تک اس کے قائدین میں مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی جیسی قد آور شخصیات موجود تھیں ۔لیکن جونہی یہ شخصیات اس دنیا سے اوجھل ہوئیں ان کے ’’سیاسی ورثاء ‘‘نے اس ناخلف اولاد کا کردار ادا کیاجو والدین کی وفات کے بعدان کے جائیداد ہتھیانے کے لیے آپس لڑجھگڑ پڑتے ہیں اور جو جس کے حصے میںآئے اسی کے مالک بن کر خود کو والدین کا ’’اصلی وارث ‘ ‘ کہلوانے لگتے ہیں ۔ یہی حال اہل حدیث جماعتوں کا ہے۔ کہ ان کی تعداد بھی انگلیوں پر نہیں گنی جاسکتی ۔ مجلس وحدت مسلمین اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اپنے اپنے طورپر شیعانِ علی کی نمائندگی کی دعویدار ہیں ۔لیکن ایک دوسری سے کد رکھتی ہیں ۔ان حالات میں ملی یکجہتی کونسل ملک کی موجودہ ابتر صورت حال میں عوام کی قیادت اور رہنمائی کا فریضہ کیونکر انجام دے سکتی ہے ۔ اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ۔لہذا کوئی بڑ اقدم اٹھانے ( یا اعلان کرنے ) سے پہلے ضروری ہے کہ یہ تمام جماعتیں ایک بار اپنے کردار کا تنقیدی نقطہ نظر سے جائزہ لیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں تاکہ عوام کے لیے رول ماڈل بن کر قومی سطح پر کوئی قابل ذکر کردارادا کرسکیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے