ہمارے ناز اٹھانے والا احسن اختر

“اوئے تحفے! کیا کر رہے ہو؟”

پنجاب یونیورسٹی ادارہ ابلاغیات کے کمروں، برآمدے یا سبزہ زار میں جب یہ جملہ گونجتا، سننے والوں کے چہروں پر مسکراہٹ سی دوڑ جاتی۔ یہ طرز تخاطب عموماً ازراہ تحقیر اختیار کیا جاتا ہے، لیکن احسن اختر ناز صاحب کسی سے محبت کرتے تو یوں بلاتے۔ اسی لیے سننے والا خوشی سے پھولے نہ سماتا۔
کہنے کو وہ ادارہ ابلاغیات کے استاد تھے، لیکن سبھی طالب علموں کو دوست بنا کے رکھتے۔

ایک دفعہ ہم نے کلاس میں کوئی غیر ضروری سا سوال پوچھ لیا۔ کہنے لگے، دیکھو بھئی نوجوان! جیسے ہر مکینک انجینیئر نہیں ہوتا، اسی طرح ہر عینک لگانے والا دانشور نہیں ہوتا۔ ہم اپنی عینک کے زور پر دانشوری کے آسمان پر اڑ رہے تھے، دھڑام سے زمین پر آ رہے۔
اس واقعے کے بعد سے ہمارا اسٹیٹس تحفے سے اپ گریڈ ہو کر دانشور ہو گیا۔

ہماری ایک کلاس فیلو شیخوپورہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کو بلانا ہوتا تو آواز لگاتے، او شیخوپورے!

وہ پڑھ لکھ کر پڑھانے بھی لگ گئیں تو طرز تخاطب یہی رہا۔ ایک دفعہ وہ کلاس کو پڑھا رہی تھیں۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز نے کلاس روم کا دروازہ کھولا، انہیں پڑھاتے دیکھا تو کہنے لگے، او شیخوپورے! کیا کر رہی ہو۔

نوکری پر لگنے کے بعد بھی ادارہ ابلاغیات کا چکر لگتا تو ناز صاحب ہماری ناز برداری کرتے۔ محبت سے ملتے، حال احوال پوچھتے۔
سبھی کو یہ لگتا کہ احسن اختر صاحب اسی کو عزیز رکتھے ہیں۔ اور تھا بھی یہی۔ احسن اختر صاحب سبھی کے ہی ناز اٹھاتے تھے۔

ملاقاتوں میں تواتر اس وقت آیا جب ہم نے پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا۔ اب ہفتہ وار وہ ہماری کلاس لیتے۔ پی ایچ ڈی کی کلاس میں بے تکلفی کچھ مزید سوا ہو گئی۔ گاہے وہ ساری کلاس کو چائے بھی پلاتے۔ جب ادارے کے سربراہ بنے تو تاخیر سے آنے والے اساتذہ (جن میں زیادہ تعداد خواتین اساتذہ کی ہوتی) پر ان کی موجودگی میں جملے چست کرتے۔ جو دل میں ہوتا، اسے زبان پر لانے میں کبھی تامل نہ کیا۔ اور بارہا اس کی قیمت بھی ادا کی۔

ایک موقع پر وہ محفل میں موجود افراد پر طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے تھے۔ ماحول کی بے تکلفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے جملہ چست کیا، احسن اختر ناز صاحب، جب آپ کے بیٹوں کی شادیاں ہوں گی، تو بہو کے لیے ساس کا کردار آپ ادا کریں گے۔ بلند ہونے والے قہقہوں میں سب سے اونچا قہقہہ ناز صاحب کا ہی تھا۔ کیوں کہ وہ مذاق کرنے کے ساتھ ساتھ اسے سہنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔

ہماری پی ایچ ڈی بھی غم روزگار کی نذر ہوئی۔ ایک دن خبر ملی شوگر بری طرح احسن اختر ناز صاحب پر حملہ آور ہوئی ہے۔ ہم نے خبر گیری کا ارادہ کیا اور پھر آنے والے کل تک کے لیے ٹال دیا۔ پھر معلوم ہوا شوگر کی وجہ سے ٹانگ بھی کاٹنا پڑی ہے۔ پوچھنے کے لیے جانے کے ارادے باندھے، اور توڑ ڈالے۔ آخر کو خبر ملی کہ ہمارے احسن اختر ناز صاحب اب ہر قسم کی عیادت سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔
میٹھا آدمی تھا نا، شوگر کے ہاتھوں ہی مارا گیا۔

ہمیں یقین ہے موت کا فرشتہ جب جان قبض کرنے آیا ہوگا تو احسن اختر ناز صاحب نے مسکرا کر پوچھا ہوگا، “اوئے تحفے! آ گئے ہو؟”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے