ہم کہنہ مشق بھکاری

سرخ گلاب تو سارا سال ہی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ بکتے نظر آتے ہیں ہر سگنل پر کھڑے لڑکے بچے ہر آنے والی گاڑی میں دوڑ کر جاتے اور گاڑی میں موجود صاحب یا صاحبہ کو اپنے ہاتھ میں موجود پھولوں کا خریدار بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ۔ مگر یہ کیسا گلاب ہے یہ کیسا سرخ رنگ ہے جسے دیکھ کر ہی کراہت آنے لگتی ہے ہر جانب دل کی شکل کے سرخ غباروں کی بہتات ساتھ سفید ٹیڈی بئیر ۔۔ ہوٹلوں میں سرخ رنگ کی سجاوٹ کے ساتھ کمروں کی بکنگ کے ڈبل کرایئے۔۔۔ پچھلے سال کی اک رپورٹ میرے سامنے ہے اور جسے لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں ۔۔۔۔۔
اعداد و شمارہیں یا "عزتوں کے جنازے "!
پڑھیے اگر ہمت ہے تو، سر اٹھا کر ارد گرد نظر ڈالئےکہیں ان میں کوئی اپنا تو نہیں۔۔۔!!

"پورا سال میں حمل روکنے والی ادویات سب سے زیادہ 14 فروری کو سیل ہوئیں۔ 14 فروری کو کسی سستے اور مہنگے ہوٹل میں کمرہ خالی نہیں تھا ۔۔۔۔ 400 سو غیر شادی شدہ جوڑوں کی ویڈیوز ایک پورن ویب سایٹ نے 22 کروڑ میں خرید لیں ۔۔ آہ ۔۔۔!!

یہ کیا فتنہ ہے جس نے ہماری روایات واقدار پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ہم اپنی نسلوں کو اس وار سے بچاتے بچاتے بھی پور پور زخمی ہوئے جارہے ہیں ۔

یہاں معاملہ صرف لبرلز کا نہیں کہ جن کو لنڈے کے کپڑوں سے لیکر انکی ہر گندی روایت کو قبول کرکرکے ویسے ہی فخر ہونے لگا ہے جیسے کوئی ٹھیلہ لگانے والا باہر کسی بڑے برانڈ کا (لنڈےکا ) کوٹ پہن کر اکڑ کر چلتا نظر آئے، اپنی تئیں وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ وہ اتنا مہنگا کوٹ افورڈ کرسکتا ہے ۔۔ جبکہ اسے دیکھنے والا ایک نظر میں یہ بھانپ جاتا ہے کہ یہ لنڈے کی مہربانی ہے۔ یہی حال ان لبرلز کا ہے کہ یہ مسلمانوں کی ہر روایت اور اقدار کو یہ کہہ کر ٹھکرا دینے والے ہیں کہ بھائی ان کی اور ہماری جغرافیائی سرحدوں سے لے کر معاشرتی اقدار تک سب کچھ الگ ہے تو پھر ہم انھیں کیوں اپنائیں۔۔ ہاں مگریہی لبرلز مغرب کی ننگی تہذیب کے اک اک جز کو اپناتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے، نہ انہیں اس وقت کوئی سرحدی یا معاشرتی حدیں اس سے روک پاتی ہیں ۔۔۔۔ مگر دکھ یہی نہیں کہ یہاں تو اچھے اچھے گھرانوں کے بچے یہ کہتے نظر آتے ہیں کیا ہوگیا اگر ایک پھول اپنی دوست کو دے دیا ، کیا ہواکہ آج بیوی کو اک سرخ پھول لادیا ۔۔۔۔ اس تہوار کے بہت سے تاریخی پس منظر بیان کیے جاتے ہیں مگر ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو حیاء سے عاری نہ ہو اور نوجوان نسل کو بے راہ روی کے ترغیب نہ دیتا ہو مگر ہماری نوجوان نسل جو اپنی عید کا پورا دن سونے میں گزارتی ہیں مگر اس تہوار کو وہ بہت ہی اہتمام کے ساتھ مناتی ہے ۔ اس وبا نے جیسے آج ہمارے پورے معاشرے میں اپنے پنجے گاڑے ہیں کہ آج ہمارے تعلیمی ادارے تک اس سے محفوظ نہیں ۔۔

آج ہر سکول ،کالج ،یونیورسٹیوں میں منایا جانے والا بے غیرتی کا یہ تہوار ایک مسلم معاشرے کے لیے زہر قاتل کی طرح ہے اور نوجوان نسل ہی کیا اب تو معصوم ذہنوں کو بھی پراگندہ کرنے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی چاہے اسکول جو ماں کی گود کے بعد بچے کی تربیت اورشخصیت سازی کی اہم ترین جگہ ثا بت ہوا کرتے تھے استاد جن کو روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے کہ یہ انکے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ وہ بچے کو ہر برائی سے روکیں اور اس میں اچھائیاں پیدا کریں مگر یہ کیا ۔۔۔۔۔آج کے استاد نے صرف اپنا اولین مقصد چھوڑ دیا ہوتا تو بھی اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر اس نے تو اپنی راہ ہی بدل لی اور راہوں کے بدلنے کا کفارہ من حیث القوم دینا پڑ رہا ہے۔ جن قوموں کی تقلید میں ہم اپنا دین ، ایمان ، غیرت ، حیا سب داوٴ پر لگا دیتے ہیں وہ پھر بھی ہمیں قبول نہیں کرتی اور سب کچھ کھو کر بھی ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔۔۔
مجھے میرے دعوے عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا

مائیں پریشان کہتی نظر آتیں کہ کیا کریں، کہاں لیکر جائیں بچوں کو، کیسے بچائیں اور کہاں کہاں بچائیں؟ میرا بچہ تیسری جماعت میں پڑھتا ہے اور عام سا سکول ہے مگر ویلینٹائین سے ایک دن پہلے سکول سے آکر کہنے لگا ًامی کل مجھے لال شرٹ پہن کر جانی ہے اور ایک پھول لے کر جانا ہے، بولیں!
میں نے حیرانی سے پوچھا:’’ کس لیے بیٹا ؟‘‘
’’امی! ہماری ٹیچر نے کہا ہے کل کلاس میں وہ ویلنٹائین ڈے منائیں گے،وہ کپل بنائیں گی اور مجھے اپنی کپل کو پھول دینا ہے‘‘
وہ خاتون تو اپنا دکھ بیان کر گئیں مگر مجھے لگا کہ ہم ایک ایسی گہری کھائی میں گر رہے ہیں جس کی پستی کا ابھی اس وقت شاید کسی کواندازہ نہیں یا کرنا نہیں چاہتے مگر جب آنکھ کھلے گی تو وقت گزرچکا ہوگا ۔ ہمارا نام نہاد آزاد میڈیا ہے جہاں ہر چینل پر بیٹھے غیرت سے عاری جوڑے ہوں جو ایک طرف خاندانی نظام کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو دوسری طرف آنے والی نسل کو اخلاقی بانجھ پن کا شکار کر رہے ہیں یا وہ خودغرض سرمایہ دار ہوں جو اپنا کثیر سرمایہ بے حیائی کی ترویج کے لیے اس تہوار پر لگاتے ہیں جن کی بدولت بڑےشاپنگ مالز سے لےکر گلی محلے کی دکانوں میں بھی ویلنٹائن کے کارڈز ہوں، دل بنے غبارے ہوں یا پھول ہر طرف سرخ رنگ کی بہتات نظر آ تی ہے اور ہر ایک کے لیے اسکو منانا اتنا آسان کردیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر ایک کے دروازے تک پہنچا دیا تو بے جا نہ ہوگا جس نے پورے کے پورے معاشرے کو بے حیا بنا دیا ۔

دنیا کے کسی ملک میں اتنی کوریج اور اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کہ ہمارے ملک میں، کیوں؟ ہم تو وہ کہنہ مشق بھکاری ہیں کہ جو غیروں کی اندھی تقلید میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔ اگر اسی پر ایک نظر ڈال لیتے تو شاید حیا اور شرم یہ سب منانے سے روک دیتی ۔

اس تہوار کے منانے والے اللہ کے نبیﷺ کی اس تنبیہ کو یاد رکھیں۔ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہےوہ انہی میں سے ہے۔ (ترمذی ، مسند احمد50) سنن ابوداؤد 4021( چونکہ شیطان کا پہلا وار ہی انسان کی حیا پر کیا گیا تھا اور اسی لیے رب نے خود بنی آدم کو تنبیہ کی تھی کہ اے اوﻻد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کوجنت سے نکلوادیا۔ ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وه ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وه اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو۔ ہم نے شیطانوں کو انہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں ﻻتے۔ (سورۃ الاعراف) فرمانِ نبویﷺ ہے : “جب تم حیا نہ کرو تو جو تمہارا جی چاہے کرو۔” (بخاری)ً اس لیے کہ حیا ایمان کی ایک شاخ قرار دی گئی اور حیا اور ایمان دونوں کو لازم و ملززم قرار دے دیا گیا اور واضح کر دیا گیا کہ جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے ۔

پس ثا بت ہوا کہ حیا ہی وہ فرق ہے جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتا ہے اور جب حیا نہ رہے تو انسان کو حیوان بنتے دیر نہیں لگتی،رشتوں کا تقدس و احترام سب جاتا رہتا ہے۔ نام نہاد روشن خیال لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ محبت کا دن ہے اور اسے ضرور منانا چاہیے تو ان کے لیے یہ ایک اہم خبر ہے کہ اسلام کی تو بنیاد ہی محبت و اخوت پر ہے اس میں تو سال کا ہر دن محبتوں سے لبریز ہوتا ہے۔ ہاں بس فرق اتنا ہے کہ اسلام جائز رشتوں، جائز طریقوں سے محبت کا حکم دیتا ہے اور ہر لمحے کے لیے دیتا ہے سال میں صرف ایک دن کے لیے نہیں ۔

ہاں کچھ حدیں اللہ نے خود متعین کی ہیں ، یہ کرنٹ وائیرز کی طرح ہیں جن کو چھونے کو ہی منع نہیں کیا گیا بلکہ ان کے قر یب سے بھی گزرنے سے روک دیا گیا اور وعید سنا دی گئی ارشاد ربانی ہے : “اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔(النور: 19۔ یہی وہ حدود ہیں کہ جن کو توڑنے کے نتیجے میں رب نے ہم سے پہلے کی قوموں کے بارے میں ارشاد فرمایا ً اورآخر کار اس دنیا میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا، سنو! دور پھینک دیے گئے عاد، ہودؑ کی قوم کے لوگ ۛ جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے ۔ سنو ! مدین والے بھی دور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے ﴿ سورہ ہود﴾

یہ وہ سورتیں تھیں کہ جن کے نزول کے بعد آپﷺ کے بالوں میں یکدم سفیدی نظر آئی تو حضرت ابو بکر رضہ نے دریافت کیا ؛ یا رسول اللہ کیا وجہ ہیکہ آپ کے بالوں میں اتنی سفیدی ۔۔۔۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ” ابو بکر مجھے یونس اور ہود نے بوڑھا کردیا ہے ۔” یہ سورتیں اللہ کی نافرنی کرنے اور اپنی من مانی کرنے والی قوموں کے خوفناک انجام کا پتہ دیتی ہیں اور وعید ہے کہ جب اللہ کی حدود کو کھلم کھلا توڑا جائے تو نتیجہ کیا ہوتا ہےاس لیے کہ رب کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی اس سے پہلے کہ اس قوم کے دور پھینک دینے کا فیصلہ کر دیا جائے اور توبہ کی مہلت بھی نہ مل سکے ہمیں پلٹنا ہوگا رجوع کرنا ہوگا ایسا نہ ہو کہ ہمارا ذکر بھی نہ ہو داستانوں میں فیصلہ کیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم الله تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوجائیں اور آنے والی نسلیں ان ایام کو سوگ کے دن قرار دینے پر مجبور ہو جائیں ۔۔۔۔!

یاد رکھیے !! جو قومیں اپنی اخلاقی اقدرا کی حفاظت نہیں کرنا جانتی اور اغیار کی ہر گندی روایت کو اپنانے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتی وہاں کی نئی نسلیں پھر محمد بن قاسم جیسے بیٹے اور فاطمہ بنتِ عبداللہ جیسی بیٹیاں نہیں بلکہ ۔۔۔ وہ قومیں معصوم کچی عمروں میں خود کشیاں کرنے والے نوروز اور فاطمہ پیدا کرتی ہیں ۔۔۔ یا پھر ان کی عزتوں کے جنازے پورن سائیٹس کی زینت بنتے ہیں ۔۔۔!! آپ نے ان میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے !!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے