پاکستان میں روزانہ ہونے والے خاموش قتل

اگر یہ خبر میڈیا پر آئے کہ ایک ٹریفک حادثے میں 20 خواتین جاں بحق ہوگئیں تو یقینا یہ خبر بریکنگ نیوز کی طرح نشر ہورہی ہو گی ۔ خبر کے ہر پہلو پر کام ہو رہا ہے۔ میڈیا ٹیم جائے وقوعہ، اسپتال اور مرنے والوں کے گھروں اور قبرستان تک ہر جگہ موجود ہوں گے ۔

شام کے وقت ٹاک شوز میں اس کا مزید پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہو گا اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف ، حکومت کے خلاف لتے لیے جا رہے ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر یہ خبر آئے کہ پاکستان میں روزانہ 20 خواتین ایک خاموش قتل، سروائیکل کینسر سے مرجاتی ہیں تو یہ سب اللہ کی مرضی پر ڈال کر دل کو تسلی دی جائے گی اور ان اداروں کی سرد مہری پر مٹی ڈال دی جائے گی۔ یہ کینسر ہماری ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی کا قاتل ہے۔ خواتین جب زچگی میں جاتی ہیں تو یہ کینسر ان میں پیدا ہوتا ہے اور چھپا رہتا ہے۔ کچھ کیسز میں اس کینسر کی تشخیص ہوجاتی ہے اور ہمارے آس پاس زچگی میں بڑے آپریشن کا ذکر بار بارسننے کو ملتا ہے۔ یہ بڑا آپریشن دراصل پیچیدگیاں ہیں جو اس کینسر کے سبب ہیں۔

ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کینسر کی تمام اقسام ہی بہت تکلیف دہ ہیں لیکن اس کینسر کی تکلیف اتنی کہ لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتی۔ چوں کہ ایک حساس معاملہ ہے اس لیے ہماری خواتین اس کی تکلیف کا صحیح سے اظہار بھی نہیں کر پاتیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ بیماری ہمارے معاشرے میں مرد ہی خواتین کو دیتے ہیں۔ ایسے مرد جو اپنے جیون ساتھی تک محدود نہیں رہتے وہ یہ بیماری ایسی ہی خواتین سے لے کرآتے ہیں اور اپنے گھروں میں اپنے جیون ساتھی میں منتقل کردیتے ہیں۔ یہ سروائیکل کینسر ایک وائرس ایچ بی پی کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی حیران کن ہے کہ چونکہ یہودی خواتین میں یہ بیماری سب سے کم ہے یوں سمجھئے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہودی خواتین اور مرد اپنے جیون ساتھی تک محدود رہتے ہیں اسی لیے ان کی خواتین اس خاموش قاتل سے محفوظ ہیں۔ پاکستان دنیا کے 10 بڑے ملکوں میں شامل ہے۔ خطرے اور خدشے کی بات یہ ہے کہ جن خواتین میں اس کینسر کی تشخیص ہوجاتی ہے ان میں سے 60 فی صد زندگی کی بازی ہار بیٹھتی ہیں۔ پاکستان کے اطراف میں بھارت، بنگلہ دیش، چین، انڈونیشیا اور دیگر ایشیائی ملکوں میں یہ بیماری زیادہ ہے۔

گزشتہ دنوں ایک تحقیق بھی زیر مطالعہ آئی جس کے مطابق گزشتہ دس سال میں صرف یورپ میں ڈھائی سے تین لاکھ خواتین مر چکی ہیں جہاں طبی تشخیص اور علاج بہت بہتر ہے۔ ہمارے ہاں نہ تو تشخیص ہے، نہ علاج کرانے کا رجحان، نہ ادویات اور علاج معالجہ کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت، اسی لیے خاموش قاتل دندناتا پھر رہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا جائے، جن بچیوں کو ہم پھولوں کی طرح پالتے ہیں، پڑھاتے ہیں، سلیقہ سکھاتے ہیں، تہذیب اور تربیت دیتے ہیں، ان بچیوں کو اس قاتل کے حوالے کیسے کردیں۔۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کے لیے آسان ویکسی نیشن ہے جو کہ دو مرتبہ لی جائے تو اس بیماری سے ہماری پھول جیسی بچیاں محفوظ رہتی ہیں۔ اس ویکسی نیشن کے لیے نوعمر میں دو ویکسی نیشن لی جائیں تو خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوجائے گا۔ ہم اپنی بچیوں کی خوشیوں کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں تو ان کی زندگی کی محفوظ بنانے کے لیے بھی اس کی ویکسی نیشن کرائیں جس کی لاگت نو سے دس ہزار روپے ہے۔ ویسے تو یہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن ہماری حکومتیں تھر کے بھوک سے بلکتے اور سسکتے بچوں کے لیے کچھ نہیں کرسکتیں تو وہ اس طرح کی ویکسی نیشن پر کیا خاک توجہ دیں گی ہیں۔ اپنی مستقبل کی ماؤں کو بچائیں۔ احتیاط اور علاج سے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے