کہاں چل دیئے ؟

تہذیب کے جنازے کو کندھا دینے سے روایات کی بیل کو کیکر پہ چڑھانے تک کا بہترین کام ”پیکجزاور ایونٹ “ کی صورت میں انجام دیا جارہاہے ۔سوشل میڈیا کی آزاد دنیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا کی بے لگام دنیا نے گذشتہ کچھ برسوں سے جانے انجانے میں مغربی تہذیب کو مشرقی معاشرے پرفوقیت بخشی ہے جس کا تیزی سے سماج پراثر انداز ہونا کسی المیہ سے کم نہیں ہے ۔کسی بھی سماج میں فکرو خیالات کانام تہذیب اوراس تہذیب کا عملی نمونہ صورت تمدن ٹھہرا اور یوں اس تمدن کے نتیجہ ثقافت وکلچر پروان چڑھتا ہے۔ماضی میں اسلامی و مشرقی تہذیب سے معاشرے میں اخلاقی وروحانی قدریں پروان چڑھ رہی تھیں۔مثبت سرگرمیوں کو فروغ بھی مل رہا تھا ‘ رشتوں کے تقدس کی اہمیت بھی تھی ۔

دو ہزار کی دہائی کے ابتدایئے نے کروٹیں بدلنا شروع کی ویسے ویسے الیکٹرانک میڈیا میں جان آتی چلی گئی ‘جس کے بعد ویلنٹائن ڈے ‘بسنت ’میراتھن ‘کیٹ واک جیسی بے شماررسومات ہمارے سامنے ایک کلچر کی صورت میں نمودار ہونے لگیں ۔سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کانفرنسز منعقد کی جانے لگیں ‘پروگرامات منعقد کئے جانے لگے ۔این جی اوز کا سہار لیا جانے لگا۔خصوصا ایسی این جی اوزکواستعمال میں لایا گیا ‘جن کے مالکان بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاسی رہنما یا بیوروکریسی کی کرسی کا برجمان کوئی تگڑا شخص نکلتا ہے ۔جس کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا اس ”ایونٹ “پر پیکجز بنا کر اورمارننگ شوز منعقد کرلیتا ہے اوراخبارات کی دنیا میں ”ایونٹ “مس نہ ہونے کی دوڑ میں ایسے پروگرامات کی خبریں چھاپ کر اپنا سر بھی بلند اور حاضری یقینی بنا لیتے ہیں ۔یوںغیرمحسوس انداز میںہم اپنی ہی ثقافت ‘تہذیب اورمشرقی ماحول کے جنازے کو کندھا دیتے ہوئے مغرب کے قبرستان میں داخل ہوجاتے ہیں ۔

اس سے زیادہ قمست کودوش کب دیا جائے کہ مغرب ابھی تک ہمیں یہ نہیں بتا کہ سکا کہ نہ ہی خود ان کا اس بات پر متفق ہے کہ ویلنٹائن ڈے “کی وجہ تسمیہ کیا ہے ۔اس پر کو ئی بحث باقی نہیں رہی کہ ہمیں بحثیت انفرادی دنیا کی طاقتورانسان ثابت ہوسکتے ہیں مگر ہمیں بحیثیت قوم ”میڈیا “چند لمحوں میں چٹنی چورن کی طرح بیچ کر پتلی گلی نکل لیتا ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی ۔ میڈیا ہمیں انٹرٹیٹمنٹ کے نام پر جس انداز میںہماری ثقافت کو کھوکھلا کررہاہے اس پر مستقل ریسرچ ورک کیا جاسکتا ہے ۔ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے اس یوم کی تاریخ ‘تہوار ،رسم ورواج کو تحریف درتحریف کے عمل سے گزر کر تاریخ میں ایک شرمناک رسم کا حصہ بن گیاہے ‘ جن کی عملی ،عقلی اور فکری بنیادیں ابھی تک مغرب تلاش کررہاہے۔

مغرب کا میڈیا یہ کبھی نہیں بتا سکا کہ مغربی ممالک کے کسی شہر میں یہودیوں اور عیسائیوں نے روزے رکھ لئے ‘عیدین کو منایا ‘زکواة دی ‘نماز پڑھ لی ‘سندھیوں ‘پنجابیوں ‘پھٹانوںاور بلوچوں کے کلچر کو اپنایا ہو ۔مغرب کی چال اور میڈیا کی ڈھال نے ہمارے حلیوں کو دہشت کی علامت تو بنا ڈالا ہے جسے ہم خود اپناتے ہوئے عا ر محسوس کرتے ہیں ۔ہماری ناکامی پر ان کی کامیابیوں کے خطوط استوار ہورہے ہیں ۔ہم مغرب کے نقشوں میں رنگ بھر کر خود کے قد کو بڑھا نے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں اس مصروفیت کا نتیجہ بعینہ یہ نکلتا ہے کہ پتھر پھسلتا ہے اور ہوش و حواس کے باوجود موج دریا کی موج میں انسان اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ہے ۔بسنت ‘ویلنٹائن ڈے ‘کیٹ واک ‘میراتھن ریس اور مخلوط نظام تعلیم سمیت مغرب کا اوڑھن نہ اتارا گیا تو اپنے کلچر کا بوجھ جلد اترنے کوہے ۔

ویلنٹائن کی تاریخ ہمیں روایات کے دیومالائی سلسلے کی جانب لئے جاتی ہے ‘اس رسم کی روایت کا دفتر اسرائیلی روایات سے بھی بدتردرجے کی چیز ہے‘عیسائیت اپنے مغربی مردے کی روح کو مشرقی جسم میںحلول کرنے کے لئے اپنی سفلی جذبات کی تسکین کا سامان سینٹ ویلنٹائن کی کہانی تلاش لائی ہے ۔روایتوں کے مطابق جب سینٹ ویلنٹائن رکھتا ہے تب لوگ اسے محبت کا دیوتا مان لیتے ہیںاور یوں 14فروری اس کے نام ہو جاتا ہے ‘دوسری روایت کے مطابق کیوپڈ (محبت کے دیوتا )اور وینس (حسن کی دیوی )اور کیوپڈ کی ماں کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں ‘ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن ڈے کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج سے ہی رومن دیوی ،دیوتاو¿ں کی ملکہ جونو کے اعزازمیں یوم تعطیل کے طورپر منایاجارہاہے۔عیسائی 14فروری کو”جو نو کو“کے نام موسوم کرتے ہیں‘ جبکہ15 فروری لیوپرکس دیوتاکی وجہ سے جشن زرخیزی منایا جاتا ہے ۔ لڑکے لڑکیوں کے ناموں کے قرعے ڈالے جاتے ہیں ‘جشن ہوتا ہے اور اختتام تک دونوں ساتھی بن جاتے ہیں ۔پیا من سدھارنے کے وعدے ہو جاتے ہیں جو ایک سال تک چلنے کے بعد پیامن نہ بھائے کے سائے میں ایک بار پھر اختتام پذیر ہوجاتے ہیں ۔

ویلنٹائن کے بارے میںایک روایات کے مطابق شہنشاہ کلاڈلیس دوم کے عہد میںمسلسل جنگوں میں شکست کی وجہ سے شادیوں پر پابندی عائد کردی تھی ‘جس کی وجہ سے سینٹ ویلنٹائن نے سینٹ مارلیس کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر نوجوان جوڑوں کے ملاپ کا بندوسبت کیا ان کایہ کام چھپ نہ سکا اور شہنشاہ کارڈلیس کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کوگرفتار کرلیاگیااور اذیتیں دے کر 14فروری 270کو بعض حوالوں کے مطابق 269ءمیں قتل کردیاگیاتھا جس کی وجہ سے 14فروری ویلنٹائن ڈے منایا جارہاہے ۔سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے یہ کہانی بھی عام ہے کہ وہ برطانیہ کا معتبر شخص اور بشپ آف ٹیرنی تھا ‘عیسائیت قبول کرنے پر 14فروری 269ءکوپھانسی دی گئی تھی۔ قید کے دوران بشپ کوجیلرکی بیٹی سے محبت ہوگئی جس کی وجہ سے عیسائی اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ویلنٹائن ڈے کہاجاتاہے۔چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں مناتے تھے اور یوںرفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کارتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کواس دن محبت بھرے خطوط ،پیغامات ،کارڈز،اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پایا جسے ہم نے بھی اپنا لیا ۔

کسی کے نقشے میں رنگ وہ بھرتا ہے جس کے پاس رنگ تو ہوتا ہے مگر نقشہ مفقود ہوتا ہے فیصلہ بڑوں کو کرنا ہے کہ ان کے پاس اپنی تہذیب اور کلچر کے نشان مٹ چکے ہیں تو ان کی نسل کو اغیار و مغرب کی تہذیب کے نقوش میں رنگ بھرنے کی اجازت جاری رہنی چاہیئے بصورت دیگر کوئی یہ پوچھ سکتا کہ میاں کہاں چل دیئے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے