مسئلہ کشمیر پرعمران خان کا جاندار موقف

’’لیڈر پرستی‘‘ بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بت کا دماغ نہیں ہوتا جو خراب ہو جائے لیکن جب انسان لیڈر کی پوجا کرتا ہے تو وہ فرعون ، نمرود، اسٹالن ، لینن اورمیسولینی  بن کر تاحیات تمہاری گردنوں پر مسلط ہو جاتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کا خون چوس کر بھی ان کی پیاس نہیں بجھتی۔

 

 

 

دو دن پہلے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کی، ملاقات کیلئے ہمیں وقت 45 منٹ کا دیا گیا تھا جو بڑھ کر ایک گھنٹے پر چلی گئی۔ جب ہم ان کی رہائش گاہ بنی گالہ پہنچے تو وہاں امریکہ سے آئے ہوئے آئل اینڈ گیس کے ماہرین سے وہ بات چیت کر رہے تھے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ کے پی کے کے ضلع کوہاٹ میں لوگ پانی کیلئے کنوئیں کھودتے ہیں جن سے قدرتی گیس نکلنا شروع ہو جاتی ہے ، وفاقی حکومت ہمیں اجازت نہیں دے رہی اگر وہ اجازت دے دیتی ہے تو ملک ایل پی جی فری بن سکتی ہے اور عوام لائنوں میں لگنے کی زحمت سے بچ سکتے ہے۔ پاکستان نہ صرف گیس میں خودکفیل ہو سکتا ہے بلکہ وہ اسے برآمد کر کے بھاری زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔

 

 

 

میں نے خان کی آنکھوں میں ایک ایسے شخص کی چمک دیکھی جو حقیقی معنوں میں اس قوم کو منزل پر لے جانا چاہتا ہے ۔ اب ذرا لیڈر کی بات کرتے ہیں ۔ بابائے قوم نے تقریباً 30سالوں میں اس ’’ہجوم‘‘کو ایک ملک دے کرانہیں منزل پر تو پہنچا دیا لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی کہ وہ اس ہجوم کو قوم میں ڈھال سکیں۔

 

 

قائد کی وفات کے بعد مسٹر بھٹو کو تھوڑا وقت ملا ۔ انہوں نے ہجوم کو سیدھی راہ پر لگایا ہی تھا کہ عالمی طاقتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ شریف خاندان کم و بیش پچھلے 30سے 35 سال سے اقتدار میں ہے المیہ مگر یہ ہے کہ انہوں نے لیڈر بننے کے چکروں میں عوام کا خون چوسنا شروع کر دیا ہے، دولت کا اندازہ نہیں ۔ یہ دولت انہوں نے 20کروڑ عوام کی ہڈیوں کا ’’گودا‘‘ کشید کر بنائی ہے۔

 

 

شریف خاندان کے نزدیک ’’پنجاب‘‘ صرف پاکستان ہے۔ سندھ اور کے پی کے والوں سے یہ کھلی دشمنی کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے حالات بھی آپ کے سامنے ہیں۔ میرے منہ میں خاک کہیں ایسا نہ ہو کہ شریف خاندان کی باقی صوبوں کے ساتھ دشمنی ملک کی وحدت کو نقصان نہ پہنچا دے۔ کپتان کا کہنا تھا کہ مجھے لیڈر بننے کی ضرورت نہیں میں اس پاکستانی قوم کو ایک منزل پر لے جانا چاہتا ہوں، کے پی کے کو ہم ایک مثالی صوبہ بنائیں گے جس پر پاکستان کے باقی صوبے فخر کریں گے،

 

 

 

قوموں میں زوال اس وقت آتا ہے جب لوگ ایک شخص کی پرستش کرنا شروع کر دیتے ہیں، پھر وہ شخص قوم کا خون چوسنا شروع کر دیتا ہے ۔ درست ہے حکومت میٹرو اور اورنج منصوبے بنائے مگر انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری کنا ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پنجاب کے ہسپتالوں میں انسانیت سسک سسک کر مر رہی ہے ، ایک بیڈ پر تین تین مریض ہیں ، ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات ناپید ہیں، امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے ، کسی بھی شہری کی جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔شریف خاندان میگاپراجیکٹس اس لئے بنا رہا ہے اس میں اسے بھاری کمیشن ملتا ہے۔

 

مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے انہوں نے جو فارمولہ دیا اس کے مطابق عمران خان نے بتایا کہ لداخ کی اہمیت ہندوستان کیلئے ایسی ہی ہے جو گلگت بلتستان کی پاکستان کیلئے ہے۔ اسی طرح باقی حصوں میں وادی اور جموں کو 10سال کیلئے فری کر دیا جائے ۔ آر اور پار دوطرفہ لوگوں کو آزادانہ ملنے دیا جائے ۔ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے ۔ وہاں کے لوگ جو فیصلہ کریں یہ ان کا بنیادی حق ہے ۔ اگر وہ خودمختار رہنا چاہیں تو یہ ان کا حق ہے ،

 

 

 

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کپتان کا موقف جاندار ہے جو حقائق پر مبنی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی سیاست دان میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اس طرح کا جاندار موقف اپنائے رہی بات کشمیری سیاستدانوں کی تو وہ کیوں بات کریں گے ان کی ’’کھابے‘‘ کی ہٹی بند ہو جائے گی۔ کشمیری سیاست دان تو کشمیر کے نام پر عیاری اور مکاری سے کام لے کر کشمیریوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ الحاق کرنے والے اور اقتدار کے پجاری کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو کیونکہ ان کی روزی روٹی کی دکان بند ہو جائے گی۔

 

 

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھی اس مسئلے کا حل ممکن نہیں کیونکہ یہ ادارہ محض ایک تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے، کشمیر کے دونوں حصے بدحالی اور مفلسی کے مناظر پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں میں سے کوئی بھی ملک کشمیریوں کو اعتماد میں لینے میں نہ کوئی کارآمد اقدام اٹھا سکا اور نہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

 

 

 

 اقوام متحدہ بھی اس سلسلے پر عملی اقدامات اٹھانے سے محض اس وجہ سے قاصر ہے کہ اس پر امریکہ کی بالادستی قائم ہے جو اپنی چنگیزیت سے دنیا کے تمام ممالک کو اپنا دست نگر بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ رہی بات پاکستان کے دوسرے سیاستدانوں کی تو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے ہندوستان کے ساتھ کاروباری مفادات وابستہ ہیں ۔ وہ کسی صورت ان کی ناراضگی نہیں مول لیں گے ۔

 

 

مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کپتان کا جو فارمولہ ہے وہ زمینی حقائق کے بالکل قریب ہے ، مستقبل قریب میں اس مسئلے کے حل کے ممکنہ امکانات ہو سکتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے