کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم محبت (ویلن ٹائن ڈے) کا تہوار منایا گیا ۔ اس تہوار کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں بینرز اور بل بورڈ
پر مختلف وعیدیں آویزاں کی گئی تھی ۔ دنیا بھر اور خاص پاکستان میں برسوں سے اس دن کو منایا جارہا ہے ۔ اس دن کو یوم محبت کا نام اسلئے دیا گیا کہ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ کی بیٹی سے اسکے غلام (ویلنٹائن ) نے اظہار محبت کیا ۔جسکے باعث اسکو مار دیا گیا مگر اس کے بعد سے اس تہوار کو دوام
ملا اور یہ پھیلتے پھیلتے تقریبا اب سالانہ تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
پاکستان جو کہ دراصل اسلامی ملک ہے تو اس دن کو منانے کے حوالے سے ملا جھلا رجحان نظر آتا ہے ۔ کہیں کوئی اس دن کی اہمیت پر بات کرتا دکھائے دیتا ہے تو کہیں کوئی اس دن کو یوم حیاء کے طور پر مناتے ہے ۔ خاص طور پر پاکستان میں اس دن کو اس قدر اہمیت حاصل ہوگئی ہے کہ اس دن سے پہلے آنے والے جمعے کو شاید ہی کوئی ایسی مسجد جہاں ویلن ٹائن کا تذکرہ نہ کیا جارہا ہو۔ کئی مساجد میں تو اس یوم سے ایک روز پہلے سے ہی ہر نماز کے بعد نہ منانے کے حوالے سے مدلل گفتگو واعض و نصیحت کئے جاتے ہیں ۔ویلن ٹائن ڈے (مغربی) تہوار ہے ۔اسکے نا ماننے والے دوسرے کو قائل کرنے کے لئے اس دن کو بے حیاء کا دن نام دیتے ہیں ۔
اسی طرح کے ایک صاحب سے ایک روز بعد ملاقات ہوئی ۔ جو اپنی گفتگو میں اس دن کو نہ منانے کے حوالے سے دلائل دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔ میں چونکہ آزاد سوچ کا انسان ہوں اس وجہ سے انکی ہر بات کو مثبت انداز میں سُن کر اپنے اندر اٹھنے والے سوالات کو کلیئر کرنے کے لئے اُن سے سوال
ضرور کرتا ۔ محترم سے جب بات نہیں سنبھلی تو انہوں نے پہلے شرعی حوالے دئیے ۔ جس میں سب سے وزن دار اور بار بار دہرانا دالا ایک جملہ جو ایک حدیث کا مفہوم ہے بیان کیا گیا ۔ حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جو قوم جس قوم کی تشبیح کرے گی و ہ روز قیامت اسی قوم کے ساتھ اٹھے گی۔شرعی حوالوں کا میں تو کم از کم انکاری نہیں مگر میرا جواب صرف یہ تھا کہ صرف ایک دن کے لئے یہ دلیل نا کافی ہے ۔
کیونکہ ہم تنخواہ دار یا کاروباری لوگ اپنے کاروبار حساب کتاب اسلامی حوالے سے نہیں کرتے یہ بھی مغربی اور دوسری قوم کی تشبیح ہے ۔ دوسرا اہم نکات جو میں نے بیان کیا وہ یہ کہ بجلی ، کھانے کا پیزا ، مسجد میں لگے نلکے ، پنکھے ، کمپیوٹر ، مائیک لاؤڈ اسپیکر حد یہ کہ طریقہ معالج و ادویات یہ سب بھی تو مغربی
پیداوار ہیں کیا ہم انکے اختیار کرنے سے انکی تشبیح اختیار نہیں کرتے ۔؟ مسجد میں بچھے ہوئے قالین ، ہمارے کپڑے جن مشینوں سے بنائے جاتے ہیں اور
کرنسی جو ہم استعمال کرتے ہیں سب ہی تو مغرب (انگریز ) کی ایجاد کردہ ہیں ۔ ان میں کونسی ایسی چیز ہے جو ہمارے استعمال میں نہ ہو۔۔؟
جواباً محترم کھسیانی ہنسی مسکرائے اور کہا کہ تمھارے جیسے لوگوں کے دل کالے ہوگئے ہیں جو حق کو پہنچانتے ہوئے بھی انکار کرتے ہیں ۔ جس پر میں
نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے بولا آپ حق بیان کر رہے ہیں آپکی بات میرے لئے ہر صورت قابل تسلیم ہے کیونکہ یہ شرعی عذر ہے ۔ مگر جناب شریعت یا دین میں جو آیات اور احادیث اتاری گئی انکا کوئی شان نزول ہے ۔ ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم انکو غلط تناظر میں بیان کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب اپنی اپنی دیڑھ انچ کی جگہیں سنبھال کر مورچہ زن ہیں ۔محترم نے بات سنے کے بات گہری سانس لی اور بولے اچھا سب چھوڑو یہ بتاؤ کہ کیا تم یہ برداشت کرو گے کہ تمھاری بہن کو کوئی پھول دے ، اسے پارک میں لے جائے تو آپ کو کیسا لگے گا ؟ ۔۔۔سوال تو بے جان دار اور جذباتی کردینے والا تھا ۔۔
میں خلافِ توقع مسکرایا اور اُن سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ ایک بات بتائیں یہ ہم مرد ہر بات میں عورتوں کو کیوں بیچ میں لے آتے ہیں ۔ کیا ویلن ٹائن صرف ایک بہن ، بیوی یا بیٹی ہی مناسکتی ہے ۔ اسکے ساتھ جان والا بھائی ، شوہر یا بیٹا نہیں ہوتا تو ہم قصور وار عورت کو کیوں کہتے ہیں ۔ ہم ذہنی طور پر تو اس
قدر بیمار لوگ ہیں کہ ہم نے گالیاں بنائی تو وہ بھی عورت کے نام کی ، غیرت کے نام پر قتل کیا نشانہ عورت کو بنایا، ہاتھ اٹھایا تو عورت پر اٹھایا ، نوکری سے روکا
تو عورت کو روکا ، زندگی کی بنیادی ضروریات تعلیم ، علاج سے محروم کیا تو ایک عورت کو کیا ۔ شادی کے اختیار کے تو بیٹی کی مرضی سنتے ہی اسکے منہ پر طمانچہ دے مارا۔
میں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے اُن سے انتا پوچھا کہ آپ مجھے صرف ایک بات کا جواب دیں کہ شریعت کے عورت کے حقوق اور اسکی عزت و تکریم کے حوالے سے کوئی حقوق نہیں ؟ یا پھر ہم اُن پر عملدر آمد نہیں کرتے اور وہ مغربی لوگ جو خواتین کی عزت کے معاملے میں اسلامی قوانین کو اپنانے والے روز قیامت کیا مسلمان اٹھیں گے یا ہم ایک دن منانے سے اُ ن میں سے اٹھیں گے ۔۔ محترم اٹھے اور مجھ سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ تمھارے دل پر کفر کی مہر لگ گئی ہے ۔ اب تم مجھ سے ملنے یا رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرنا ۔ جسکے بعد میں یہ سوچھتا رہا کہ ہمارا معاشرے میں یہ دوہرا معیار کیسے ختم ہوگا ۔۔؟
میں بطور کالم نگار یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میری اس دن کو منانے کے حوالے سے کبھی کو ئی دلچسپی نہیں رہی ہاں مگر یہ کالم لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عورت کے مقام کو پہچانیں اسے عزت دیں اور اسکی قدر کریں اپنے شکست پر عورت کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چھوڑ دیں کیونکہ یہ کمزور اور بے وقوف مرد کی نشانی ہے ۔