تاریخی لطیفے، ایک ہوشربا جائزہ

علم تاریخ ایک معزز علم ہے۔ علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ تاریخ سے نفرت صرف وہ قومیں کرتی ہیں جن کا ماضی داغدار ہو۔ابن خلدون کے اس کلیے کے مطابق مسلم اقوام کو تاریخ سے نفرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ مسلم اقوام کو اپنی تاریخ سے بے تحاشا محبت ہو اوروہ علم تاریخ کی خدمت اور اس کے فروغ کے لیے دن رات محنت کریں۔ لیکن
ع ناطقہ سربگریباں ہے کیا کیجیئے

اپنوں کی نادانی اور غیروں کی عیاری کہیئے کہ وہ مسلم قوم جس کی تاریخ بجا طور پر قابل صد افتخار ہے خود اپنے ہی ماضی سے بے خبر ہے۔ماضی سے بے خبری اور علم تاریخ سے دوری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ قرون اولی میں پیش آنے والے اہم اور فیصلہ کن واقعات کی تفاصیل ہمارے پاس محفوظ نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس دور سے متعلق بعض اہم سوالوں کے جواب دیتے وقت ہم ہزار بار سوچتے ہیں اور بالآخر سکوت کی محفوظ پناہ گاہ میں عافیت تلاش کرنے لگتے ہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے راشدین کے زمانے میں جو کچھ ہوا اس کے بارے عرض کرنے کی گستاخی میں نہیں کر سکتا کہ اس مقام پر ہمارے پر جل جانے کا قوی اندیشہ ہے ۔ البتہ بعد کے اکثر واقعات ایسے ہیں جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں اور صوفیاء کے قصوں میں بار بار آتا ہے مگریہ واقعات درست بھی ہیں یا نہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ماہرین تاریخ پر قرض ہے۔

مثال کے طور پر عروج اسلام اور اسلامی نظام سلطنت کی کامیابی کے جتنے بھی واقعات آپ کو کتب تاریخ میں ملیں گے ان سب کا تعلق اموی دور خلافت سے ہو گا لیکن اس کے ساتھ ہی مالی کرپشن، اخلاقی پستی اور رعایا پر ظلم کی تمام کہانیاں بھی بنو امیہ کے خلفاء پر ہی فٹ کر دی جائیں گی۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ دو متضاد باتیں ایک ہی دور حکمرانی میں کیسے جمع ہو سکتی ہیں۔؟ عالم انسانیت کا مسلمہ اصول ہے کہ اقدامی فوجی کاروائیاں صرف وہ ممالک و سلطنتیں کر سکتی ہیں جن کی رعایا مطمئن اور محفوظ ہو ۔اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم تاریخ کی آخری فوجی کارروائی جس میں دشمن کا علاقہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا گیا بنو امیہ کے دور میں ہوئی تھی، اس کے بعد دفاعی جنگوں کا دور شروع ہوتا ہے جس میں زمین کا ایک انچ ٹکڑا بھی سلطنت اسلامیہ میں شامل نہیں ہوا بلکہ بہت سارے علاقے مسلمانوں کی دسترس سے نکل گئے تھے، اقدامی جنگوں اور دشمن کے علاقوں کو فتح کرنے کا دوسرا دور خلافت عثمانیہ کے قیام کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بنو امیہ کو مسلم تاریخ میں ولن کی حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے۔ میں آج تک یہ گتھی نہیں سلجھا سکا کہ رعایا پر ظلم، اخلاقی انحطاط اور مالی بدعنوانیوں کے ہوتے ہوئے ایک ریاست اتنی کامیاب کیسے ہو گئی کہ اس نے مزید علاقے بھی فتح کیے اور اپنی عوام کو بھی مطمئن رکھا۔صاف نظر آتا ہے کہ بنو عباس کے دور میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بنو امیہ کی کردار کشی کے لیے من گھڑت تاریخ لکھی گئی جو آج تک ہمارے ہاں پڑھی اور درست سمجھی جاتی ہے۔

بنو امیہ کے ساتھ اس زیادتی کا اندازہ لگانے کے لیے عمر بن عبد العزیز ؒ کا وہ واقعہ پڑھنا کافی ہو گا جس میں بطور خلیفہ ان کی نامزدگی کا ذکر آتا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عمر بن عبد العزیزؒ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ زندگی گزارنے والے ایک لاابالی نوجوان تھے، پھر ایک دن انہیں خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی جس میں انہیں خلافت کی بشارت دی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ خلافت میرے ان دو ساتھیوں (حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما)

کے طریق پر کرنا۔ عمر بن عبد العزیز ؒ کی عقیدت اور ان کے تقدس میں بطور استشہاد پیش کیے جانے والا یہ واقعہ بذات خود سوالیہ نشان ہے۔کیونکہ اگر اس واقعہ کو درست مانا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ معاذاللہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا طرز خلافت قابل تقلید نہیں تھا ورنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن عبد العزیزؒ کو صرف پہلے دو خلفاء راشدین کا طرز خلافت اپنانے کا حکم نہ دیتے بلکہ مطلقا یوں فرماتے کہ خلفاء راشدین کے نقش قدم پر چلنا۔اس مخمصے کا حل میرے خیال میں کچھ یوں ہے کہ یہ واقعہ سراسر جھوٹ ہے جسے صرف اور صرف بنو عباس کو خوش کرنے اور بنو امیہ کا وقار مجروح کرنے کے لیے گھڑ ا گیا ہے، کیونکہ اگر صرف حضرت عثمانؓ کا نام جن کا تعلق بنو امیہ سے تھا چھوڑ کر خلفائے راشدین کا ذکرکیا جاتا تو حقیقت حال کھل جاتی کہ پورا واقعہ صرف اور صرف بنو امیہ کی مخالفت میں گھڑ دیا گیا ہے اس لیے حضرات شیخین کا نام استعمال کیا گیا تاکہ عقیدت بھی برقرار رہے اور بنو امیہ کی کردار کشی بھی ہو جائے۔ ایک تیر سے دو شکار۔ عمر بن عبد العزیزؒ کی بطور خلیفہ نامزدگی کا یہی واقعہ مزید تضادات کو بھی آشکارا کرتا ہے کیونکہ اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ سلیمان بن عبد الملک جس نے انہیں خلیفہ نامزد کیا تھا انتہائی درجہ کا بدکردار انسان تھا۔ تاریخ کی مختلف کتابوں میں لکھا ہے کہ سلیمان بن عبد الملک چار شادیاں ایک ساتھ کرتا اور ہر چوتھے روز انہیں طلاق دے کر مزید چار شادیاں رچادیتا تھا۔ ہماری افسانوی تاریخ میں درج یہ تفصیلات بھی دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ اگر انہیں صحیح مان لیا جائے تو یہ تو مانناہی پڑے گا کہ بنو امیہ بدکردار اور دین دشمن تھے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرون اولی کا مسلم معاشرہ اخلاقی اعتبار سے اس قدر گرا ہوا تھا کہ ان کا سربراہ دن دیہاڑے اللہ کے احکامات کا تمسخر اڑاتا تھا مگر کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو کلمہ حق بلند کرنے کی جرات کرنے والا ہو۔اور یہ دونوں پہلو ناقابل یقین ہیں۔ کیونکہ سلیمان بن عبد الملک کے دور خلافت میں کبار تابعین زندہ تھے تو کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کی موجودگی میں مسلمانوں کا خلیفہ اللہ کے دین کے ساتھ یوں کھلواڑ کرتا اور کوئی اس کی گوشمالی کے لیے کلمہ حق بلند نہ کرتا۔؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے