دو عورتیں دو کہانیاں

یہ دنیا بھی عجیب ہے، ہر شخص ہرنفس، ہر جسم اور ہر روح کا اپنا اپنا رنگ ہے، انسان کی پیدائش سے شیرخوارگی ، بچپنہ اور رفتہ رفتہ شعور کی سیڑھی شروع ہوتی ہے، ہر شخص اپنے ایک رنگ میں زندگی جیتا ہے، کسی کو تاجِ سلطانی میسر ہوتا ہے، کسی کو کشکولِ فقیری،کسی کا گزر خاک چھین کر ہوتا ہے، کسی کا بسر عیش و عشرت میں، غرض کہ دن ہر کسی کا گزرتا ہے لیکن دنیا میں مختصر وقت کیلئے آ کر لوٹ جانے والے انسانوں میں کچھ لوگ اپنا آپ منوالیتے ہیں، جن کے تذکرے زبان زدِعام ہوتے ہیں، یہ تذکرے دو طرح کے ہیں، کچھ لوگ اپنے اچھے کاموں کی وجہ سے ذکرِ خیر کے مستحق ہوتے ہیں، کچھ کا کردار ان کی بدگوئی کا باعث بنتا ہے، یہ دونوں وجوہات ان کے کردارِحیات کے باعث ہیں،

خیر تمہید سے آگے بڑھتے ہوئے بتاتا چلوں کہ دنیا کے رواج کی طرح پاکستان میں بھی بہت سے لوگ اپنے کارناموں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے والے احباب زیرِلب رہتے ہیں، لیکن ایک افسوسناک ترین امر یہ ہے کہ وطن عزیز ميں ایک عرصے سے مغربی دقیانوس سوچ نے اتنا فروغ پالیا ہے کہ ہمارے ہر کام کی اچھائی یا برائی کا میزان نگاہِ مغرب کی منظور نظری ہے، مغرب کی نظروں میں جو چیز اچھی، ان کے مطابق جو درست، وہی ہماری غلام ذہنیت پر بہتر بلکہ بہترین بن کر نقش ہوجاتا ہے، اس غلام ذہنیت نے ہمارے عقل و شعور پر وہ پردے ڈال رکھے ہیں کہ ہمیں اپنے خیرخواہ دشمن محسوس ہوتے ہیں، اور پسِ پردہ ثقافتی،نظریاتی یا جغرافیائی دشمنی رکھنے والے اپنے محسن لگنے لگتے ہیں، ہماری فکری غلامی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی ملی، قومی اور نظریاتی حمیت بھول کر مغربی دقیانوس تہذیب اور اس سے وابستہ افعال پر فخر محسوس کرتے ہیں،

ہماری نظروں میں عزت اور ذلت، قبولیت اور صداقت کا معیار مغربی پسند پر ہی کیوں استوار ہے؟

ہمارے معاشرے میں ہر اس شخص کو پذیرائی کیوں ملتی ہے جو اپنے اعمال یا افعال کی وجہ سے یورپ کی وفاداری میں پیش پیش ہو۔۔۔؟؟

کیوں وہ لوگ معاشرے میں اجاگر کرنے کو نہیں ملتے جو اس مٹی، اس دیس اور ملک و ملت سے شب و روز اپنی مخلصانہ وفاداری نبھاتے ہیں۔۔۔۔۔؟؟

ہماری نظروں میں وہ لوگ کیوں نہیں جچتے جو معاشرے کے مثبت پہلو اجاگر کرنے کیلئے اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں؟

ہمارے میڈیا پر ہر اس شخص کا چرچا کیوں ہوتا ہے جو ہمارے مذہب یا معاشرے کا چہرے مسخ کرکے دنیا کو دکھاتا ہے۔۔؟؟

پاکستان میں ایک نام پچھلے تین سالوں سے بڑا معروف ہورہا ہے، جس نام نے فلمی دنیا میں اپنا کردار ادا کرکے "آسکرایوارڈ” اپنے نام کیا، جی ہاں آپ کے ذہن میں جو نقشہ آیا وہی درست ہے، میری مراد شرمین عبید چنائے ہے، یہ آسکر ایوارڈ ملنے کا معیار اور کسوٹی کیا ہے ؟ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، اس موضوع کو فی الوقت صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ شرمین عبیدچنائے نے فلم میں وہ کون سا معرکہ سر کیا تھا کہ جس بنیاد پر موصوفہ کو یہ "عالمی اعزاز” سے نوازا گیا۔

جی تو شرمین عبید چنائے نے پاکستان میں خواتین کے "استحصال” پر فلم بنائی، جس میں پاکستانی معاشرے میں عورت ہر ظلم، جبر، استحصال، اور ان کی زندگی چھیننے کا نقشہ پيش کیا ، جس میں یہ دکھایا گیا کہ پاکستان میں کس طرح عورتوں پر تیزاب ڈال کر حقوق نسواں کا پامال کیا جاتا ہے، کھلے لفظوں میں اگر آپ سمجھنا چاہیں تو پاکستان میں عورت کیساتھ "بدترین” سلوک "اُجاگر” کرکے موصوفہ نے عالمی سطح پر پاکستان کی "خدمت” کی، دنیا کو یہ باور کرایا کہ مشرقی تہذیب بالخصوص پاکستان میں عورت نامی مخلوق محفوظ نہیں، ان کی تعلیم، زندگی، روزگار، رہن سہن،اور نفسیاتی "استحصال” گویا کہ ساری دنیا سے زیادہ آسودہ حال ہے، یہ فلم بندی ہوئی، مغرب کو پاکستان کا چہرہ بدنما کر کے دنیا کو دکھانے کا ایک بہترین چانس ملا، مغرب نے اسے اچھال کر ساری دنیا کو دکھایا اور ہمیشہ اسے یاد دلانے کیلئے "آسکر ایوارڈ” سے نواز، وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا مثبت پہلو کسی بھی طور پر دنیا کے سامنے نہ آئے،

یہاں ایک بات کہتا چلوں کہ میں قطعی طور پر یہ نہیں کہتا کہ پاکستان میں عورتوں کو مکمل سوفیصد حقوق مل رہے ہونگے، لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں ہندوستان اور مغرب سے زيادہ عورت کھلونا نہیں ہے، پاکستان میں عورت اس اذیت، لاچارگی اور عزت آبرو سے ایسے محروم نہیں جیسے عورت باقی دنیا ميں ہے، اچھائیاں برائیاں ہر معاشرے میں ہوتی ہیں لیکن ایک منظم پلان کے تحت کسی معاشرے کا ہمیشہ ہی منفی پہلو دنیا کو دکھا کر اس ملت کی رسوائی کا سبب بنانا کسی بھی طور پر انصاف نہیں ہے، خیر بات چل رہی تھی آسکر ایوارڈ ملنے کی، تو مغرب نے یہ ایوارڈ "حقوقِ نسواں” کو اجاگر کرنے اور "انسانیت کی خدمت” پر شرمین عبیدچنائے کو عطا کیا،ملکی اور عالمی میڈیا میں شرمین عبیدچنائے کی دھوم رہی، اور معروف شخصیات سے ملاقات، اعزازی انعامات و اکرام سب کچھ عطا ہوا، وجہ کیا تھی ؟ کہ ان کی "خدمات” مغرب کی نظروں میں بخوبی بھا گئیں اور مغرب نے اس پر "سندقبولیت” سے نوازا،

[pullquote]یہ ہے ایک رُخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تصویر کا دوسرا رُخ دیکھئے۔۔۔۔۔ [/pullquote]

ایک خاتون ہیں، پاکستانی ہیں،مشرقی معاشرے میں ہی پلی بڑھی ہيں، میڈیا کی دنیا سے وابستہ ہیں، وہ بھی شرمین عبید چنائے کی طرح فلمیں بناتی ہیں، یہ خاتون ڈاکومینٹری فلمیں بناتی ہیں، اور پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی ڈاکومینٹری فلمیں بناتی ہیں،

آپ کے ذہن میں کسی ایسی خاتون کا نقشہ آرہا ہے۔۔۔۔؟؟

نہیں آرہا۔۔۔؟

اچھا چلیں یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ اس خاتون کا اولین اور محبوب فلمی موضوع مہاجرین کے کیمپ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اب بھی ذہن میں نہیں آیا۔۔۔۔۔؟

اچھا تو یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ ان کی ڈاکومینٹری فلموں کا محور بے گھر افراد، متاثرینِ وزیرستان، متاثرینِ تھر، جنگ زدہ علاقوں کے مہاجرین ہیں۔۔۔۔۔ شام و عراق ہوں یا افغانستان ، صحرائے تھر ہو یا متاثرینِ وزیرستان ۔۔۔۔۔۔ یہ خاتون کیمرہ لیے کیمپس میں جاتی ہیں، انسانیت سوز ظلم، معصوم بچوں کی آہیں، سسکتی مائیں، بلکتی بہنیں، اور بے سہارا، ناتواں اور ضعیف بوڑھے کے آنسو دنیا کر دکھاتی ہیں۔۔۔۔۔۔جنگ اور قدرتی آفات سے دربدر ہونے والے لوگوں کی معصوم بچیوں کے کیمپس میں جا کر کتابیں اور قلم پکڑاتی ہیں، اور ان ٹینٹوں میں جیتے جی موت جیسی اذیت سے گزرنے والوں کی آواز دنیا تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔۔۔۔ آپ میں سے کتنے اس خاتون کے نام اور کام سے واقف ہیں۔۔۔۔؟؟ بہت کم۔۔۔۔۔۔بلکہ بہت ہی کم۔۔۔۔۔۔

جی تو ان خاتون کا نام ہے "عائشہ غازی”۔۔۔۔۔۔ کتنا اجنبی سا نام محسوس ہورہا ہے ناں۔۔۔؟ جی ہاں !

لازمی امر ہے اجنبی ہی ہونا ہے، کیونکہ آپ نے کسی عائشہ غازی کو "آسکر ایوارڈ” ملتے نہیں دیکھا ہوگا،

اس لیے کہ آپ نے پاکستانی یا عالمی میڈیا پر کسی عائشہ غازی کے آسمان سے قلابے ملاتے ہوئے قصیدے نہیں سنے ہونگے،

اس لیے کہ آپ نے سکرین کے پسِ منظر میں ہر دس سیکنڈ بعد گردش کرتا ہوا کسی عائشہ غازی کا چہرہ نہیں دیکھا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔

اس لیے کہ آپ نے ملکہ برطانیہ، اوباما، مشعل اوبامہ سے ملاقات کرتے کسی عائشہ غازی کو نہ دیکھا ہوگا،

اس لیے بھی کہ آپ نے وزیراعظم پاکستان، صدرمملکت، ملکی لیڈران، میڈیا کے ذمہ داران کی کافور چھڑکتی زبانوں سے کسی عائشہ غازی کا نام نہ سنا ہوگا،

اس لیے بھی کہ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں کسی عائشہ غازی نے خطاب بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔۔

جی تو یہ دوہرا معیار کیوں ہے۔۔۔۔؟ جی اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ عائشہ غازی کسی بیرونی این جی او کی نمک خواری نہیں کرتی، یہ اس لیے بھی ہے کہ عائشہ غازی ان گمنام نفوس کی آواز بنی ہے جو مغربی فرعونیت اور اپنوں کی بے وقوفی اور پست ذہنی کے نتیجے میں تاریک راہوں میں مارے گئے ۔۔۔۔۔۔ یہ اعزاز و اکرام عائشہ غازی کے حصے میں اس لیے بھی نہیں آتے ان کی ڈاکومینٹریز میں انسانیت سوزی میں مرتکب خونی درندوں کو اپنا بھیانک چہرہ اور مکروہ کردار نظر آتا ہے، جی ہاں ! یہ ایوارڈز اس لیے بھی نہیں ہیں کہ عائشہ غازی کا کردار مغربی فرعونوں، استعماری قاتلوں اور صلیبی خونی درندوں اور ان کے ذہنی غلاموں کی نظر میں ناقابلِ قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔ اے باشندگانِ ملت ! دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ پاکستان کا چہرہ مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرنے والے زیادہ محب وطن اور انسانیت کے خیرخواہ ہیں یا انسانیت سوز مظالم، ظلمتوں، وحشتوں، اور تاریکیوں میں زندگی بسر کرنے والی اولادِ آدم کی سسکیاں، آہ و زاریاں دنیا کے سامنے پیش کرکے ملک و ملت اور انسانیت کے دشمنوں کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹانے والے حب الوطنی اور انسانی ہمدرد ہیں۔۔۔؟؟ بڑا آسان اور واضح سا جواب ہے۔۔۔۔۔۔ خیر یہ بات اٹل ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ انسانیت کا درد عطا کرے، احساس کو جگائے اور جن کو زندہ ضمیر عطا کرے وہ اعزاز و اکرام اور شہرت و دولت کے پیاسے نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ذکر کرنے کا مقصد مغربی بھیانک اور دوغلے چہرے کیساتھ ساتھ اپنوں کی بے مروتی اور ذہنی غلامی کا ایک منظر پیش کرنا تھا۔

عائشہ غازی بھی آسکرایوارڈ حاصل کرسکتی تھی اگر وہ اسلام اور پاکستان میں عورت کے حقوق کی پامالی کا ڈھونگ رچاتی، اقوامِ متحدہ میں تقریر بھی کرسکتی تھی اگر مادرِ وطن کی تضحیک و توہین کرتی، خواتین کی تعلیم کی علمبردار بھی گردانی جاسکتی تھی اگر داڑھی اور برقع کو پتھر کے زمانے کی یاد اور فرعون کی یاد تازہ ہونے کا لکھتی، یہ سب کچھ ممکن تھا اگر پاکستان کے چہرے پر تھوک کر شعائرِاسلام کی تحقیر کرتی۔۔۔۔۔عائشہ غازی بھی یہ ٹھاٹ باٹھ حاصل کرسکتی تھی، اگر اسلام پسند نہ ہوتی۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔!!! ہر ماں ضمیر فروش بیٹی کو جنم نہیں دیا کرتی۔۔۔۔۔۔!
مجھے یقین ہے کہ عائشہ غازی کو ان ایوارڈز، اعزازات، شان و شوکت اور دولت و شہرت کی طمع کے بغیر بھی سکون، اطمینان اور قلبی و روحانی خوشی ہوتی ہوگی۔۔۔۔اور ان کے لیے روزمحشر جو ایوارڈ رکھے جائیں گے۔۔۔۔۔ ان کا تصور شعورِ لاشعور کو بھی نہیں۔۔۔۔۔ یہی کچھ گمنام ہوتے ہیں جن کی زندگی خاموشی سے بیت جاتی ہے مگر ایک تاریخ رقم کرجاتی ہے۔۔۔۔عائشہ غازی بھی اقبال کے مصرعے "یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے” کے مصداق گمنامی کے عالم میں اپنی دھن میں مگن اور مقصدِ حیات میں سرگرم عمل ہیں،
بقولِ کسے؎

وہ لوگ جنہوں نے خوں دے کر گُلشن کو رنگت بخشی ہے
دو چار سے دنیا واقف ہے گُمنام نہ جانے کتنے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے