"تمھارے لیے تمھارا اورہمارے لیے ہمارا دین”

افراتفری کا دور ھے ٹی وی دیکھنے کا من نہیں کرتا ایک خدشہ سا رہتا ھے کہ کہیں پھر کسی سانحے کی خبر سننے کو نہ مل جائے. اب تو سانحات کی ایک لمبی لسٹ ہے یاد ہی نھی رھتا کس دن کونسا سانحہ ھوا تھا. اور قوم کا مزاج بھی بڑا سہما اور خوفزدی سا ہو گیا ھے. قارئین اگر برا نہ مانیں تو کہتا چلو کہ مجھے مستقبل قریب میں بھی کوئی بہتری کے آثار نظر نہیں آتے..شائد سانحات ھوتے رہیں. اسکی بہت سی وجوھات ہیں.

بنیادی طور پر یہ نظریات اور فکر کی جنگ ھے .. دو نظریات ہیں ایک بنیاد پرست اور دوسرے لبرل نظریات.

ہماری بدقسمتی یہ ھے کہ جب سے وطن عزیز بنا ھے تب سے ہی بڑی سخت قسم کی کنفیوژن ھے کہ یہ نیا وجود میں آنے والا ملک سیکیولر ھو گا یا پھر بنیاد پرستی پر اسکی آبیاری کی جائے گی. دائیں بازوں اور بائیں بازوں کی قوتیں ایک دوسرے کے شانے چت کرنے کے لیے میدانِ کارساز میں روز اول سے مورچہ زن ہیں. اس میں دینی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو کہ ایک طرف شریعت کا نفاز بھی چاھتی ہیں مگر ساتھ ساتھ ہر بار کچھ "لے دے” کر کے کوئی چھوٹی موٹی وزارت اٹکا لیتی ہیں یا پھر پریشر گروپ بنا کر من مانیاں بھی کر لیتی ہیں. دوسری طرف پیپلز پارٹی متحدہ قومی مومنٹ اور اے این پی جیسی لبرل پروگریسو جماعتیں بھی موجود ہیں.

اب مسئلہ کہاں درپیش ھے؟

مسئلہ یہاں درپیش ہے کہ جناب اس ملک میں مسلمانوں کے تقریباً جتنے فرقے ہیں سبھی کی نمائندگی موجود ہے. اور ہر ایک کے پاس بہترین دلائل کے ساتھ شریعت کی اپنی تشریح موجود ہے اور وہ اسی کو مانتے ہیں اور مزے کی بات یہ ھے کہ ان تمام فرقوں کے مطابق باقی تمام فرقے یا تو کافر ہیں یا گمراہ ہیں. تو محترم سوال یہ بھی بنتا ھے کہ آپ میں سے کس والے فرقے کی شریعت نافذ کی جائے؟؟؟ ایک کی کریں گے تو دوسرا مرتد کافر اور دوسرے کی کریں گے تو پہلا گمراہ تو اصولی طور پر ان کا موقف یہی دم توڑ جاتا ھے خیر پھر بھی آئین پاکستان میں موجود ھے کہ کوئی قانون بنیادی اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں بنایا جائے گا اور اسلامی نظریاتی کونسل اس بارے میں رہنمائی فراہم کرے گی (وہ علیحدہ بات ھے کہ اس کونسل میں جو دھینگا مشتی جاری ھے اسکا بھی اللہ ہی حافظ ھے)

یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک فکر زبردستی لوگوں پہ اپنی "تشریح شدہ” افکار و نظریات لاگو کرنا چاھتی ہے. اور اگر آپ انکی بات نہیں مانیں گے تو وہ آکر آپ پہ پھٹ جائیں گے وہ مثال ھے ناں "نا رھے گا بانس نہ بجے گی بانسری” خیر شائد غلط کہاوت بول گیا میں کیونکہ موسیقی تو حرام ھے نا بھئی!

اب اس مسئلے کا حل کیا ھے کیونکہ مسئلہ تو بڑا پرانا ہے بھئی سیدھا سادہ سا حل ھے "تمھارے لیے تمھارا دین ہمارے لیے ہمارا دین” اس کے بعد "مٹی پاؤ” والا کام کرنا چاہیے
ہر انسان آزاد پیدا ھوا ھے اور اکیلا ھی قبر میں جائے گا وہاں اس سے نہ آپ کی بابت سوال ھو گا نہ ہی میرا یا ریما کے بارے سوال ھو گا یہی پوچھا جائے گا کہ میاں اپنی سناؤ کیسی بیتائی!
لہذا دوسروں فکر کرنے کہ بجائے اپنی اصلاح میں اس قدر مگن ھو جائیں کہ دوسرے کے بارے سوچنے کا موقع ہی نا ملے

ریاست کے معاملات میں مداخلت کریں نہ کسی پہ فتوے لگائیں. جب تک آپکی زاتیات کسی کے عمل سے متاثر نہیں ھوتی تب تک "ستو پیئے” اگر ایسا کریں گے تو ناں کوئی آپ کو چھیڑے گا اور نہ آپ متاثر ھو گے. ان لوگوں سے دور رہیں جن کے اپنے بچے کافروں کی یونیورسٹوں میں "کافرانہ” تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر آپ کے بچوں کو صدقہ خیرات پہ جینے کی ترغیب دیتے ہیں.

اسلام کو اپنی زات پہ مکمل نافذ کر لیں گے تو نہ تو آپ کو کوئی مشرک نظر آئے گا نا کافر اور یہ بھی یاد رکھیں "ریاست” کی نہ داڑھی ھوتی ھےنہ عمامہ اگر ایسا ھو گا تو وہ لازمی کسی نا کسی سوچ کی نمائندگی کر رھی ھوگی جس سے دوسروں کے حقوق متاثر ھو سکتے ہیں..

بات کہاں سے شروع کی تھی کہاں نکل گئی تو بات سانحات سے شروع ھوئی تھی خیر اب تک جو کچھ میں نے اوپر بیان کیا ھے وہ بھی سب سانحات کے بارے میں ہی تھا لیکن اگر مزید سانحات سے بچنا چاھتے ہیں تو جیو اور جینے دو کا کلیہ اپنائیں اسی میں خیر ھے آپکی ہماری اور آئندہ آنے والی نسلوں کی خوشحالی کا نسخہ بھی یہی ہیں. شائد کچھ دوست میرے ان جاہلانہ نظریات کو بھی عظیم سانحہ قرار دیں لیکن ایسے محبت بانٹنے والے سانحے ھوتے رہیں تو میرے خیال سے خونی سانحات سے کہیں بہتر ہیں..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے