طلباء تصادم اورپنجاب یونیورسٹی کی ڈنگ ٹپاو پالیسیاں

آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے جب پہلے دن پنجاب یونیورسٹی میں ایڈمیشن فارم جمع کروانے آیا تو انفارمیشن ڈیسک پر یونیورسٹی انتظامیہ اور جمعیت کے لڑکوں کے درمیان گرما گرمی دیکھ کر جمعیت کے متعلق ایک نیگیٹو امیج بن گیا جو آج بھی برقرار هے. اس دن یونیورسٹی انتظامیہ سے مڈبهیڑ میں مرحوم اویس عقیل آگے آگے تھے. دل ہی دل میں برا بھلا کہا. اور جمعیت کے انفارمیشن ڈیسک کو چهوڑ کر انتظامیہ ڈیسک سے کچھ معلومات لیں اور داخلہ کے لئے آگے بڑھ گئے، ایک دوست بھی ساتھ تھے داخلہ کے دوران اور بعد میں آپس میں جمعیت کو خوب برا بھلا کہا . داخلے کے بعد ہاسٹل الاٹمنٹ کا مسئلہ تھا تب بھی جمعیت کے ناظمین نے الاٹمنٹ میں پرابلم کهڑی کر دی اس دن پتہ چلا تھا کہ ہاسٹل الاٹمنٹ مکمل طور پر ناظم لاء کالج کی مرضی سے هوتی ہیں. خیر بڑے بھائی کے ایک دوست پروفیسر صاحب نے مدد کی اور اندرون خانہ جمعیت کے کمرے سے الاٹمنٹ کینسل کر کے ایک دوسرے ہاسٹل میں الاٹمنٹ کر دی جہاں جمعیت کا زورقدرے کم تھا.
.punjab uni

ایک طرف دیکھا جاتا کہ جمعیت کے لڑکے دوسرے لڑکوں کے کاموں کے لئے بھاگتے نظر آتے اور دوسری طرف ایسے لڑکوں کے لئے خود مسئلہ بن جاتے جو بےچارے کسی کسی دھڑے کا حصہ نہ ہوتے . سرکاری کهاتہ ہے ،جس کا انتظامیہ سے میل ملاپ تھا اس کے کام بھی ہوجاتے جس کی جمعیت کے لڑکوں سے ہیلو ہائے هو ان کے بھی کام هو جاتے.
.

 

 

اسی طرح وقت گذرتا گیا ، حالات میں کئی اتار چڑھاو آئے ، آہستہ آہستہ یونیورسٹی اور حکومتی انتظامیہ کی پالیسی تبدیل ہونا شروع ہوگئی ، وہی انتظامیہ کے دفاتر جہاں جمعیت کے ناظمین بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے ،ان کے دروازے جمعیت کے ناظمین کے لئے بند ہونا شروع ہوگئے. انتظامیہ کے انفارمیشن ڈیسک جہاں جمعیت کے کارکنان ترانوں اور نعروں سمیت راج کیا کرتے تھے ، اب ان استقبالیہ کیمپوں میں ترانے چلانے تو دور کی بات بینرز اور پمفلٹ بھی رکھنے کی اجازت نہ رہی. لیکن دوسری طرف انتظامیہ اتنی بڑی یونیورسٹی کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام نظر آئی. انتظامیہ کے کرتا دھرتا اپنی اس نااہلی کو چھپانے اور ناکامی کا ملبہ دوسروں پر پھینکنے اور جمعیت جیسی منظم سٹوڈنٹ تنظیم کو فضول کاموں میں مصروف رکھنے کے لئے بیک ڈور پالیسی بنانے لگے. ایک ایسی پالیسی جو ہمیشہ سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی استعمال کرتی آئی هے. ایک مسئلے کو سلجھانے کے لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کرنے کی پالیسی.
.

سپیشل کوٹے کے ذریعے بلوچستان سے پٹھان اور بلوچ اسٹوڈنٹس کو ایڈمیشن دیئے گئے اور غیر محسوس طریقے سے دونوں طبقات کو آمنے سامنے لا کهڑا کیا گیا. ایک منظم ہجوم کے مقابلے میں ایک منتشر ہجوم کولاکھڑا کردیا گیا. یہ میڈیا میچ کی خوشی کی خبر سے جوڑ کر پنجابی اور پٹھان/بلوچ طلباء کی لڑائی کی خبر دے رہا ہے، یہ سو ایک فیصد جهوٹی خبر هے. میرے وہ پٹھان دوست جو یونیورسٹی میں جمعیت کے خلاف محاذ آرائی میں پیش پیش ہیں وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ میچ کی خوشی کو لڑائی کی وجہ بتانا سراسر جهوٹ ہے.

 

 

میں یہ نہیں کہوں گا کہ جمعیت والے ٹھیک کرتے ہیں یا بلوچ/پختون طلباء ٹھیک کر رہے ہیں . دونوں سو فیصد غلط کر رہے ہیں. لیکن دونوں طرف طلبا ہیں، اور یونیورسٹی انتظامیہ کے سامنے دونوں کی حیثیت بچوں کی هے. اولاد کی هے. اگر یونیورسٹی میں تنظیم سازی کے خاتمے کی پالیسی پر عمل کرنا ہے تو کیا یہ عقلمندی ہے کہ ایک تنظیم کو ختم کرنے کے لئے ایک دوسرے گروہ کو تقویت دی جائے؟؟؟؟ یہ تو بالکل ویسی ہی پالیسی ہے کہ پیپلزپارٹی کے خاتمے کے لئے ایم کیو ایم کو طاقت دو اور اب پچھلے بیس سالوں سے ایم کیو ایم کے خاتمے کی کوششیں ہورہی ہیں. آج پٹھانوں/بلوچوں کو جمعیت سے لڑوا کر جمعیت کو ختم کر لیں گے. دونوں طرف کے چند نوجوان مر جائیں گے بہت سے لوگ زخمی ہوں گے ۔ آخر میں انتظامیہ اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے جمعیت کا خاتمہ کر لے گی لیکن کل کو انہی پٹھان/بلوچ طلباء کی طاقت کو ختم کرنے کے لئے پھر سٹوڈنٹس کی لاشوں کا کاروبار ہوگا ، پھر ایک اور نئی تنظیم کی ضرورت هوگی. پھر جامعہ پنجاب میں خون بہے گا اور پھر چند لوگ قربانی کے بکرے بنیں گے . اس طرح درس گاہ کا تقدس پامال ہوتا رہے گا
.

LAHORE, PAKISTAN, DEC 22: Punjab University (PU) students are protesting in favor of their demands during demonstration after clash between two students groups at university premises in Lahore on Thursday, December 22, 2011. (Babar Shah/PPI Images).

 

اگر یونیورسٹی انتظامیہ واقعی تنظیم سازی ختم کرنا چاہتی ہے تو اپنی ایڈمنسٹریشن ٹھیک کر لے . سٹوڈنٹس کی تمام ضروریات خود پوری کرے. جب لڑکے اپنے کاموں کے لئے تنظیم کے محتاج نہیں ہوں گے تو کوئی بھی تنظیم نہیں چل سکے گی ۔ازخود سارا نظام ٹھیک ہوجائے گا۔ اس سب کے باوجود بھی اگر جمعیت یا کسی اور تنظیم کے شر پسند عناصر طاقت اپنے ہاتهوں میں لینا چاہیں تو یونیورسٹی خود پارٹی بنےاور طلباء جو دوسرے طلباء سے بھڑوانے کی بجائے قانونی طاقت استعمال کرتے ہوئے ان کو ختم کرے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی یہ ڈنگ ٹپاو پالیسی زیادہ دن نہیں چل سکے گی ۔ ادارے کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے آپ اپنی ادائوں پر غور کرنا ہو گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے