جلن اور حسد کا انجام برا

بڑا شور اٹھا، پھر تمام شور ٹھنڈا پڑ گیا۔۔

ایک تحریک شروع ہوئی تھی پرائیویٹ سکولوں کی فیس بڑھنے کے خلاف، شہر شہر مظاہرے ہوئے، پریس کانفرنسوں میں مطالبات کیے گئے اور پھر حکومت کو خیال آیا کہ نجی سکولوں نے بغیر پوچھے فیسیں کیوں بڑھائیں؟ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔۔پھر حکومتی رٹ قائم ہوگئی اور پرائیویٹ سکولوں نے اس ماہ کے دوران بڑھائی گئی سکول فیس کو پہلے والی سطح پر پہنچا دیا۔۔ یعنی تقریباً دو سے تین ہزار روپے کا اضافہ واپس کروانے کے بعد ان سکولوں کی فیس کو جائز قرار دے دیا گیا۔

کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جناب آپ نے ہر سال اتنا اضافہ کیا کہ چار سے پانچ سال میں فیس دوگنا ہوگئی، وہ کس قانون کے تحت کی گئی لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔ اس طرح پانچ سال میں ہونے والے اضافہ کو جائز قرار دلوا دیا گیا۔یہ ہوتا ہے شریفی انصاف۔۔۔ جس کے ہم متوالے ہیں۔

یعنی کسی نے اگر واقعی انصاف کے تقاضے پورے ہوتے دیکھنے ہیں تو ایسے دیکھے۔۔ بالکل اسی طرح جس طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے جب جب کسی شے کی قیمت بڑھنے کا نوٹس لیا، اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوتا گیا اور عام آدمی نے التجائیں کرنی شروع کردیں کہ جناب آپ نوٹس لینا چھوڑ دیں ورنہ ہمارا تو جینا دوبھر ہو جائے گا۔۔

اب وہ وقت دور نہیں جب لوگ اپنے محبوب وزیر اعظم سے کہیں گے ظل الہٰی رحم کے طلب گار ہیں۔۔۔ آپ بھی کسی چیز کی قیمت بڑھنے کی فکر نہ کریں، آپ کہیں گے کہ آلو پانچ روپے کلو ہے تو ہم آپ کی بات کو سچ مان لیں گے، آپ کہیں گے کہ پٹرول کی قیمت دنیا بھر میں زیادہ ہے مگر آپ کے پاکستان میں سب سے کم ہے تو ہم آپ کی بات مانیں گے مگر خدا کے لیے اس کا نوٹس نہ لیجیے گا ورنہ آج جتنی قیمت میں یہ چیزیں ملتی ہیں کل اس سے دس گنا زیادہ قیمت ادا کرنے کے باوجود نہیں ملیں گی۔

آج یقین کریں ہر شخص آلو ہی کھا رہا ہے اور آپ کے شریفی انصاف کو سلام کرتا ہے۔ بجلی کی قیمت کا بھی آپ کہیں گے تو سب مان لیں گے کہ خطے میں سب سے زیادہ بجلی پیدا بھی ہمارے یہاں ہوتی ہے اور اس کے نرخ تو دنیا بھر میں سب سے کم ہیں۔۔ بجلی آتی تو پورا دن ہے مگر آپ کو بل صرف چھ سات گھنٹے بجلی استعمال کرنے کا ادا کرنا پڑتا ہے۔

ایل این جی کے نرخ بھی آپ کی قوم سے محبت کی عکاسی کرتے ہیں اور جناب سوئی گیس کے بل کی تو آپ بات ہی نہ کریں گیس گھر گھر میں اتنی ہے کہ ہر شہری اپنے گھر کی گیس پڑوسی ممالک کو فروخت کرنے کے معاہدہ پر دستخط کر رہا ہے مگر جناب بل نہ ہونے کے برابر آتا ہے۔۔۔

ہم کون ہوتے ہیں جو آپ سے کوئی سوال کریں، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جناب۔۔ نیب پی پی پی کے خلاف کارروائی کرے تو بالکل جائز ہے مگر جب یہ کارروائی ہماری پیاری جماعت اور ہمارے محبوب وزیر اعظم کے قریبی دوستوں کے خلاف ہوگی تو یہ بالکل ناجائز ہے، یہ اپنی حدود سے تجاوز ہی تو ہے کہ اعلیٰ افسران کے خلاف تحقیقات کی جائیں۔۔ حالانکہ چیئرمین نیب نے ہم نے اپنا وفادار لگایا تھا مگر وہ بھی کم بخت پرویز مشرف کا ساتھی نکلا، دوسری جماعتوں پر ہاتھ صاف کرتے کرتے ہمارے گریبان بھی پکڑ میں آجائیں ۔۔۔ ایسا تو ہمارے محبوب وزیر اعظم ہونے نہیں دیں گے۔
بھائی جی۔۔ بات سیدھی سی ہے احتساب کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اپنا گریبان ہی چاک کر لیا جائے، ہم نے تو ہمیشہ احتساب دشمنوں کا کرنے کا سبق سیکھا ہے اگر احتساب بھی ہمارا ہی ہونا ہے اور وہ بھی ہمارے دور حکومت میں تو پھر حکومت کا کیا فائدہ۔۔۔ سکولوں کی فیسیں بڑھتی ہیں تو کیا کریں۔ ہم نے ان مہنگے سکول والوں کو پوش سیکٹروں میں سستے پلاٹ دیئے تو کیا۔۔ ہم نے سرکاری سکولوں کا معیار گرایا تو کیا۔ان سرکاری سکولوں کی فیس بڑھائی ہے۔

اب بھی آپ کہو گے کہ ہم کام نہیں کرتے۔۔ آپ ہمارے سے جلتے جو ہیں۔۔۔جل ککڑے کہیں کے۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے