قائداعظم

جانی پہچانی شکل باوقار انداز انتہائی کمزور اور نحیف دکھی اور سکتے کی سی کیفیت میں بیٹھے بزرگ غم سے کندھے جھکے سے جاتے ہیں۔ میں کوئی جزباتی انسان ہوں نہ خدمت الخلق کا شوقین لیکن یہ ان کی شخصیت میں کچھ سحر سا تھا کہ میں پوچھے بنا نہ رہ سکا اور ان کے قریب جا کے پوچھا ؛ کیا ہوا انکل جی کسی نے موبائل کیش چھین لیا کیا؟ کرایہ چاہیئے؟ میں کافی دیر سے آپ کو ایسے ہی بیٹھے دیکھ رہاہوں۔ کہیں ڈراپ کر دوں؟ انھوں نے میری طرف دیکجا تو ان کی آنکھوں میں عجیب سا دکھ تھا۔ ہم کلامی کے انداز میں بولے "میں اس ملک کے لیے رو رہا ہوں۔ کیا ایسا لہو لہان پاکستان چاہا تھا میں نے؟ مستحکم لہجہ لیکن آواز میں ایک کرب تھا۔میں چاہ کے بھی نظرانداز نہی کر سکا۔ انھوں نے بات جاری رکھی،” میں تو ابھی ان بہنوں بیٹیوں کا غم اپنے سینے پہ محسوس کرتا ہوں جنھوں نے آزادی کی قیمت ادا کی ۔ مگر دیکھو انھوں نے تو میرے مزار کو ہی بے راہ روی کی آمجگاہ بنا ڈالا۔” آپ کا مزار؟ آآآپ ک ک کون؟ حیرانی واجب تھی، مجھے محسوس ہوا میرا سوال انھیں ناگوار گزرا کچھ تاسف ان کےچہرے پہ عیاں تھا شاید میری عقل پہ ماتم کرتے ہوئے جواب دیا ۔

"میں محمد علی ہوں۔ محمد علی جناح۔” اوہ! آآآآپ ( مجھے تو کرنٹ سا لگا ذہن میں کرنسی نوٹوں اور کتابوں میں لگی تصویریں گھوم گئیں۔اس میں تو صحت اچھی نظرآتی ہے اسی لیےتو سمجھ نہیں پایا تھا کہ کہاں دیکھا ہے ) حیرت پہ قابو پاتے میں نے انھیں تسلی دی، یہ مزار والا ایشو میڈیا نےہائی لائٹ کر دیا نا آپ کو پتا نہیں ؟ اب تو کئی سیاسی جماعتوں نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے، اب یہاں ڈیٹینگ نہیں ہو سکے گی۔ان کے چہرے پہ نظر پڑی تو اپنی بودی دلیل پہ کھسیانا سا ہو گیا ۔انھوں نے اپنی ادھوری بات وہیں سے شروع کی ” مین نے اپنا گھر بار، کرئیر، حتیٰ کہ صحت کی بھی پرواہ نہ کی کہ تم لوگوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط سےآزاد کروا سکوں۔افسوس!(انھوں نے آہ بھری) جسم تو آزاد کروا لیے ذہن آج بھی غلام ہیں۔ناانصافی، کرپشن، قتل و غارت میں توانھیں بھی پیچھے چھوڑ دیا ” میرا سر جھک گیا۔ میں نے کہا یہ سب ان کرپٹ سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے، ان کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، ان کا پیٹ ہی نہیں بھرتا ملک کو لوٹ لوٹ کے کھا رہے ہیں۔ سب چور ہیں” میری جزباتی تقریر پہ انھوں نے گہری نظر سے میری طرف دیکھا تو میری پلکیں خود بخود جھک گیئں، جانے کیوں ان سے نظر نہیں ملا پا رہا تھا۔

میری شرمندہ سی خاموشی پر وہ بولے ” میری امید تو تم نوجوان تھے۔ کیا میں نے میغام نہیں دیا تھا کہ اپنی تمام تر توجہ حصول علم پہ لگا دو۔ اس ملک کا سرمایا تو تم تھے ۔ یہ جس راستے پہ چل نکلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” دکھی لہجے میں ابھی وہ مزید کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن میں نے بات کاٹ دی۔ معلوم تھا نوجوانوں کی بات آئی ہے تو کون کون سے دفتر کھیں گے۔سوچا میں بھی دو دو ہاتھ کر ہی لوں۔نظر تو ملا نہیں پا رہا تھا سو کچھ تیز لہجے میں کہا ” تعلیم پہ کیا دھیان دیں ہماری زندگی تو آپ نے ہی مشکل بنائی ہوئی ہے۔ اکٹھے 14 نکات ہی پیش کر دیے، اب چار پانچ ہوتے تو بندہ یاد بھی کر لیتا چودہ ہیں تو نقل کرنی ہی پڑتی ہے۔پاس بھی ہونا ہوتا ہے۔باقی سبجیکٹ پڑھیں کے آپ کے فرمودات کے رٹے لگایئں۔بی اے تک جان نہیں چھوٹتی، پروفیشنل ڈگری بھی کر رہے ہوں یہ پاک ستڈیز لازمی ہوتا ہے۔اتنی مشکل سے رٹے لگائے تھے کہ اب تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ پورا مطالعئہ پاکستان ہی غلط پڑھایا جا رہا ہےاور یہ کہ ۔سارے مسائل تو آپ ہی کے کھڑے کیے ہوئے تھے۔بلوچستان میں بھی عجیب ڈپلومیٹک سا معاہدہ آپ نے کیا۔ کشمیر کا راستہ بھی آپ نے دیا۔آیئن آپ نے نہیں بنایا۔ آپ نے کہا تھا نا پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے جہاں اسلامی اصولوں کو آزمایا جائے۔ اب لیباٹری ہے تو تجربے تو ہوں گے۔

تعلیم کو ایک طرف رکھیں خود آپ کے بارے بھی اتنے شکوک و شہبات ہیں۔ آپ کا تو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ آپ سیکولر تھے، مذہبی تھے سنی تھے کہ شیعہ ۔ خود ہمیشہ انگریزی میں بات کرتے تھے، اور تو اور آپ کا تو پاسُورٹ بھی برٹش ہی تھا۔ الطاف حسین نے دکھایا تھا ٹی وی پہ۔پھر ہم کیوں نہ امریکہ برطانیہ کی خواہش کریں یہاں رہ کے بھی تو ان ہی کی امداد سے چلتے ہیں۔”
میری باتوں سے ان کے چہرے پہ سایہ سا لہرا گیا تاسف کی لکیریں کچھ اور گہری ہو گیئں۔انھوں نے کہا میں صرف مسلمان۔۔۔۔ میں نے بات پھر کاٹی اور کہا ہاں یاد آیا بتایا تھا ایک صحافی نے آپ نے پاکستان بننے کے بعد کوئی بیرونی دوراہ بھی تو نہیں کیا تھا تو پاسپورٹ کیا تبدیل کرواتے۔ اور سمجھانے کے سے انداز میں بولا کہ یہ دنیا ان گلوبل ویلج بن گئی ہے، اب ہم دنیا سے کٹ کے نہیں رہ سکتے۔انڈیا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، انڈیا سے تعلقات اچھے کریں گے تو ہی روشن خیال کہلایئں گے۔اب کشمیر کے لیے انڈیا سے تجارتی تعلق بھی توڑ دیا تو ہمیں شدت پسند کہیں گے۔ پہلے ہی دہشتگردوں نے ملک کو اتنا بدنام کر دیا۔آپ تو کہہ گئے، ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ہماری زبان الگ رسوم رواج الگ، کلچر الگ۔۔۔۔ لیکن اب آزاد میڈیا کے دانشور ہمیں بتاتا ہے کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں، نفرتیں پھیلانے والی۔ فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، یہ سرحد تو بس ایک لکیر ہے اس کے اس طرف اور اس طرف دونوں ایک جیسے ہیں۔اب دوریاں مٹانے کے دن ہیں۔ آپ کا دو قومی نطریہ بس پاک انڈیا کرکٹ میچ کے وقت ہی صحیح لگتا ہے۔

آپ خود دیکھ لیں بلوچی آج بھی بلوچی ہے سندھی، پنجابی، پشتون، حتی کہ اپنا سب کچھ پاکستان کے لیے چھوڑ کے آنے والے ابھی تک مہاجر ہے کہتے ہیں خود کو کوئی بھی تو پاکستانی کہلانا نہیں چاہتا۔اور بنگالی تو پہلے ہی ناراض تھے اسی لیے وہ الگ ہی ہو گئے۔پاکستانی پاسپورٹ بھی شرمندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرقان ۔۔۔۔ فرقان اٹھو تمھارا شو ہے آج کالج نہیں جانا ؟؟؟؟ بہن کی آواز سے آنکھ کھلی تو حواس بحال ہوتے ہی یاد آیا آج تو قائداعظم ڈے ہے۔فنکشن میں میرا گانا ہے۔جلدی جلدی تیاری کے ساتھ میں گانے کے لیرکس دہرائے۔

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہویئ حیران
اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان

پروگرام کامیاب رہا۔ میرے ساتھ ساتھ میرے باقی دوستوں نے بھی قائداعطم کی جدوجہد اور فرمودات پہ خوب داد سمیٹی ( آخر رٹا بھی تو اچھا لگایا تھا ہم نے) پہلا انعام حسب معمول علی نے جیتا۔ اور اسی خوشی میں اس کے گھر آج بولی وڈ تھیم کی پارٹی پلان تھی۔مگر میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ بایئک کو کک لگاتے ہوئے ایک غمزدہ اداس چہرہ مجھے اندر ہی اندر شرمندہ جو کر رہا تھا۔

فرقان اپنا خواب اور اپنی کیفیت بتا کر چلا گیا اور مجھے سوچنے پہ مجبور کر گیا کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو قائداعظم کے حوالے سے واقعی کنفیوژ کر دیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے