پی آئی اے پر سیاست بازی

رہبر ملت و رہنماء، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو جہاں آزادی کے بعد پیش آنے والے دیگر مسائل کا ادراک تھا وہیں وہ ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے قومی فضائی کمپنی کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف تھے۔ پاکستان بننے سے ایک سال قبل اپنے دوست اور ممتاز صنعت کار ایم اے اصفہانی کو ترجیحی بنیادوں پر ایک فضائی کمپنی قائم کرنے کا مشورہ دیا۔ 1946 کو بر صغیر میں ’’اورینٹ ایئرویز‘‘ کے نام سے ایک ایئر لائن نے جنم لیا، جس کے چیئر مین ’’ایم اے اصفہانی ‘‘‘ تھے۔ اورینٹ ایئر ویز تقسیم ہندسے پہلے قبل ہندوستان کی پہلی اور واحد مسلم ملکیت ایئر لائن تھی۔ 11 مارچ 1955ء کو حکومت پاکستان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی تشکیل پر اورینٹ ایئر ویز اور دیگر ایئر لائنز کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ساتھ ضم کر دیا۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (PIA) نے اپنا پہلا غیر ملکی سفر کا آغاز کراچی، لندن، ہیتھرو سے کیا۔ 1959ء کے بعد پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر ایئر مارشل نور خان نے ادارے کی ترقی میں اہم کردار کیا اور پی آئی اے کا شمار دنیا کی معروف ایئر لائنز میں ہونے لگا۔ قومی ایئر لائن کا سلوگن ’’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘ نے دُنیا بھر میں شہرت پائی۔ دنیا کی کئی معروف ایئر لائنز کے شروع کرنے میں اہم کردار کیا۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے دوسری ممالک کی ائر لائنز کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والی پاکستان کی قومی فضائی کمپنی مسلسل روز بہ زوال ہے۔ گزشتہ سالوں کے دوران مختلف ادوار میں پی آئی اے میں اعلیٰ عہدوں پر نااہل و ناتجربہ کار لوگوں کی تعیناتی، سیاسی بنیادوں پر غیر ضروری بھرتیاں، کرپشن، اقرباء پروری، ملازمین کی ہڑتالوں اور مالی بدانتظامیوں کے باعث آج پی آئی اے ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ معاشی طور پر ریڈھ کی ہڈی کے مترادف اِ س قومی ادارے کی زبوحالی کا زمہ دار وہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو اپنی زوال پزیر سیاسی ساکھ کو عروج بخشنے کی جستجو میں ہمہ وقت مستعد نظر آتے ہیں اور قومی مسائل پر سیاست کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ ادارے کی زوال پزیری کا دوسرا پہلو ملازمین کی مسائل کے حل کے قائم لیبر اور ٹریڈ یونینز جو اب ایک مافیا کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اِن کو ہمیشہ سے مختلف سیاسی جماعتوں کی آشیربادحاصل رہی ہے۔ لیبر اور ٹریڈ یونینز کی بلیک میلنگ اور نا جائز ہڑتالوں نے رہی کسر پوری کردی۔ پی آئی اے مین حالیہ ہڑتال میں ہم نے یہی سب کچھ دیکھا کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے قومی ادارے کی زبوحالی کی اصل وجہ جانتے ہوئے بھی سیاستکاری سے گریز نہیں کیا۔ پی آئی اے ایک قومی ادارہ ہے مگر حزبِ اختلاف نے اِس ادارے کی اہمیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھرپور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے ایک بار پھر مسلۂ کو سیاست کی بھینٹ چڑھا نے کی کوشش کی۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ہر مسلئے پر سیاست کرنا اور سیاسی مقاصد حاصل کرنا کلچر بن چکا ہے، جس کا واضع ثبوت اپوزیشن لیڈر محترم خورشید شاہ صاحب نے دیا۔ نہ آشنائی اور غیر سنجیدگی کا عالم یہ تھاکہ موصوف نے سوشل میڈیا پرچلنے والی جعلی تصویر پر اصلی غصہ نکال ڈالا۔ سیاسی بصیرت، شعور کا اندازہ کیجئے کہ جعلی تصوریر کے ساتھ جو بینر لگایا گیا تھا، اُس پر واضع طور پر جیئے بھٹو کا نعرہ لکھاہوا تھا۔پی آئی اے کا ملازمین پر تشدد کے حوالے سے بھی جناب خورشید شاہ صاحب نے خوب دلِ کی بھڑاس نکالی مگر پھر بھول گئے کہ11 فروری2011 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، پاکستان کے ائر پورٹ تھے، پی آئی اے کے ملازمین اور پولیس کے ڈنڈے تھے۔ ملازمین پر پولیس کے جانب سے بدترین تشدد کی وڈیوز آج بھی سوشل میڈیا کی زینت ہیں۔ محترم خورشید شا ہ صاحب غصہ ضرور نکالیے، آپ اپوزیشن لیڈر ہے، با عزت سیاستدان ہیں،مگر تحقیق کیئے بغیر اور حقیقت جانے بغیر ردعمل ظاہر نہ کیجئے کیونکہ یہ بعد میں آپ کی پارٹی اور آپ کے لیے سبکی کا باعث بنتا ہے۔حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت کے غلط اقدام پر تنقید ضرور کریں مگر ماضی کی تلخ حقائق کو ذہین میں رکھ کر ۔

اب بات کرتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی جس نے بھرپور سیاست کی قوم مسلئے پر۔ سیاسی رنجش اور ذاتی عناد اپنی جگہ پر مگر گزارش صرف اتنی سی تھی کہ حزبِ اختلاف کا کردار نبھاتے ہوئے قو م کو ماضی کی حکومتوں کے بھیانک کارناموں سے قوم کو آگاہ کرتے۔ حکومتِ وقت پر تنقید ضرور کریں مگر ساتھ ہی قوم کے سامنے گزشتہ حکومتوں کی کار گزاریاں ، نااہلیت اور بے مثال کرپشن کی داستان بھی بیان کردیتے تو کتنا ہی اچھا ہوتا۔ قوم فیصلہ کرسکیں کہ حقیقت کیا ہے اورفسانہ کیا۔ بعض اوقات تو حیرانگی بھی ہوتی کہ عمران خان صاحب سابقہ دورِ حکومت کو موجودہ حکومت سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ شاید وہ بھول گئے پاکستان پیپلز پارٹی کا گزشتہ دورِ حکومت پاکستان کی جمہوری تاریخ کا بد ترین دور قرار پایا۔یا د رہے کہ سابقہ دورِ حکومت میں پاکستان ریلوے برباد ہوچکی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کی سنجیدگی اور وزیر ریلوے کی کاوشوں نے اِس ادارے کو ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑا کردیا۔اِن اداروں کی ابتر صورتحال دیکھ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ پاکستان ریلوے کی طرح پی آئی اے ، اسٹیل ملز کے مرکزی دفاتر اگر لاہور میں ہوتے تو یقیناًابتک بہتری کا جانب رواں دواں ہوتے۔ حکومت وقت کے پاس پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کے منصوبے تو بہت ہیں لیکن سیاستکاری اور سیاسی مصلحتیں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ حزبِ اختلاف نے سیاست کو اپنا قومی فریضہ سمجھ کر پی آئی اے پر بھرپور سیاست کی تو دوسری جانب ہمارا آزاد میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ مختلف چینلز پر معزز اینکر صاحبان اپنے مخصوص ایجنڈ ے کے ساتھ موجودہ حکومت پر تنقید کے تیر برساتے نظر آرہے تھے۔ حقائق کے برعکس پروگرام تواتر سے نشر ہوتے رہے۔ صحافتی اقدار کو تقویت ملتی جب ہمار ے نامور اینکر حضرات اِ ن اداروں کی تبا ہ و بربادی کی کہانی گزشتہ ادوار سے سناتے تاکہ اُن کی جانبداری پر کوئی پر اُنگلیاں نہ اُٹھتی۔

قومی ائر لائنز کی تباہی کے بڑے ہی چشم کشا حقائق ہیں۔ سابقہ دورِ حکومت میں دیگر قومی اداروں کی طرح پاکستان کی قومی فضائی کمپنی میں بھی بے تحاشا سیاسی و غیر قانونی بھرتیاں اور کرپشن کی کی گئی۔ پاکستان میں نجکاری 1985میں سے ہو رہی ہے۔ پرائیویٹ انویسٹمنٹ اور نجکاری ہر دورِ حکومت کی قومی پالیسی رہی ہے۔2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں سی سی آئی میں متفقہ طور پر پی آئی اے کی نجکاری منظور کرچکی ہے. 2002 سے 2007تک پی آئی اے ایک منافع بخش قومی فضائی کمپنی تھی۔ اِس کے علاوہ اسٹیل ملز نے 2000 سے 2007 تک منافع کیا، ملازمین کو ڈیوینڈ دیا، نقصانات ختم کیے اور قرضوں کی وقت سے پہلے ادائیگی کی گئی۔ آج پی آئی اے کو جو 300 ارب کا خسارہ کا سامنا ہے اُس میں 157 ارب کا خسارہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت کی اِس ادارے میں سیاسی مداخلت اور غیر ضروری بھریتوں کا شاخسانہ ہے۔ 2013میں پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کو 40ارب کا نقصان کا سامنا تھا۔ اُس وقت کے پی آئی اے کی منیجنگ ڈائیریکٹر اعجاز ہارون نے اِ س قومی ادارے کو بینک کرپٹ اور دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ 16 مارچ 2010 میں اُس وقت کے وزیر دفاع اور چیئر مین پی آئی اے چودھری احمد مختار فخریہ انداز میں قوم کو بتلارہے تھے کہ پی آئی اے نے اِس سال54 ارب کا نقصان کیا ہے اور پچھلے سال یعنی 2009میں 39 ارب کا نقصان کیا تھا۔

26 جنوری سے جاری پی آئی اے ملازمین کا احتجاج آخر کار 08فروری کو اختتام کو پہنچا۔ مگر اِس دوران مسافروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے سے ہی خستہ حالی کا شکار پی آئی اے کو کو 2 ارب سے زاید نقصان کا اُٹھانا پڑا اور سب سے بڑھ کر 2 انسانی جانوں نقصان جس کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا۔ ہمددردی کے دو بول اور مالی امداد لواحقین کے غموں کے مرہم نہیں بن سکتے۔ حکومت ، اپوزیشن اور لیبر یونیز کے عہدے داروں کے لیے لازم ہے کہ قومی ایئرلائن کی تعمیر و ترقی کے لیے ایسے اقدمات اٹھائیں کہ ہمیشہ کے لیے احتجاج اور ہڑتالوں سے کنارہ ہوجائے اور ایک بار پھر "باکمال لوگ لا جواب سروس” کا چرچا دُنیا بھر ہو۔اسٹیل ملز، پی آئی اے، واپڈا کو چلانے کیلئے حکومت ہر سال تقریباً 500 ارب روپے غریب عوام کے ٹیکسوں سے ادا کرتی ہے۔ ملازمین کے روزگار کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے ان اداروں میں شفاف انتظامی اصلاحات، اضافی مالی وسائل اور پروفیشنل مینجمنٹ کے ذریعے ان اداروں کو منافع بخش بنانے کے لیے فوری قدم اٹھائے۔ ملک ترقی، خوشحالی اور دُنیا میں اعلیٰ مقام دلوانے کے لیے حزبِ اختلاف کو قومی اداروں کی تعمیر نوں میں حکومت کا بھرپور ساتھ دینا چاہے۔ کیونکہ ادارے کا نقصان ملک کا نقصان، قوم کا نقصان۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے