باغیوں کی بدلتی سوچ

ملحدین، دہریے اور مادیت پرست یا کسی بھی خدائی تصور کے مُنکرین کو ہمارے پاکستانی سماج میں فقط قابلِ اعتراض ہی نہیں بلکہ قابلِ تعزیر سمجھا جاتا ہے. اکثریت اِس گروہ کو قابلِ گردن زنی سمجھتے ہیں، حالانکہ ابھی تک اِس بحث کو سمیٹا نہیں جا سکا کہ الحاد کی اسلام میں کیا سزا موجود ہے؟ اِس کیفیت کی تبدیلی کی کوئی اُمید بھی مستقبل قریب میں بالکل نہیں. پاکستان کے علاوہ باقی مذہبی دنیا بھی اِن ملحدین و مادیت پرستوں کو لعن طعن کرتی ہے. لیکن یہاں ایک بات جو قابلِ توجہ ہے کہ دنیا میں ملحدین و منکرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے.

دہریت اپنے لغتی معنوں کے اعتبار سے اور اصطلاح میں بھی ایک ایسے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے کہ جب کوئی خالق کی تخلیق سے انکاری ہو اور زمان (وقت) کی ازلی اور ابدی صفت کا قائل ہو؛ یہ مفہوم ہی لفظ دہریت کا وہ مفہوم ہے کہ جو قرآن کی آیات سے ارتقاء پاکر اور مسلم فلاسفہ و علماء کی متعدد تشریحات کے بعد خاصے وسیع معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے اور اسکے تخلیق سے انکاری مفہوم سے منسلک ہونے کی وجہ سے مذہب سے انکاری ہونے کے معنوں میں بھی استعمال میں دیکھا جاتا ہے. یہ اصطلاح بنیادی طور پر ایک ایسے شخص کے لیے یا عقیدے کے لیے آتی ہے کہ جو وقت کی لافانی حیثیت کو مانتا ہو اور اسکی کسی خالق کے ذریعہ تخلیق کا انکاری ہو، پھر یہ مفہوم پھیل کر تمام اقسام کے خدا کے انکاری عقائد تک استعمال ہونے لگا، اور بعض اوقات اِسی مفہوم کو چند ایسے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے کہ جس میں مذہب سے ہٹاؤ پایا جاتا ہو۔ یعنی یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ دھریہ ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ جو (ماضی اور مستقبل دونوں جانب) دنیا کی لافانیت کا قائل ہو اور (وسیع مفہوم میں) موت کے بعد کسی اور صورت یا کسی اور دنیا میں دوسری زندگی کا انکاری ہو اور دوسرے یہ کہ لفظ دھریت ایسے معنوں میں بھی مستعمل دیکھا گیا ہے کہ جو بنیادی طور پر الگ مفہوم رکھتے ہیں یعنی کہ اپنے عقیدے سے انکار تو نہیں مگر ہٹاؤ یا انحراف کرنے کے معنوں میں بھی دیکھا جاتا ہے.

دیکھنے میں آیا کہ ماضی اور حال کے ہمارے کئی سائنس دان جنہیں ہم ہیرو سمجھتے ہیں کی بہت بڑی تعداد دہریت کی پیروکار ہے. اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سائنسی دنیا سے وابستہ افراد دوسرے عام لوگوں کی نسبت زیادہ دہریت کی طرف گئے ہیں. موجودہ تحریر ایسے ہی چند دہریے، ملحد یا مادیت پرست سائنسدانوں کی کہانی ہے. سب سے پہلے "سٹیفن ہاکنگ” کا زکر کروں گا.

موجودہ عہد میں سٹیفن ہاکنگ کو آئن سٹائن کے بعد بڑا مقام حاصل ہے. سٹیفن ہاکنگ ایک خطرناک بیماری سے دو چار ہیں اور کرسی سے اٹھ نہیں سکتے، ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتے اور بول نہیں سکتے۔ مگر وہ دماغی طور پر صحت مند ہیں. بلند حوصلگی اور بلند ہمتی کیساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک خاص کمپیوٹر کی مدد سے وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرتے ہیں. معذوری اور بیماری اِس عظیم محقق کو تحقيق کر نے سے نہیں روک سکتی۔ اُنکا بنیادی کام تھیوریٹیکل کاسمولوجی اور بلیک ہولز کے حوالے سے ہے. اُنکی شہرہ آفاق کتاب "وقت کی مختصر تاریخ” کو ایک انقلابی حیثیت حاصل ہے. یہ ایک نہایت اعلی پائے کی کتاب ہے جس سے ایک عام قاری سے لیکر اعلٰی تریں محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

سٹیفن ہاکنگ، جسے ڈاکٹروں نے اکیس سال کی عمر میں ہی بتا دیا تھا کہ وہ دو تین سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گا، آج زندہ و جاوید و کامران ہے، ہاکنگ کسی بھی خدائی تصور اور معجزے کا منکر ہے. اُس کی طرف سے لکھی جانے والی اُسکی آٹھویں کتاب "دی گرینڈ ڈیزائن” میں وہ سوالات کا جواب دینے کیلیے کسی اندازے، قیاس آرائی یا مفروضے سے کام نہیں لیتے بلکہ مُحکم سائنسی ثبوتوں اور تجربات کی مدد سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں. یہی سبب ہے کہ ہاکنگ کو رد کرنا بےحد دشوار ہو جاتا ہے۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ موضوع کی گھمبیرتا کے باوجود ہاکنگ نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ یہ کتاب محض کوانٹم فزکس کے کسی سکالر کے ہی نہیں بلکہ ایک عام آدمی کے پلے بھی پڑ جائے اور اپنی اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے. ہاکنگ نے اِس کتاب میں کہا ہے کہ انسان نے نہایت قلیل مدت میں ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ اگر صحیح معنوں میں حساب لگایا جائے تو انسان کی فِکری تاریخ دو اڑھائی ہزار سال سے زیادہ پرانی نہیں اور اگر ہم اتنی مختصر مدت میں یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو ذرا سوچئے کہ ایک ایسی عالمگیر تھیوری کا ظہور، جس میں کائنات سے متعلق تمام سوالات کا جواب ہوگا، اب کتنی دیر کی بات ہے؟ ہاکنگ اس عالمگیر تھیوری کو ’’ایم تھیوری‘‘ کا نام دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تھیوری بہت ساری تھیوریز کا مجموعہ ہو گی جس میں کائنات کے تمام حیران کن تجربات کو سمیٹ کر انسانی ذہن کے لئے ایک مربوط جواب تیار کیا جائے-

ہاکنگ کہتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک زندگی کے ظہور کے لئے حیران کن اتفاقات کا ایک لا متناہی سلسلہ درحقیقت خدا کے وجود کی دلیل ہے کیونکہ خدا کے بغیر اس نوع کے ناقابل یقین اتفاقات وقوع پذیر نہیں ہو سکتے۔ لیکن اُس کے نزدیک ایسا نہیں ہے. ہماری کائنات، ان گنت کائناتوں میں سے ایک ہے، اِسی طرح ہمارا نظامِ شمسی بھی اربوں نظاماتِ شمسی میں سے ایک ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے نظامِ شمسی کے حیران کن اتفاقات کسی طرح بھی انوکھے نہیں کیونکہ اِس طرح کے اربوں نظام نہ صرف چل رہے ہیں بلکہ دوڑ رہے ہیں اور قدرت کے قوانین کی fine-tuning کو ان گنت کائناتوں کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے. ہاکنگ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہماری کائنات اور اِس کے قوانین زندگی کو جنم دینے کے لئے اِس طرح ’’ڈیزائن‘‘ کئے گئے ہیں کہ اگر یہ اِس طرح سے نہ ہوتے تو پھر ہم بھی نہ ہوتے ۔۔۔ ایسا کیوں ہے اور کس وجہ سے ہے؟ ہاکنگ صرف سوال اٹھا کر رکھ نہیں دیتا بلکہ جواب بھی دیتا ہے. ہاکنگ کا کہنا ہے کہ کائنات کی تخلیق میں کسی “ان دیکھے تخلیق کار” کا تصور سائنس کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہاکنگ کے مطابق “بِگ بینگ” محض ایک حادثہ یا پہلے سے پائے جانے والے سائنسی یا مذہبی عقائد کے مطابق خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کا ناگزیر نتیجہ تھا۔

سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ انسان مختار نہیں بلکہ مجبور ہے اور چند ایسے طبعی قوانین کے تابع ہے جنہیں ثابت کیا جا چکا ہے۔ نیورو سائنس کی روشنی میں انسانی رویہ چند مخصوص قدرتی قوانین کے تحت کام کرتا ہے اور انسان کی خود مختاری محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ ہاکنگ کہتا ہے کہ ہمیں یہ بات اِس لئے ہضم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کسی بھی اقدام کے نتیجے میں انسانی رویّے کی پیشین گوئی نہیں کرسکتے چنانچہ ہم یہ اخذ کر لیتے ہیں کہ انسان خود مختار ہے جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے.

سٹیفن ہاکنگ کے بعد “ابوبکر محمد ذکریا الرازی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کہ تاریخ میں عظیم ترین طبیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ الرازی نے تاریخ میں پہلی بار خسرہ اور چیچک کے فرق کو واضح کیا، عمل کشید کو بہتر بنایا اور شاید تاریخ میں پہلی بار اس نے میڈیکل ایتھکس کا تصور متعارف کرایا۔ دنیا کی تاریخ میں جہاں بہت سے طبیبوں کا نام آتا ہے وہاں “ابوبکر محمد بن زکریا رازی” کا نام علم طب کے امام کی حیثیت سے لیا جاتاہے۔ ان کی سب سے مشہور کتاب “حاوی” اسی زمانے کی یاد گار ہے۔ حاوی دراصل ایک عظیم طبی انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں انہوں نے تمام طبی سائنس کو جو متقدمین کی کوششوں سے صدیوں میں مرتب ہوئی، ایک جگہ جمع کردیا اور پھر اپنی ذاتی تحقیقات سے اس کی تکمیل کی۔ فن طب کا یہ امام 932ء میں 92 سال کی عمر پانے کے بعد انتقال کرگیا۔

وہ نہا یت آزاد خیال اور روشن فکر سائنس دان تھا. وحی کے بارے میں پائے جانے والے عمومی تصور سے وہ متفق نہیں تھا۔ وہ مذہب کے سماجی استعمال کو بنی نوع انسان کے لئے ضرر رساں خیال کرتا تھا۔ الرازی کو توہین مذہب کے الزام میں سزا دی گئی اور اس کی کم و بیش سبھی کتابوں کو جلا دیا گیا تھا۔ رازی اسلاف پرستی کے سخت خلاف تھا۔ وہ منقولات کی حاکمیت کو نہیں تسلیم کرتا بلکہ عقل و تجربے کو علم کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے. الرازی کا کہنا تھا کہ انسان کو لازم ہے کہ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھے اور منقولات کے بجائے حقیقی واقعات پر بھروسہ کرے. الرازی نے کہا کہ ہم کو فلسفے اور مذہب دونوں پر تنقید کرنے کا پورا حق ہے۔ الرازی معجزوں کا منکر تھا کیونکہ اُس کے مطابق معجزے قانون قدرت کی نفی کرتے ہیں اور خلاف عقل ہیں ۔ وہ مذاہب کی صداقت کا بھی چنداں قائل نہیں تھا، اُس کے مطابق مذاہب عموما حقیقتوں کو چھپاتے ہیں اور لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا کرتے ہیں. امیر وقت کو الرازی کے نظریات سے اتنا شدید اختلاف تھا کہ اس نے حکم جاری کیا کہ الرازی کی کتاب مصنف کے سر پر اُس وقت تک زور زور سے ماری جائے جب تک کہ کتاب یا سر دونوں میں سے کوئی ایک پھٹ نہ جائے۔ ضعیف طبیب نے یہ سزا برداشت کرلی لیکن کچھ مورخوں کا خیال ہے کہ عمر کے آخری ایام میں اس کی بینائی چلے جانے کی وجہ اسی واقعے سے لگنے والی سر اور دماغ کی چوٹیں تھیں.

آندرے شیخاروف کے بقول اُسے سائنسی تحقیق کے دوران خدائی وجود کے حق میں ایک شہادت نہیں ملی. آندرے شیخاروف سویت روس کا نیوکلیئر فزکس کا معروف سائنسدان بھی ملحد تھا. اُسکی ماں ایک پکی مذہبی عورت تھی اور اُسکا باپ ایک مکمل دہریہ تھا. جبکہ وہ ابتدائی عمر ہی سے دہریہ تھا. آندرے روسی ایٹم بم بنانے والے پروگرام کا معتبر ترین فرد تھا. انسانی حقوق اور آذادی اظہار رائے کے حوالے سے اُسکی جدوجہد اور خدمات کے صلے میں اُسے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا. لینن اور سٹالن ایوارڈ کا بھی حقدار ٹھہرایا گیا. کاسمالوجی کے میدان میں بھی اُس نے خاطرخواہ کام سرانجام دیئے. سٹائن کے عہد کے جبر کے خلاف بھی آندرے نے بھرپور آواز اٹھائی اور انسانی حقوق کی خلاف وزیروں کے خلاف کافی جدوجہد کی. اُس جدوجہد کے دوران آندرے کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دُھونا پڑا، بھوک ہڑتال کرنے پر بھی مجبور ہوا اور جبروتشدد کا بھی سامنا کیا.

بلب کا موجد، مشہور سائنسدان “تھامس ایڈسن” بھی ایک دہریہ تھا. ایڈسن کے مطابق حیات بعد از موت، جنت و جہنم اور خدا کے وجود کے مذہبی عقائد بےبنیاد ہیں کیونکہ اِن عقائد کے کوئی سائنسی ثبوت نہیں ملتے. ایڈسن نے کہا کہ میرے جسم میں کسی روح کا کوئی وجود نہیں بلکہ اُسکا جسم خلیوں کا ایک مجموعہ ہے، میں اپنے جسم کی تخلیق کو جدائی معاملہ بالکل بھی نہیں سمجھتا. ایڈسن نے مذہبی عقائد کو ایک بکواس کا نام بھی دیا.

مذہبی حلقوں کی طرف سے دہریوں کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ اُنکے پاس اخلاقی جواز، جرات، اخلاص اور جذبہ محرکہ کا فقدان ہے. مگر آج ملحدوں نے آندرے شیخاروف کے نام میں اخلاقیات دیکھی ہے، ہاکنگ کی شکل میں ملحدین کو مقصدیت ملی ہے، یوجینی سکاٹ اور الفریڈ کِنسے کے روپ میں اخلاص کے پیکر ملے ہیں، ایلن ٹورنگ اور نیل ٹائسن نے ملحدین کو جذبہ محرکہ عطا کردی ہے. الرازی، ایڈسن اور روزالنڈ فرینکلن نے ہمتِ کفر اور جراتِ تحقیق کی راہیں ہموار کی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے