عالی جاہ ،انصاف ہونا چاہیئے

پنجابی کا محاورہ ہے جس نے گاجریں کھائی ہوں اس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے، جس نے بدعنوانی کی ہو اسے پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ نیب سندھ میں جب تک پیپلزپارٹی کے خلاف کارروائی کر رہا تھا تو پاکستان میں اس سے اچھا ادارہ کوئی نہیں تھا اس نے رخ پنجاب کی طرف موڑا تو اس کے ناخن تراشنے کی باتیں شروع ہو گئیں ۔ رانا مشہود کہتے ہیں کہ میڈیا میرا ٹرائل کر رہا ہے یوتھ فیسٹیول میں لگنے والے الزامات پر ایف آئی اے نے مجھے کلین چٹ دے دی۔ نیب کو حق نہیں بنتا کہ وہ مجھے تنگ کرے۔ وافقان حال کہہ رہے ہیں کہ رانا مشہود پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کے کھرے حمزہ شہباز شریف تک جاتے ہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ اگر دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو نام بدل دوں گا۔ عالی جاہ آپ درست کہہ رہے ہیں ات دھیلے کی نہیں اربوں کی ہے آپ انصاف اور احتساب کا ورد ہر وقت کرتے رہتے ہیں ذرا قوم کو یہ تو بتائیے کہ آپ نے کتنوں کو انصاف دیا۔ کسی غریب کی بچی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو آپ بھاڑے کے ٹٹووں کو ساتھ لے کر کیمروں کی چکا چوند میں فوٹو سیشن کیلئے انصاف اور احتساب کا نعرہ تو لگا دیتے ہیں پھر رات گئی بات گئی کے مصداق سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس قوم و ملک میں انصاف ختم ہو جائے تباہی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

کہتے ہیں طوطے کا ایک جوڑا دن بھر کی مسافت کے بعد رات گزارنے کیلئے ایک ویران گاؤں میں رکا ، گاؤں کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر طوطی نے طوے سے پوچھا ’’کس قدر ویران گاؤں ہے ہر طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا ہے تمہارے خیال میں یہ گاؤں کس وجہ سے اجڑا ہو گا‘‘ طوطے نے کچھ دیر سوچا ، ایک ٹھنڈی آہ بھر کر طوطی کی طرف دیکھا اور بولا’’میرا خیال ہے الووں کی وجہ سے‘‘ جس وقت طوطا طوطی کو گاؤں اجڑنے کی وجہ بتا رہا تھا عین اس وقت الو بھی وہاں سے گزر رہا تھا اس نے طوطے کی بات سنی وہاں رکا ان سے مخاطب ہوا تم اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو سفر کی تھکان بھی آپ کے چہروں سے عیاں ہے میرا گھر قریب ہے اس اجڑے گاؤں میں رات گزارنے سے بہتر ہے کہ آج آپ میرے مہمان بنیں صبح اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جانا ، الو کی محبت بھری دعوت کو طوطے کا جوڑا ٹھکرا نہ سکا ، دونوں الو کے ساتھ اس کے گھر پہنچے اس نے شاندار اور پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا ، تینوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا اور آرام دہ بستر پر رات گزاری صبح ہونے پر جوڑے نے الو کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور اگلی منزل کی طرف جانے کی اجازت چاہی ۔ الو مسکرایا ، طوطے کی طرف دیکھا اور بولا آپ جا سکتے ہیں لیکن طوطی نہیں جائے گی۔

طوطے نے حیرت سے پوچھا کیوں؟ الو بولا اس لئے کہ طوطی میری بیوی ہے۔ طوطا چلایا ، رویا ، دھویا یہ کیسے ہو سکتا ہے تم الو ہو اور ہم طوطے ۔ایک طوطی الو کی بیوی نہیں ہو سکتی یہ بے ڈھنگا جوڑ ہے الو نے اطمینان سے جواب دیا تم مانو یا نہ مانو لیکن طوطی میری بیوی ہے اور اپنی بیوی کو تمہارے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دوں گا۔ دونوں میں جب بحث و تکرار حد سے بڑھ گئی تو الو نے طوطے کو ایک تجویز دی ایسا کرتے ہیں کہ ہم تینوں عدالت چلتے ہیں قاضی جو بھی فیصلہ کرے گا وہ ہمیں قبول ہو گا۔ الو کی تجویز پر طوطی اور طوطا مانگ گئے تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے طوطے نے اپنا مقدمہ عدالت میں دائر کیا اور طوطی کو اپنی بیوی قرار دیا۔ قاضی نے الو کو کٹہرے میں بلایا الو نے حلف دیا کہ جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا اس کے بعد اس نے قاضی کے سامنے طوطی کو اپنی بیوی قرار دینے کیلئے دلائل کے انبار لگا دیئے الو کے جواب میں طوطے نے اپنے جوابی دلائل دیئے لیکن بدقسمتی سے الو کے دلائل طوطے کے دلائل سے زیادہ مضبوط تھے، چنانچہ قاضی نے دلائل کی روشنی میں الو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کر دی ، طوطا اس بے انصافی پر روتا رہا، چلاتا رہا ، انصاف کی دہائی دیتا رہا مگر اس کی بات سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ناکامی اور نامرادی کی حالت میں طوطا بوجھل دل کے ساتھ رخصت ہونے لگا تو الو نے اسے آواز دی بھائی اکیلے کہاں جاتے ہوں اپنی بیوی کو تو ساتھ لے جاؤ طوطے نے حیرانی سے الو کی طرف دیکھا اور بولا عدالت نے بھی تیرے حق میں فیصلہ دے دیا آپ کیوں میرے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہو۔

الو نے طوطے کی بات سنی وہ ہنسا اور بولا میرے بھائی یہ سب ڈرامہ تھا میں تمہیں عدالت اس لئے لایا ہوں کہ تمہیں اس گاؤں کے اجڑنے کی وجہ بتا سکوں۔ جب ملک کے قاضی بکتے ہوں اور عدالتوں کی سرعام بولی لگتی ہو، جہاں قانون طاقتور کی مٹھی میں ہو اور کمزوروں کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہو تو وہ ملک تباہ و برباد ہو جایا کرتے ہیں۔ اگر اپنے ملک کو اجڑنے اور برباد ہونے سے بچانا چاہتے ہو تو ملک میں کبھی بھی بے انصاف نہ ہونے دینا ، یاد رکھو میرے بھائی معاشرے ، گاؤں اور ملک الووں کی نحوست کی وجہ سے نہیں اجڑتے بلکہ بے انصافی کی وجہ سے اجڑ جاتے ہیں، نحوست الوو میں نہیں ہوتی ظلم اور بے انصافی میں ہوتی ہے۔ ہمارے محبوب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نیب کے ناخن تراشنے کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھی بتائیں کہ جن ڈریکولوں نے اس قوم کا خون چوسا ان کے ناخن کون کھینچے گا؟ انصاف اور احتساب سب کا ہونا چاہیے نہیں تو تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے