پاکستان کرکٹ لیگ کے نام پر پاکستان کے خلاف انتہائی خوفناک کھیل ؟

بحثیت صحافی یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں کسی چیز کا ظاہری چہرہ دیکھ کر فیصلہ کرنے کے بجائے اس کے دونوں رخ دیکھوں اور اس کے بعد اپنا تجزیہ یا تبصرہ پیش کروں ۔ بدقسمتی سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس وقت پاکستانی صحافت میں یہ رحجان تیزی سے زوال پزیر ہے ۔ صحافی ڈگڈی پر کسی کو جانچے بغیر ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور جب ان کا نشہ اترتا ہے تو انہیں سمجھ آتی ہے کہ کس طریقے سے انہیں بے وقوف بنا کر استعمال کیا گیا تھا ۔ بعد میں وہ لوگوں کو اصل بات بتاتے ہوئے بھی شرماتے ہیں کہ کہیں لوگوں کا اعتماد بالکل ہی ختم نہ ہو جائے ۔

میں اس وقت کوئی لمبی چوڑی تحریر لکھنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں اور خصوصا اس وقت جب پوری قوم جشن منا رہی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت ایک طرف ملک میں پاک فوج آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے تو دوسری جانب نیشنل ایکشن پلان چل رہا ہے ۔ پوری دنیا سے سرمایہ کاروں کو پاکستان لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب کامیاب ہو رہے ہیں ۔ ٹھیک اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ پاکستان کرکٹ لیگ کو دبئی کے میدانوں میں منتقل کر دیتے ہیں ۔

پوری دنیا پوچھتی ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں کیوں نہیں کھیل رہا تو جواب ملتا ہے کہ ” پاکستان میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے ، جس کی وجہ سے ہم دبئی میں پاکستانی کرکٹ کھیل رہے ہیں ” اب آپ اپنے سینے سے زرا نیچے دائیں طرف دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ” کیا یہ نیشنل ایکشن پلان کے خلاف ایک منظم سازش اور آپریشن ضرب عضب کے خلاف عالمی برادری کے سامنے خود کو ننگا کر نے والی بات نہیں ؟ ۔

دوسری بات جو میں آپ کے گوش گزار کرنے لگا ہوں وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ، وہ یہ کہ پاکستان کرکٹ بورڈ گذشتہ بیس برس سے شاہد آفریدی کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا ۔ اس بار شاہد آفریدی کے خلاف کرکٹ کے لاہور مافیا نے ایک گندا منصوبہ بنایا گیا،گراؤنڈ میں شاہد آفریدی کے خلاف ایک بنگالی عامل کی خدمات لی گئیں ۔ شاہد آفریدی کواس تمام سازش کا علم ہو گیا، انہوں نے دبئی جانے سے پہلے جیو نیوز کے معروف اینکر سلیم صافی کو اس ساری سازش کے بارے میں آگاہ بھی کیا ۔ سلیم صافی نے شاہد آفریدی سے کہا کہ وہ کراچی میں اے این پی کے رہ نما شاہی سید کے گھر آ جائیں ۔ تینوں وہاں سے اکٹھے کلفٹن میں واقع بار بی کیو ٹو نائٹ پر گئے جہاں انہوں نے کھانا کھایا ۔ کھانے کے بعد شاہد آفریدی نے سلیم صافی اور شاہی سید کو سارا واقعہ سنا دیا ۔سلیم صافی نے پہلے تو ان کی اس بات کو مذاق میں اڑا دیا تاہم جس پر شاہد آفریدی نے ناگواری کا اظہار کیا ۔ شاہد آفریدی کو رنجیدہ دیکھ کر سلیم صافی نے کہا کہ ” یہ جادو وغیرہ کچھ نہیں ہوتا ، میں ابھی آپ کی جاوید احمد غامدی صاحب سے بات کراتا ہوں جس پر شاہی سید نے کہا کہ ” غامدی صاحب کو چھوڑیں وہ تو حدیث کو نہیں مانتے ، جادو کو کہاں مانیں گے، ان کی مولانا طارق جمیل صاحب سے بات کرائیں ”

اس پر شاہد آفریدی نےکہا کہ ” میرے پاس مولانا طارق جمیل صاحب کا ذاتی نمبر موجود ہے ، میں ان سے خود بات کر لیتا ہوں ۔ شاہد آفریدی نے نمبر ملایا لیکن مولانا طارق جمیل کا نمبر بند ملا ، رائے ونڈ مرکز سے علم ہوا کہ وہ آسٹریلیا کے علاقے Derna میں چلّے پر گئے ہوئے ہیں تاہم مرکز نے وہاں کے اسلامک سنٹر کا نمبر دے دیا ۔ Derna اور کراچی کے وقت ساڑھے سترہ گھنٹے کا فرق ہے ۔ یعنی کہ جب یہاں رات کے دس بج رہے ہوتے ہیں ، ٹھیک اس وقت وہاں دوپہر کے ساڑھے بارہ بج رہے ہوتے ہیں ۔ Derna ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مغلوں کے دور میں مسلمانوں کی حکومت رہی اور آج بھی اس شہر میں مسلمانوں کے قائم کردہ عظیم علمی اور تحقیقی مراکز دیکھے جا سکتے ہیں ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب "دابة الارض” میں Derna کے بارے میں مکمل تفصیل لکھی ہے ۔ اس علاقے کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جنات نے ساڑھے گیارہ سو سال حکومت کی اور یہ دنیا میں جنات کی پہلی اسلامی حکومت تھی ، یہ جنات برصغیر کے مدارس میں بھی پڑھتے رہے۔ ان جنات نے مغربی افریقا کے ملک Yafranمیں ایک مسلمان تجارتی قافلے کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ خیر اس بارے میں مزید تفصیلات ڈاکٹر محمد اسد کی کتاب Yafran میں پڑھی جا سکتی ہیں ۔

آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ،،شاہد آفریدی نے سلیم صافی اور شاہی سید کے سامنے مولانا طارق جمیل صاحب کو سارا ماجرا سنا ڈالا تو مولانا طارق جمیل نے انہیں کچھ وظائف بتائےاور ساتھ کہا کہ وہ دبئی جانے سے پہلے جنید جمشید سے ضرور ملتے جائیں ۔ تین دن بعد جنید جمشید کا شاہد آفریدی کو فون آیا کہ ” آپ کہاں ہیں ، آپ کی امانت تیار ہے ” جس پر شاہد آفریدی نے پوچھا کہ کون سی امانت ” اس پر جنید جمشید پر انہیں کہا ” مجھے مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ آپ کے لئے آپ ایک خاص سوٹ تیار کیا جائے جسے آپ پہنیں گے "،کہا جاتا ہے کہ یہ سوت یافران کے جنات نے ایک خاص قسم کے درخت تیار کئے تھے ، ان کے پتوں سے بنتا ہے اور اس پر جادو اثر نہیں کرتا ۔روایات کے مطابق جب جنت میں وجود برہنہ ہوا تو اسی درخت کے پتوں سے انسان نے پہلی بار اپنا وجود ڈھانپا تھا اور شیطان کے جادو کا پتہ چلا تھا ۔

شاہد آفریدی جنید جمشید کے پاس گئے ، جنید جمشید نے شاہد آفریدی کو سوٹ دیا اور ساتھ کہا کہ آپ نے یہ سوٹ پہننا ہے اور میچ میں اپنی بیٹیوں کو ساتھ لیکر جانا ہے ۔ شاہد آفریدی نے کہا کہ ، بیٹیوں کو ساتھ لے جانے کیا ضرورت ہے ؟ اس پر جنید جمشید نے کہا کہ ” در اصل جب بنگالی عامل گراؤنڈ میں آپ کے خلاف عمل کر رہا ہوگا تو آپ کی بیٹیاں وظیفہ پڑھیں گی ۔بنگالی عامل کو کنٹرول کرنے کے لیے پندرہ برس کے کم عمر کا خونی رشتہ ضروری ہے ۔آپ کی بیٹیاں یہ وظیفہ پڑھیں گی جو اس عامل کے جادو کا مؤثر توڑ ہوگا ۔ شاہد آفریدی نے مولانا کی نصیحت کے مطابق سب کچھ کیا ۔

آپ نے میچ کے دوران دیکھا ہوگا کہ شاہد آفرید ی کی بیٹیاں سکارف پہنے مسلسل دعا کر رہی تھیں اور وظیفے پڑھ رہی تھیں ۔ اکثر لوگوں نے سوچا کہ شاید یہ شاہد آفریدی پشاور زلمے کی کامیابی کے پڑھ رہی ہیں حالانکہ ساری دنیا شاہد آفریدی کی کارکردگی کے بارے میں جانتی ہے ۔ شاہد آفریدی کی بیٹیوں کو روتا دیکھ کر ایک بدبخت نے تو یہاں تک لکھ دیا ، پیاری بیٹیو، تمھارا ابا پچھلے بیس برسوں سے پوری قوم کو رلا رہا ہے اور آج تمھیں بھی اس نے رلا دیا ۔ حالانکہ لڑکیوں کے رونے کا میچ کے ساتھ کوئی تعلق تھا ہی نہیں ۔ خیر آپ جانتے ہیں شاہد آفریدی کی کارکردگی کیسی رہی ؟ اس پر بات کرنا اس لیے فضول ہے کہ بنگالی بابے نے جس قسم کا دائرہ کھینچ رکھا تھا ، اس میں شاہد آفریدی کا زندہ نکلنا ہی بڑی بات ہے ۔ کرکٹ تو گئی بھاڑ میں ،،،

کرکٹ بورڈ یا شاہد آفریدی شاید سوچیں گے کہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا کرنا ہے ۔ میں تو شاہد آفریدی کے ساتھ ہوں کیونکہ میرا بینک اکاؤنٹ بھی حبیب بینک میں ہے ۔

اب تیسری اہم بات جو میں آپ کو بتا نا چاہتاہوں ، جو لوگ دبئی رہتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ دبئی میں اس موسم میں لوگ شام کے وقت کم نکلتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ دبئی میں مرطوب ہوا چلتی ہے جس سے انسان کے گھٹنے اور کمر میں مستقل مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ ڈاکٹرز اس موسم کو ہڈیوں کی تباہی کا موسم قرار دیتے ہیں ۔ دبئی کے ساحل پر ایک خاص قسم کی نمی ہوتی ہے جو زمین سے تیرہ سو فٹ بلندی تک قائم رہتی ہے ۔ دبئی میں گذشتہ دس برسوں کے دوران اس بیماری میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس کی وجہ سے یہ ہے دبئی ائیر پورٹ پر ہر پانچ منٹ میں ایک فلائٹ آتی ہے اور ایک جاتی ہے۔ یوں اس خوفناک سرکل کی وجہ سے فضا میں تنی اوزون کی چادر کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ اس سے بچاؤ کے لیے دبئی کے مزدور ایک خاص قسم کے زیریں جامے استعمال کر تے ہیں تاہم امارات کی حکومت اور میڈیا اس بات کو عام نہیں کرتا کیونکہ اس سے پوری سیاحت اور امارات کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو سکتا ہے ۔

اندرکی خبروں سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اب کرکٹ کھیل نہیں رہا بلکہ ایک فکس قسم کی منافع بخش گیم بن چکی ہے ۔ پاکستانی حکومت نے انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ سے گزارش کی کہ ورلد کپ کے ایک دو میچ پاکستان میں بھی کروا دیں تاہم آئی سی سی تیار نہیں ہوا ۔ اس مقصد کے لیے نجم سیٹھی نے آئی سی سی کے اعلیٰ حکام سے مزاکرات بھی کئے ۔ اب معلوم ہوا کہ آئی سی سی یہ نہیں بلکہ اس سے اگلا ورکڈ کپ پاکستان میں کرانے کے لیے مشروط طور پر تیار ہو گئی ہے ۔ اس کے لیے شرط یہ تھی پاکستان کرکٹ لیگ دبئی میں کرائی جائے ۔ دبئی میں پاکستان کرکٹ لیگ ہو تو گئی لیکن آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیسی شرط تھی ۔

یہاں سے شروع ہوتی وہ اصل کہانی جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا ۔ آئی سی سی نے نجم سیٹھی سے ورلڈ کپ کے میچز فکس کرنے کا کہا جس پر نجم سیٹھی نے کہا کہ ان پر پہلے ہی بہت الزام ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں ٹیم ورلڈ کپ میں بہتر پرفارم کرے ، اس لیے وہ میچ فکس نہں کر سکتے ۔ آئی سی سی نے ان سے کہا کہ اگر وہ میچ فکس کر دیں گے تو ورلڈ کپ کا اگلا ٹورنامنٹ پاکستان میں کرا دیں گے ۔ اس پر نجم سیٹھی نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ ” کون جیتا ہے تیری زلف سے کے سر ہونے تک ” میں اگلے ورلڈ کپ تک ہوں گا یا نہیں ، اس لیے انہوں نے انکار کر دیا ۔ اس کے بعد نجم سیٹھی اور شہریار خان نے آئی سی سی نے پی ایس ایل کے بارے میں گفت گو کی ۔ دونوں نے بڑے جوش وخروش کا مظاہرہ کیا ۔ آئی سی سی کے کرتا دھرتاؤں نے نجم سیٹھی اور شہریار خان کو دبئی میں پی ایس ایل کرانے کے لیے آمادہ کر لیا ۔ اصل کہانی یہ تھی کہ پاکستانی کرکٹرز کو دبئی میں رات کو کھیلایا جائے تاکہ ان میں جو کھیلنے کی استعداد ہے ، اس پر وار کیا جائے اور وہ ورلڈ کپ میں ایک بہتر ٹیم کے طور پر سامنے نہ آ سکیں ۔ یہ آئی سی سی کا آپشن نمبر 2 تھا جس میں وہ کامیاب ہو گئے ۔ اگر اس میں انہیں کامیابی نہ ملتی تو انہوں نے دو اگلے آپشنز بھی استعمال کر نے تھے ۔

مضمون بہت لمبا ہوتا جا رہا ہے لیکن قوم تک سچ پہنچانا بھی ایک صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو ٹی وی پر بیٹھ کر حق و صداقت کے علم یوں لہراتے ہیں جیسے ابھی جھوٹ کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جائے گا،،ہماری بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ یہ خبر میری معلومات کے مطابق پانچ بڑے اینکرز کو معلوم ہے لیکن وہ صرف اس وجہ سے بیان نہیں کر رہے کہ انہوں نے مسلم لیگ ن سے پیسے کھائے ہوئے ہیں ۔

پاکستان کرکٹ لیگ میں دو ایسی باتیں ہوئیں جن کا پس منظر آپ کو معلوم ہوں تو آپ کانپ اٹھیں گے ۔ ایک تو یہ کہ ایک سازش کے تحت موجودہ حکومت اور اس کے نوازے ہوئے کرکٹ بورڈ نے گلگت بلتستان اور کشمیر کی ٹیموں کو پی ایس ایل میں جگہ نہیں دی ۔ یہ سازش لاہور میں مودی کے دورے کے موقع پر ون آن ون ملاقات میں طے ہوئی تھی ۔ اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم نے نجم سیٹھی کو خصوصی طور پر بلوایا اور انہیں پی ایس ایل کا ٹاسک دیا لیکن کہا کہ اس میں کشمیر میں گلگت بلتستان کی ٹیمیں نہیں ہو نی چاہییں ۔ کس طریقے سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی سازش کی گئی اور گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ تسلیم کر لیا گیا ۔ اب انڈیا عالمی فورمز پر یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہوتے تو پی ایس ایل میں ان کی ٹیمیں کیوں نہ ہوتیں ؟

یہ تھا وہ خوفناک ایجنڈا جس کے لیے مودی پاکستان کی مقدس زمین پر اترا تھا ۔ گھر کو آگ لگ گئی گھی کے چراغ سے ۔

دوسری سازش یہ تھی کہ کس طرح ملک میں لسانیت اور صوبائیت کو مزید فروغ دیکر پاکستان کو توڑنے کی راہیں ہموار کی جا سکیں ۔ اس مقصد کے لیے لاہور قلندرز ، پشاور زلمے ، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز, کراچی کنگز اور اسلام آباد یونائیٹڈ بنائی گئیں، چاروں صوبوں اور مرکز کو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کر دیا گیا ۔ ثقافت کے نام قومی قور ملی وحدت کا جنازہ نکالا گیا ۔ اور پھر آپ نے دیکھا کس طرح ایک ہی شہر میں لوگ ایک دوسرے خلاف بولنے لگے ۔ میں آپ کو اشاروں میں ہی بتا سکتا ہوں ، نہ جانے یہ حکومت کب ملک دشمنی سے باز آئے گی ،کسی نے خوب کہا تھا کہ عقل ہو تو بندہ سوچتا ہی رہتا ہے اور عقل نہ ہو تو موجیں ہی موجیں لیکن یاد رکھیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ

تاریخ کیسے لکھی جاتی ہے اور سازشی تھیوریز کو بعد میں کیسے تاریخ میں بدل دیا جاتا ہے ۔ معاشرے میں جھوٹ کیسے گھڑا جاتا ہے اورپھر کیسے اسے مارکیٹ کیا جاتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے