مِیر کو مِیر ہی سے خطرہ ہے

بیجنگ سے واشنگٹن، برلن سے برازیلیا اور ماسکو سے لے کر ٹوکیو تک حکومت، میڈیا اور شہری دگرگوں ہیں۔ ِاس طرح کی عالمی بے چینی غیر معمولی ہے- آذاد منڈی اور آذاد معیشت کے علمبردار حکمران طبقات اور اُن کے پالیسی سازوں کی محفلوں میں مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی امید یا رجائیت موجود نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندہ اخبارات کے مضامین میں مایوسی بھری ہوئی ہے۔ فنانشل ٹائمز نے گیڈؤن راکمین کا ایک مضمون شائع کیا تھا جس کا عنوان بہت دلچسپ تھا: “برباد، کچلا ہوا اور متلاطم… پوری دنیا تباہی کے دہانے پر”-

امریکہ پہلے سے بھی زیادہ وحشت ناکی کا اظہار کر رہا ہے، غریب لوگوں کو ’ریو گراندے‘ دریا کے اُس پار سے آگے آنے سے روک رہا ہے۔ رپبلکن پارٹی کا اہم صدارتی لِبرل امیدوار امریکہ میں آنے کی خواہش رکھنے والے تمام مسلمانوں پر داخلے کی پابندی کی بات کرتا ہے۔ یہ اکیسویں صدی کے لبرل طبقے کی ماں “آذاد معیشت” کی حقیقی آواز ہے: کھلی رجعت، شاونزم، دیگر اقوام سے نفرت اور کھلی نسل پرستی کی آواز۔ “بغیر سرحدوں کی دنیا” کے اصلاح پسند یوٹوپیائی لبرل آئیڈے کے برعکس قومی سرحدوں کو ہرجگہ مضبوط کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف یورپ کے گرد بارڈر کنٹرول متعارف کیا جارہا ہے بلکہ شینجن معاہدہ میں شامل ممالک کے درمیان بھی۔ شائستہ اور جمہوری سویڈن اب شائستہ اور جمہوری ڈنمارک سے آنے والے مسافروں کی تلاشی متعارف کرارہا ہے! متحدہ یورپ کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے جو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہمیشہ سے ہی ناممکن تھا۔

جھوٹے لبرل طبقے نے یورو اور شین جن معاہدوں کو معاشی یکجہتی کی بنیاد بتایا تھا- لیکن اب یہی معاہدے اپنے الٹ میں چل رہے ہیں۔ جرمنی اور جنوبی یورپ کے آپس میں گالم گلوچ پہ اُتر آئے ہیں- یونان میں عذاب اپنی طویل اذیت کے ساتھ جاری ہے اور وہاں ابھی تک کسی بھی مسئلے کا حل نہیں نکالا جا سکا۔ یورو سے یونان کا اخراج آج ہوا کہ کل ہوا۔۔۔ یہ عمل دوسرے ممالک کے یورو سے اخراج پہ منتج ہو گا۔ برطانیہ میں ایک ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے جسکا نتیجہ یورپی یونین سے اخراج ہو سکتا ہے۔ فرانس میں یورپی یونین مخالف جذبات شدت پکڑ رہے ہیں۔ نہ صرف یورو بلکہ خود یورپی یونین کا مستقبل خطرے میں ہے۔ سمجھ لیجیے لبرل ازم کے لیے قبر لبرل ازم کے ہاتھوں ہی کھٹوائی جا رہی ہے-

یہ سچ کہ شعور ماضی کی یادوں سے متعین ہوتا ہے مگر لبرل طبقے کی اصلاح پسندی کی پرانی غلط فہمیاں عوامی شعور سے نکلنے میں وقت لے رہی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ واقعات کے طاقتور تھپڑ شعور میں تیز تبدیلیاں بھی پیدا کر رہے ہیں۔ قابل رحم ہے لبرل طبقہ جو ماضی کے شعور پر تکیہ کررہا ہے۔ لبرل ازم کی یہ قنوطیت بِلاجواز بھی نہیں ہے۔ سرمایہ داری کا بحران ناگزیر طور پر اپنے متضاد کو جنم دے رہا ہے، یعنی بغاوت- آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر عوامی شعور جاگ رہا ہے۔ معاشی بحالی کی باتیں صرف ماہرینِ معیشت کی ذہنی اختراع ہیں لیکن انقلابی کیفیت کے ابھار کی پہلی علامات حقیقی اور واضح ہیں۔

جو کچھ ہم برطانیہ میں دیکھ رہے ہیں، یہ ایک سیاسی انقلاب کی شروعات ہے۔ فرانس جہاں سوشلسٹ پارٹی نے پچھلے الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کی اور فرانسو الاند غیر مقبول صدر ہے۔ یونان میں ہم نے پاسوک کا انہدام اور سائریزا کا ابھار دیکھا۔ سپین میں پوڈیموس اچانک نمودار ہوئی اور یہی عمل ہم نے آئرلینڈ کے حالیہ ریفرنڈم میں دیکھا۔ اِسی طرح سکاٹ لینڈ میں سکاٹش نیشنل پارٹی کا ابھار قوم پرستی کا اظہار نہیں بلکہ ویسٹ منسٹر میں حکمرانی کرنے والے فرسودہ اور خستہ حال ٹولے کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ اِسی طرح امریکہ میں برنی سینڈرز کا ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنا سماج میں گہری بے چینی اور اضطراب کی علامت ہے۔ اُس کے ارب پتیوں کے خلاف حملوں اور “سیاسی انقلاب” کی باتیں لاکھوں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس کی باتیں حقیقی سوشلزم سے زیادہ سکینڈنیوین سوشل ڈیموکریسی سے مماثلت رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ ایک اہم نشانی ہے کہ امریکہ تبدیل ہورہا ہے۔ روس بھی اتنا مستحکم نہیں ہے جتنا یہ دکھتا ہے۔ روسی معیشت گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں اور مغربی معاشی پابندیوں کی وجہ سے مسلسل گر رہی ہے۔ جاپان میں بھی “ایبنومکس” ریڈیکل اصلاحات کیلئے قرضوں اور تفریط زر کے چکر کا توڑ کرنا ممکن نہیں رہا۔ چین بھی مستحکم نہیں رہا۔ اب چین کیلیے پہلے جیسی شرح نمو حاصل کرلینا ناممکنات میں سے ہے۔ داخلی مالی استحکام کے بارے میں پریشانی بڑھ رہی ہے جیسا کہ پچھلی گرمیوں میں شنگھائی سٹاک ایکس چینج میں بھونچال نے واضح کردیا تھا۔ اِس پی مستزاد مشرقِ وسطٰی کی بربادیاں لبرل دنیا کے گلے کا طوق بن چُکا ہے-

لبرل ازم کے دانشور ڈھٹائی کے ساتھ اِس تباہ حال تناظر کا دفاع کر رہے ہیں- لبرل طبقے کی یہ سرمایہ داری نہ ختم ہونے والی وحشت کا روپ دھار چکی ہے۔ اِنکی وحشت کے بارے میں شکایت کرنا ایسا ہی جیسے بچہ جننے کی تکلیف کے بارے میں شکایت کی جائے۔ میری تحریر کا مقصد سرمایہ دارانہ زوال پذیری کے ناگزیر نتائج کا ماتم کرنا نہیں ہے۔ میں دنیا بھر کے لوگوں کو اِس اذیت اور ذلت کی وجوہات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں- یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اِس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا بنیادی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دیوہیکل مسائل کا حل دیوہیکل اقدامات میں ہوتا ہے۔ صرف سوشلزم کے ذریعے ہی انسانیت کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ آج یہی وہ واحد مقصد ہے جس کے لیے لڑاجاسکتا ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے